آج کل بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ماضی کے مقابلے میں طلاق کی شرح ویسے بھی زیادہ ہوچکی ہے ، اسی تناسب سے ''عدالتی فسخِ نکاح‘‘کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے، جسے عرف عام میں ''خلع‘‘ کہا جاتا ہے، حالانکہ یہ شرعی ''خُلع‘‘ نہیں ہے۔شرعی خلع یہ ہے:'' اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ یہ زوجین اللہ کی حدودکو قائم نہ رکھ سکیں گے ،تو عورت نے جوبدلِ خلع دیا ہے(شوہرکے اسے لینے میں) تم دونوں پرکوئی حرج نہیں ہے‘‘(البقرہ:229)۔ اس ارشاد باری تعالیٰ کی رو سے ''خلع ‘‘ یہ ہے کہ زوجین جب اس نتیجے پر پہنچ جائیں کہ وہ شرعی حدودکے اندر رہتے ہوئے اپنی ازدواجی زندگی قائم نہیں رکھ سکیں گے اور شوہر یک طرفہ طور پر طلاق دینے پر آمادہ نہیں ہے ،تو پھر بیوی نے نکاح کے موقع پر جو ''حقِ مہر‘‘لیا ہے، وہ شوہر کو واپس کردے اور شوہر اُس کے عوض اُسے طلاق دے دے، یہ ''طلاق بائن‘‘ ہوتی ہے، اس کے بعد شوہر کو عدت کے اندر بھی یک طرفہ رجوع کا حق نہیں رہتا، البتہ دونوںباہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں، بشرطیکہ ایک ہی طلاق دی ہو۔
''خلع‘‘قاضی کے یک طرفہ حکم سے نافذ نہیں ہوتا، اس پر زوجین کی رضا مندی ضروری ہے اور قاضی کو چاہئے کہ ترغیب یا ترہیب سے شوہر کو آمادہ کرے۔ فیملی کورٹس کے جج صاحبان عام طور پر شرعی حدود کی رعایت نہیں کرتے، بس صرف قانونی تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہیںاور اس سلسلے میں ضابطۂ قانون کو اور آسان بنا دیا گیاہے۔ اس لئے آئے دن لوگ عدالت سے ''فسخ ِنکاح‘‘ کی ڈگری لے کر دارالافتا ء میں آتے ہیںکہ یہ شریعت کے مطابق ہے یا نہیں؟ کسی بھی مفتی کے لیے ہر فیصلے کی توثیق دشوار ہوتی ہے، بلکہ ''عدالتی ڈگری ‘‘ کے باوجود اسے معاشرہ بھی آنکھیں بند کرکے قبول کرنے لئے تیار نہیں ہوتا اور معاشرتی اخلاقی اقدار اور معاشرتی مزاحمت کی بھی اپنی ایک طاقت ہوتی ہے۔ بیشتر فیصلے '' قضا علی الغائب‘‘ہوتے ہیں۔ ہمارے جج صاحبان بھی ماشاء اللہ مسلمان ہیں اور انہیں یہ معلوم ہے کہ مجرد دعویٰ ثبوتِ دعویٰ کے لئے کافی نہیں ہوتا، بلکہ ہر مقدے میں مُدَّعی سے اس کے دعوے کے حق میں ثبوت مانگا جاتا ہے، ''مُدّعیٰ علیہ ‘‘ کو اپنی صفائی اور وضاحت کا موقع دیا جاتا ہے کہ یاتو وہ بیوی کی طرف سے عائد کیے ہوئے الزامات کو تسلیم کرے ورنہ اپنی برأت پیش کرے۔آج کل بالعموم یہ ہوتاہے کہ ''مُدّعیٰ علیہ‘‘نہ تو اصالتاً اور نہ ہی وکالتاً عدالت میں حاضر ہوتا ہے، اس کو عدالت کی جانب سے رسمی طور پر سمن جاری ہو جاتاہے،بیلف چلاجاتا ہے ، اس کے دروازے پر نوٹس چسپاں کرآتاہے یااخبارات میں اشتہار دے دیا جاتا ہے۔ عام لوگ کب اطلاعِ عام کے اِن روزہ مرّہ اشتہارات کو پڑھتے ہیں ۔ جج کے منصب کوقوت سربراہِمملکت کی طرف سے حاصل ہوتی ہے، لہٰذا جج پر لازم ہے کہ وہ پولیس کو پابند بنائے کہ وہ ''مُدّعیٰ علیہ‘‘ کو عدالت میں پیش کرے، کیونکہ یہ محض دادرسی اور حق طلبی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ حلال وحرام کا بھی مسئلہ ہے۔ چنانچہ جب ہم معلوم کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ اکثر صورتوں میں''مُدّعیٰ علیہ‘‘ ملک میں موجود ہوتا ہے اور اس کا صحیح پتابھی فریق ِمخالف کو معلوم ہوتاہے۔ یہ استثنا صرف ان مقدمات میں معتبر ہوسکتا ہے ، جہاں ''مُدّعیٰ علیہ‘‘یا تو بالکل لاپتا ہو یا ملک سے باہر ہو، تاہم وہاںبھی ممکنہ طور پر پاکستانی سفارت خانے کی مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔
