یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصۂ محشر میں ہے
میاں نواز شریف ایک بار پھر گہری کھائی اور شیطان کے درمیان کھڑے ہیں۔ سوچنا انہیں یہ ہے کہ وہ سابق صدر آصف علی زرداری سے دوستی اور مفاہمت نبھائیں یا کراچی میں آپریشن کو کامیابی سے ہمکنار کریں۔ یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔
کراچی میں نیشنل ایکشن پلان اور اس پر عملدرآمد کے لیے یکسو فوج اور رینجرز کے راستے میں رکاوٹ کوئی اور نہیں وہ فرسودہ‘ ناکارہ اور سست رفتار انتظامی ڈھانچہ ہے جس پر موجودہ صوبائی حکومت کا انحصار ہے یا پھر وہ ڈھیٹ سیاسی گروہ جو لوٹ کھسوٹ‘ بھتہ خوری‘ اغوا برائے تاوان حتیٰ کہ ٹارگٹ کلنگ کو جرم سمجھتا ہے نہ اقتصادی دہشت گردی کی روک تھام میں سنجیدہ اور نہ جسے ملک کی معاشی شہ رگ اور صوبہ سندھ میں قیام امن سے خاص دلچسپی۔ ورنہ قائم علی شاہ کو ٹیم کا کپتان برقرار رکھنے اور آپریشن کی کامیابی کے لیے پیش کی گئی ہر تجویز کو سرد خانے میں ڈالنے کی کیا تک ہے۔
بدگمانی سے اللہ بچائے۔ میاں صاحب ملکی ترقی اور خوشحالی کے منصوبوں کی تکمیل کے لیے تمام ملک بالخصوص کراچی میں قیام امن کے فوائد سے آگاہ ہیں اور دل سے چاہتے ہیں کہ کراچی آپریشن کامیابی سے ہمکنار ہو مگر ماضی کے بعض ناخوشگوار تجربات کی بنا پر وہ فوج اور رینجرز کی ماننے سے انکاری ہیں اور سکیورٹی اداروں کے حوالے سے بدگمانی کا شکار‘ ان کے بعض ساتھی بھی یقیناً انہیں وقتاً فوقتاً یہ باور کراتے ہیں کہ ماضی کے تجربات کو نہ بھولیں۔
سابق صدر آصف علی زرداری بھی انہیں مفاہمتی سیاست کا سبق پڑھاتے اور سیاست کی آڑ میں سنگین جرائم کے مرتکب افراد اور گروہوں کو دیوار سے لگانے کے بجائے ان سے درپردہ بنائے رکھنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ آصف علی زرداری نے بطور صدر اور ان کی وفاقی و صوبائی حکومتوں نے پرلے درجے کی نااہلی‘ بے عملی اور مبینہ طور پر بے نظیر و بے مثال کرپشن کے باوجود پانچ سال پورے کیے‘ اس لیے وہ موجودہ حکمرانوں کے لیے قابل رشک و تقلید نمونہ ہیں۔
اس مفاہمتی سیاست کے طفیل صرف کراچی اور سندھ ہی نہیں‘ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی لینڈ مافیا‘ ڈرگ مافیا‘ واٹر مافیا‘ قبضہ مافیا‘ این جی او مافیا‘ اسلحہ مافیا اور اغوا مافیا دندنا رہا ہے اور پولیس‘ انتظامیہ‘ قانون اور ریاست ان پر مضبوط ہاتھ ڈالنے سے قاصر ہے۔ یہ مافیاز جانتے ہیں کہ موجودہ جمہوری اور سیاسی نظام نامی طوطے کی جان ان کے قبضے میں ہے اور میاں مٹھو وہی بولے گا جو چُوری کھانے اور کھلانے والوں نے اسے رٹا رکھا ہے۔
