قلم اٹھایا تو سمجھ نہیں آیا کیا لکھوں۔ سوچا‘ پاک بھارت موجودہ صورت حال پر لکھا جائے۔ ایاز امیر کا انگریزی کالم پڑھا تو قلم ساتھ چھوڑ گیا ۔ ان کے شاندار کالم کے بعد نیا کیا لکھا جائے گا؟ لگتا ہے ایاز امیر نے دریا نہیں سمندر کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔
کیا کریں ہماری قسمت ہی ایسی ہوچکی ہے ہر بڑھک کا جواب جب تک بڑھک سے نہ دیں ہمیں نیند نہیں آتی۔ ایک بڑھک وہاں سے آتی ہے، جواباً ہم بڑھک مارتے ہیں اور پھر بڑھکوں کا مقابلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ایک دن جب بڑھکیں ختم ہوجاتی ہیں تو پھر امریکہ بہادر کے دربار میں دونوں حاضر ہوتے ہیں ۔ نئے سرے سے اچھے بچے بننے کا وعدہ کر کے لوٹ آتے ہیں اور چند برس آرام سے گزر جاتے ہیں اور پھر ایک دن وہی پرانی بڑھک ۔ یہ وہ سلسلہ ہے جو میں برسوں سے دیکھ رہا ہوں ۔مجھے اب پاک بھارت بیانات اور دھمکیوں میں کوئی دلچسپی نہیں رہ گئی ۔ دونوں حکومتوں کو اپنے لوگوں اور ان کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ہاں ان بڑھکوں کی مدد سے چند روز کے لیے دونوں اپنے اپنے اہم مسائل سے توجہ ہٹانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں اور پھر وہی پرانی ڈگر۔اب تو میرے اندر بھی یہ خواہش ختم ہوگئی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان اچھے تعلقات قائم ہوں۔ جو شاید کبھی نہیں ہوں گے۔ وجوہ لکھوں گا تو بھانبڑ مچے گا لہٰذا بہتر ہے میں اپنا منہ بند رکھوں۔ جو لوگ تقسیم کے وقت ہونے والے فسادات سے متاثر ہوئے ہیں‘ ان کے لیے مشکل ہے کہ وہ اپنے ماضی سے نکل سکیں ۔ ہم نئی شروعات کبھی نہیں کر سکیں گے۔ چند دنوں کے لیے تعلقات بہتر ہوبھی جائیں تو نان سٹیٹ ایکٹر ایسا کام کرتے ہیں کہ دونوں ملک جنگ کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں۔ وطن واپس لوٹ کر وہی نان سٹیٹ ایکٹرز ہیروز ٹھہرتے ہیں۔ انہیں ریاستی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے اور وہ ٹی وی اور اخبارات میں فارن پالیسی سمجھاتے ہیں ۔
بھارت بھی یہی کچھ کرتا آیا ہے۔ اس نے بھی پاکستان کے اندر پراکسی جنگیں تیز کر دی ہیں۔ بھارت کبھی نہیں سمجھ سکے گا کہ معاشی طور پر بدحال پاکستان اس کے لیے زیادہ خطرناک ہوگا۔ غریب پاکستان میں نان سٹیٹ ایکٹرز زیادہ کامیاب ہوں گے۔ ایک مستحکم اور خوشحال پاکستان بھارت کے بھی فائدے میں ہے۔
اس کے برعکس بھارت سمجھتا ہے غریب اور دہشت گردی کا شکار پاکستان اسے سوٹ کرتا ہے۔ اب تو رہی سہی کسر بھی پوری ہوگئی ہے۔ بھارتی وزیر فرماتے ہیں‘ ہاں اب ہم پاکستان کے اندر دہشت گردی کریں گے اور کھل کر کریں گے۔ یوں دونوں ملک پراکسی وارز کھیل رہے ہیں ۔ دونوں اطراف سے مرتے عام شہری ہیں ۔ ہم نے اپنے نان سٹیٹ ایکٹرز کھلاڑی پال رکھے ہیں جنہیں ہم استعمال کرتے ہیں اور بھارت نے ہمارے اندر دہشت گردی کرانے کے لیے کرائے پر ہمارے اندر سے ہی بندے بھرتی کر لیے ہیں۔ اللہ اللہ خیر سلا۔