جج کو اس بات کا پابند ہونا چاہئے کہ وہ ان وجوہ کو باقاعدہ قلمبندکرے، جن کی رو سے اس کے اطمینان اور پیش کردہ ثبوت وشواہد کے مطابق عورت کے لئے عملاً ممکن نہیں رہاکہ وہ شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے رشتۂ ازدواج کو قائم رکھ سکے یا اس کے فتنہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے، ان میں سے بعض وجوہ کا تذکرہ ہم آگے چل کر کریں گے۔الغرض'' فسخِ نکاح‘‘ اور خُلع کے معاملات کو الگ کردینا چاہئے۔''فسخِ نکاح ‘‘کے مقدّمے میں صرف اتنی بات کافی نہیں کہ عورت کہے کہ میں شوہر کے ساتھ رہنا ہی نہیں چاہتی ،جب کہ شرعی معیار پر اس کی قابلِ قبول وجوہ موجودنہ ہوں۔ اگر خدانخواستہ قانون میں سقم ہے تو جج صاحبان کو پھر بھی شریعت کی رعایت اور حلال وحرام کی نزاکت اور حسّاسیّت کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔بعض حضرات درجِ ذیل حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ قاضی کو معقول وجوہ کے بغیر بھی ''فسخِ نکاح‘‘ کا اختیار حاصل ہے: ''عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ثابت بن قیس بن شماس کی بیوی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی:یارسول اللہ! ثابت کے دین اور اخلاق کے بارے میں مجھے کوئی شکایت نہیں ہے، مگر یہ کہ میں اسلام میں رہتے ہوئے کفر( ناشکری اور شوہر کی نافرمانی)سے ڈرتی ہوں، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیا تم وہ باغ (جو ثابت نے نکاح کے وقت مہر میں دیاتھا) اسے واپس کر دوگی، اس نے عرض کی: جی ہاں! چنانچہ اس نے (مہر میں لیا ہوا) وہ(باغ)شوہر کو واپس کر دیا، رسول اللہ ﷺ نے (ثابت سے) فرمایا: باغ قبول کرلو اور اسے ایک طلاق دے دو‘‘ (بخاری : 5273) بخاری میں اس سے اگلی روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اسے (ثابت کو) طلا ق کا حکم فرمایا اور ثابت نے طلاق دے دی، اس سے آگے ایک اور روایت میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے ثابت کو حکم فرمایا تو انہوں نے بیوی سے(بذریعہ طلاق)علیحدگی اختیار کرلی۔
یہ حدیث ''فسخِ نکاح‘‘ سے متعلق نہیں ہے، یعنی یہ نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بحیثیت ِحاکم وقاضی نکاح فسخ فرمایا بلکہ آپ نے بیوی کو مہر واپس کرنے اور شوہر کو طلاق دینے پر آمادہ فرمایا اور یہی خلع ہے۔شریعت کا تقاضا ہے کہ جج صاحبان فسخِ نکاح کو آخری اورناگزیر امکانی صورت کے طور پر اختیار کریں۔ جج کی پہلی ترجیح زوجین میں مصالحت ہونی چاہیے، دوسری شوہر کو رضا کارانہ طلاق پر آمادہ کرنا اور تیسری دونوں کو خلع پر آمادہ کرنا ہونی چاہئے، کیونکہ اگر چہ شریعت نے انتہائی ناگزیر صورتِ حال میںزوجین میں طلاق یا تفریق کی گنجائش رکھی ہے ، لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام حلال امور میں یہ سب سے زیادہ اس کے غضب کا باعث ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو قاضی یا حاکم سے زیادہ تصرف کا حق حاصل ہے،ارشادِباری تعالیٰ ہے:'' نبی کو مومنوں پر اس سے زیادہ تصرف کاحق حاصل ہے، جتنا خود ان کو اپنی ذات پر ہے‘‘ (الاحزاب: 6)۔ اس لئے رسول اللہﷺ کا فیصلہ بہر حال نافذ ہے اورآپﷺ وجوہ کو بتانے کے پابند نہیں ہیں ، جبکہ عام جج اور حاکم کی ولایت شرعی حدود کی پابند ہے۔فقہِ حنفی میں ''عدالتی فسخِ نکاح‘‘ کے بارے میں بہت زیادہ احتیاط سے کام لیا گیا ہے اور احتیاط میں یہ شدّت اس لئے اختیار کی گئی ہے کہ یہ حلال وحرام کا مسئلہ ہے، تاہم آ ئِمّۂ ثلاثہ کے نزدیک بعض قیود کے ساتھ اس کی گنجائش موجود ہے اور فقہِ حنفی میں بھی یہ اصول مُسَلّم ہے کہ شدیدضرورت کی بنا پر فسخِ نکاح کے لئے دوسرے آئِمّہ کے قول پر فیصلہ دیا جاسکتا ہے، ان میں سے چند صورتیں یہ ہیں:شوہر بے انتہا مارپیٹ کرتاہے،جسمانی و ذہنی اذِیّت میں مبتلارکھتا ہے، نہ حقوق ادا کرتا ہے نہ طلاق دے کر گلوخلاصی کرتاہے، بس اسے معَّلق رکھنا چاہتا ہے یاشوہر نان نفقہ نہیں دیتا اور بیوی کے پاس کفالت کا کوئی اور ذریعہ بھی نہیں ہے، عجز کی بنا پر بیوی کے فتنہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے۔ یاشوہر کسی مُوذِی مرض میں مبتلا ہے، جیسے برص وجذام یاکینسر وغیرہ اور نکاح کے وقت بیوی کو معلوم نہیں تھا،اسے دھوکے میں رکھا گیاتھا، بعد میںا س پریہ حقیقت ظاہر ہوئی، اگر وہ اس کے باوجود رشتۂ ازدواج کو قائم رکھنا چاہے تو یہ اس کے لئے سعادت کی بات ہے، اللہ تعالیٰ کے ہاں آخرت میں اجر پائے گی، لیکن اگر وہ کسی طور پر بھی آمادہ نہ ہوتو جج نکاح فسخ کر سکتا ہے یاشوہر کو خدانخوستہ طویل قید (جیسے پندرہ سال یا عمر قید)ہوگئی ہے اور بیوی جواں عمر ہے، اس کے لئے اپنے فطری جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے حدودِ شرع میں رہنا ممکن نہیں ہے اور گناہ میں مبتلاہونے کا اندیشہ ہے یاکوئی اس کا کفیل نہیں ہے یاشوہر بلاسبب طویل عرصے تک حقوقِ زوجیت ادا نہیں کرتایاشوہر مجنون ہوگیا، مناسب وقت گزرنے پر بھی علاج سے صحت یاب نہ ہوسکا، اس کے جنون سے بیوی کے جسم وجاں کو خطرہ لاحق ہے یا وہ اب حقوقِ زوجیت کی ادائیگی اور بیوی کی کفالت کا اہل ہی نہیں رہا وغیرہ۔لیکن ان تمام صورتوں میں جج صاحب کو وجوہ ریکارڈ پر لانی ہوں گی اور یہ کہ عدالت میں مدعیہ کے یہ الزامات درست ثابت ہوئے، بعض امور میں ماہرین کی رائے درکار ہوتی ہے۔
آخر میں میری دردمندانہ گزارش ہے کہ اگر کوئی عورت خدانخواستہ خوفِ خدا سے عاری ہے، اس پر نفسانی خواہشات یا ہوسِ زر کا غلبہ ہے یاعشرتوں کی دلدادہ ہے اور کسی بھی قابلِ قبول سبب کے بغیر شوہر کے ساتھ بہرصورت رہنے کے لئے تیا ر نہیں ہے ، تو ایسی صورتِ حال میں شوہر کو چاہئے کہ وہ رضاکارانہ طور پرخُلع پر آمادہ ہوجائے یا یک طرفہ طور پر طلاق دیدے،اس پر وہ عنداللہ اجر کا حق دار ہوگا اور عورت فتنہ اور گناہ میں مبتلا ہونے سے بچ جائے گی اور اگر شوہر رضاکارانہ طور پر اس پر آمادہ نہ ہوتو عدالت مناسب دباؤ ڈال کراس سے طلاق دلوائے۔ اپنی رائے کو عینِ اسلام اور غالب اکثریت کے فقہی موقف کو مسلکی عصبیت قرار دینا قرینِ انصاف نہیں ہے۔