جلاوطنی کے زمانے میں میاں صاحب نے لندن میں ایک آل پارٹیز کانفرنس بلائی تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے برطانوی دارالحکومت میں موجودگی کے باوجود کانفرنس میں شرکت نہ کی کیونکہ جنرل (ر) پرویز مشرف سے ان کی درپردہ مفاہمت خطر ے میں پڑ سکتی تھی۔ میاں صاحب نے اس کانفرنس میں ایم کیو ایم کو شرکت کی دعوت دینا تو درکنار ایک قرارداد منظور کرائی کہ آئندہ کوئی سیاسی جماعت اس سے اتحاد نہیں کرے گی‘ مگر اب صورتحال مختلف ہے اور ایم کیو ایم کے حوالے سے آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف ایک صفحے پر نظر آتے ہیں جبکہ رینجرز کی قیادت صرف ایم کیو ایم نہیں پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کے دبائو کا شکار ہے۔ ڈی جی رینجرز کی طرف سے جاری کردہ پریس ریلیز کو دونوں جماعتوں نے مسترد کر دیا جبکہ وزیر اعظم نے 20 بااثر شخصیات کے خلاف کارروائی کا حکم بھی صوبائی حکومت کو دیا۔
اگر صوبائی حکومت اور اس کے ماتحت ادارے اس قابل ہوتے تو رینجرز پولیس کی جگہ تعینات کیوں ہوتی اور شہر میں قیام امن کی ذمہ داری اسے کیوں سونپی جاتی۔ اس کے علاوہ رینجرز نے جن لوگوں کو مجرم اور ان کا سرپرست قرار دیا‘ ان میں سے بیشتر کا تعلق برسر اقتدار گروہ سے ہے‘ رینجرز نے جن پر فرد جرم عائد کی‘ انہیں ہی اگر تحقیق و تفتیش اور سزا و جزا کا اہتمام کرنا ہے تو پھر ہو چکا انصاف اور کراچی میں امن قائم۔ اس پر بھی اخباری اطلاعات کے مطابق آصف علی زرداری خوش نہیں اور انہوں نے سید قائم علی شاہ کے ذریعے وزیر اعظم کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔
پنجابی میں کہتے ہیں 'بھینسیں بھینسوں کی بہنیں ہوتی ہیں‘۔ آپریشن ضرب عضب کے آغاز سے اب تک ہمارے سیاستدانوں نے اس محاورے کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔ ان کی کوشش ہے آپریشن بھلے (خدانخواستہ) کامیاب نہ ہو مگر کسی سیاستدان اور اس کے کارندے کو کوئی گزند نہ پہنچے خواہ وہ دہشت گردوں کا سرپرست اور ساتھی ہو‘ پرلے درجے کا لٹیرا یا سندھ اور کراچی کے عوام کی زندگیوں سے کھیلنے والا سفاک درندہ۔
صاف نظر آ رہا ہے کہ کراچی آپریشن کے حوالے سے حکومت اور فوجی قیادت کے مابین اتفاق رائے مفقود ہے۔ نیشنل ایکشن پلان پر قومی اتفاق رائے آہستہ آہستہ تحلیل ہو رہا ہے اور نظر بظاہر ملک کو دہشت گردی سے نجات دلانے کا سارا بوجھ فوج اور اس کے معاون و مددگار اداروں کے کندھوں پر آ پڑا ہے‘ کیونکہ ہماری جمہوری قیادت کو سیاست اور گروہی مفاد عزیز ہے۔ جسد ریاست کو ٹارگٹ کلرز‘ اغواکار اور قاتل نوچیں یا ''را‘‘ اور موساد‘ کے ایجنٹ ان کی بلا سے۔ ورنہ اب تک اپیکس کمیٹی کی چیخ پکار پر کوئی کان دھرتا‘ تاجروں اور صنعت کاروں کی فریاد کوئی سنتا اور فوج‘ خفیہ ایجنسیوں اور رینجرز کی طرف سے پیش کردہ تجاویز پر عملدرآمد کا اہتمام کیا جاتا۔
بدگمانی کا شکار بعض حلقے اب یہ قیاس آرائیاں کرنے لگے ہیں کہ موجودہ سیاسی اشرافیہ فوج کو شمالی وزیرستان‘ کراچی اور بلوچستان میں الجھائے رکھنا چاہتی ہے‘ وہ نہیں چاہتی کہ قیام امن کا ہدف حاصل کر کے فوج اطمینان سے اپنے اصل فرائض پر توجہ دے سکے۔ کبھی مشرقی اور کبھی مغربی سرحدوں پر کشیدگی کو بھی مفاہمتی سیاست کے کھلاڑیوں کی شاطرانہ چال قرار دیا جاتا ہے جو اپنے بیرونی سرپرستوں کے ذریعے چلی جا رہی ہے تاکہ دبنگ اور پُرعزم آرمی چیف جنرل راحیل شریف اپنی مدت ملازمت اسی تگ و دو میں پوری کریں اور گلشن کا کاروبار اسی ڈھب سے جاری رہے جیسا عشروں سے چل رہا ہے۔ لوٹ مار کا بازار اوپر سے نیچے تک گرم ہو اور انہیں کسی قسم کے احتساب و مواخذہ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
حالات مگر اب اس نہج پر چل پڑے ہیںکہ چوہے بلی کا یہ کھیل زیادہ دیر چل نہیں سکتا۔ فوجی قیادت کو بخوبی یہ احساس ہے کہ موجودہ فرسودہ‘ ازکار رفتہ اور کرپٹ نظام ملک کی جڑیں کھوکھلی کر چکا‘ اب یہ قومی دفاع اور ملکی سلامتی کے لیے خطرہ بن گیا ہے اور سیاست کی آڑ میں اس کھیل کا جاری رہنا پاکستان کے مفاد میں ہے‘ نہ ان اداروں کے جو دفاع وطن کا حلف اٹھا چکے ہیں۔ اتفاق سے موجودہ فوجی قیادت ماضی کے بعض سربراہوں کے برعکس طبقاتی اور گروہی مفاد کو ترجیح دینے اور اقربا نوازی‘ اور دوست پروری کی راہ پر گامزن نہیں‘ جس کا ایک ثبوت سابق آرمی چیف کے دو بھائیوں کی نیب میں طلبی ہے۔ عین ممکن ہے کہ اگلے چند ماہ میں بعض سابق جرنیل بھی نیب کے روبرو اپنی صفائیاں پیش کرتے نظر آئیں‘ جن کی فائلیں جی ایچ کیو میں دبا دی گئی تھیں اورپھر قرعۂ فال ان عادی لٹیروں کے نام نکلے جو اپنے کالے کرتوتوں پر جمہوریت کا پردہ ڈال کر ہر بار احتساب سے بچ نکلے۔
موجودہ فوجی قیادت کے بارے میں عمومی رائے یہی ہے کہ یہ ملک کو امن و آشتی کا گہوارہ بنانا چاہتی ہے‘ قانون کی عملداری قائم کرنے کے درپے ہے اور جمہوری نظام کا ہر قیمت پر دوام و استحکام چاہتی ہے مگر نیشنل ایکشن پلان کے راستے میں اگر موجودہ جمہوری نظام رکاوٹ بن جائے اور سیاسی اشرافیہ قومی اداروں اور ملک کے ساتھ بھی سیاست‘ سیاست کھیلنا شروع کر دے تو مضبوط سے مضبوط اعصاب کا مالک انسان کتنی دیر تک تحمل‘ برداشت اور رواداری کا مظاہرہ کر سکتا ہے اور جمہوریت کے نام پر ریاست اور اس کے دفاع پر مامور ادارے بلیک میل ہو سکتے ہیں۔ ENOUGH is ENOUGH۔
چمن تک آ گئی دیوار زنداں ہم نہ کہتے تھے
بڑے خطرے میں ہے صحنِ گلستان ہم نہ کہتے تھے
میاں صاحب اور ان کے ساتھیوں کو آصف علی زرداری‘ الطاف حسین اور اسفند یار ولی پر مبنی غیر مرئی اتحاد اور نیشنل ایکشن پلان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا‘ کیونکہ دہشت گردوں‘ تخریب کاروں اور لٹیروں کے اتحاد کی سرپرستی کرنے والی قوتوں نے دبائو بڑھا دیا ہے اور ان کے ایجنٹوں نے اپنی سرگرمیاں مزید تیز کر دی ہیں۔ اس مرحلہ پر تذبذب‘ بے عملی اور دو عملی نقصان دہ اور اس پر اصرار تباہ کن ثابت ہو گا۔ میاں صاحب عرصۂ محشر میں ہیں۔ غیر معمولی ذہانت‘ دانائی اور تسلی بخش کارگزاری ہی انہیں سرخرو کر سکتی ہے۔
آصف علی زرداری اور جنرل راحیل شریف کے لیے مضمون واحد ہے۔