پاکستانیوں کی اکثریت کو وزیراعظم نواز شریف سے بہت زیادہ شکایت ہے کہ انہوں نے مودی کی طرح بڑھکیں کیوں نہیں ماریں۔ میرا خیال ہے انہوں نے درست اور مناسب رویہ اختیار کیا ہے۔ کوئی ضرورت نہیں مودی کی طرح بڑھکیں مارنے کی۔ ضرورت پڑی تو جنگ بھی لڑ لیں گے۔ گرجنے برسنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ویسے بھی وزیراعظم نواز شریف سے بہتر کون جانتا ہے کہ ماضی میں بھی جنرل مشرف نے بھارت کے خلاف اس طرح کا جنگی ماحول تیار کیا اور پھر اس کی بنیاد پر ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور خود موصوف آگرہ محل کے سامنے اپنی بیگم صاحبہ کے ساتھ پورا فوٹو سیشن کرانے پہنچ گئے۔ جب سیاستدان حکومت میں ہوتے ہیں تو ہمارے خاکی دوست، بھارت دشمن اور فوجی بغاوت کے بعد وہ بھارت کے ساتھ تعلقات درست کرنے لگ جاتے ہیں۔ اس لیے وزیراعظم نواز شریف درست رویہ اپنائے ہوئے ہیں ۔ویسے بھی اگر جنگ چھڑنے کی صورت میں وزیراعظم سے کہا جائے گا کہ وہ اچانک جہاز پکڑیں اور امریکہ جا کر جنگ رکوائیں تو پھر بہتر ہے کہ ماحول کو اس سطح پر نہ لایا جائے کہ دونوں ملکوں کو امریکہ کی ضرورت پڑ جائے۔
امریکہ سے یاد آیا پچھلے دنوں چند اہم امریکی عہدے داروں کی چند کتابیں پڑھیں ( ان سے معذرت جنہیں کتاب سے سخت الرجی ہے) تو پتہ چلا کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔ امریکی ہنستے ہیں کہ کس خطے کے لوگوں سے واسطہ پڑا ہے اور ان کی کیا ترجیحات ہیں۔ امریکی اس بات پر بھی حیران ہوتے ہیں کہ ان کی تاریخ میں اگر کسی امریکی صدر نے پاکستان کی خطرناک حد تک مدد کی تو وہ نکسن تھے اور آج پاکستان میں نکسن کو کوئی جانتا تک نہیں۔ اگر ہم اپنے بیرونی دوستوں کی فہرست تیار کریں تو شاید نکسن کا نام سب سے اہم ہوگا ۔ بروس ریڈل لکھتے ہیں کہ 1971ء کی جنگ میں جس طرح نکسن نے کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا‘ اس نے پوری امریکی انتظامیہ کو پریشان کر دیا تھا اور نکسن کے بعد پتہ نہیں کتنے برس نئے صدر کو لگے کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات دوبارہ درست کرے۔ تو کیا ہوا؟ ہم آج تک نکسن کا مذاق اڑاتے ہیں کہ اس کا چھٹا بحری بیڑا نہ پہنچا۔ بروس ریڈل کو پڑھیں تو وہ لکھتے ہیں پاکستانیوں کو یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ 1965ء کی جنگ کے بعد امریکہ نے پاکستان پر فوجی پابندیاں لگا دی تھیں‘ اس لیے جب جنگ شروع ہوئی تو نکسن فوری طور پر پاکستان کو فوجی امداد نہیں دے سکتے تھے؛ تاہم نکسن نے ہنری کسنجر کے ذریعے فوراً ایران، ترکی، مصر، اردن اور دیگر ملکوں سے کہا کہ پاکستان کو جتنا امریکی اسلحہ چاہیے وہ فوراً فراہم کریں۔ اس دوران نکسن نے کسنجر سے کہا کہ وہ چینی سفیر سے ملاقات کرے اور انہیں کہے‘ وہ فوراً بھارت کو اپنی سرحد پر مصروف کرے تاکہ مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج پر دبائو کم ہو۔ اتنی دیر میں نکسن نے بحری بیڑا بھیجنے کا فیصلہ کیا ۔ چینی سفیر کبھی مڑ کر کسنجر سے نہیں ملا اور وہ انتظار کرتے رہ گئے۔ ا بھی بیڑا نہیں چلا تھا کہ پتہ چلا پاکستان تو ہتھیار ڈال چکا ہے۔ امریکی حیران رہ گئے کہ ابھی تو جنگ شروع ہوئی اور ہتھیار ڈال دیے گئے تھے۔ امریکی سمجھ رہے تھے کہ شاید پاکستان بھی یورپی قوموں کی طرح جنگ عظیم اول اور دوم جیسی پانچ پانچ سال کی طویل جنگ لڑے گا ۔ وہ جنگ دو ہفتے بھی بمشکل چل سکی۔
ہم اپنی غلطیاں نہیں دیکھتے اور دوسروں پر چڑھائی کیے رکھتے ہیں۔ آج تک ہم نے یہ نہیں دیکھا ہم نے کیسے دو ہفتے میں وہ جنگ ہار دی تھی۔ اگر ہماری نئی نسل کو اس دور کی تاریخ پڑھائی جائے اور اس میں نکسن کا پاکستان کی مدد کے لیے ادا کیا گیا کردار دیکھا جائے تو شاید پاکستان میں نکسن کا مجسمہ بنایا جاتا کہ وہ اس وقت واحد امریکی صدر تھا جس نے اپنا سب کچھ دائو پر لگا کر پاکستان کی مدد کی اور ہم اس کا ہی مذاق اڑاتے ہیں کہ اس کا بحری بیڑا نہیں پہنچا۔ اس کے جواب میں ہمارے دانشور فرماتے ہیں جناب نکسن نے کون سا احسان کیا تھا‘ وہ ہمارے راستے چین تک پہنچنا چاہتا تھا۔ عام زندگی میں دوست ایک دوسرے کو فیور کرتے ہیں اور جواباً لیتے بھی ہیں۔ دوست ہوتے ہی اس کام کے لیے ہیں کہ مشکل میں آپ ان کی مدد کرتے ہیں اور وہ آپ کی‘ لیکن یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس وقت چینی بھی پاکستان کی مدد کو تیار نہ تھے اور پاکستان ٹوٹ گیا تھا ۔
اس کے بعد بھی کتنی دفعہ یہ ہوا کہ امریکہ کو پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات درست کرانے پڑے۔ ہمارے ذہنوں میں صرف کارگل آتا ہے ورنہ اس سے پہلے بھی کئی دفعہ پاکستان اور بھارت اپنی فوجیں بارڈرز پر لائے ہوئے ہیں اور یہ امریکی تھے جو ان دونوں کو جنگ کے دہانے سے پیچھے لے گئے۔ ہم کہتے ہیں کہ جناب یہ امریکہ کی اپنی مجبوری تھی۔ ہوگی‘ لیکن پھر بھی یہ ثابت ہوا کہ ہم اس قابل نہیں رہ گئے کہ براہ راست مذاکرات کر سکیں۔ بھٹو اور اندرا گاندھی کا آخری براہ راست معاہدہ شملہ میں ہوا تھا ۔ جنرل ضیاء اور دیگر کے بھٹو کے خلاف عناد کی وجہ سے شملہ معاہدہ کی وہ اہمیت نہ رہی جو ہونی چاہیے تھی۔
چلیں جب تک پاکستان اور بھارت بڑھکیں مارنے میں مصروف ہیں، آپ ایک خط پڑھیں۔
''السلام علیکم انکل! میں ایک دینی مدرسے میں پڑھتا ہوںاور ساتھ میں بی اے کر رہا ہوں۔ نظریاتی طور پر آپ سے اتنا ہی دور ہوں جتنا آپ کا مرحوم ملتانی دوست ذوالکفل بخاری تھا۔ اس کے باوجود آپ کے کالم انتہائی چاہت سے پڑھتا ہوں اور آپ سے والہانہ عقیدت رکھتا ہوں۔ انکل ستر سال سے ہماری بستی پختہ سڑک سوئی گیس ، سیوریج، مرکز صحت اور مڈل سکول سے محروم ہے اور اسی فیصد لوگ آج بھی بخار میں صرف ڈسپرین پر گزارا کرتے ہیں۔ چالیس فیصد بچے سکول کی بجائے جبری مشقت کا شکار ہیں۔ یہ صرف میرا نوحہ نہیں بلکہ پنجاب کے 85 فیصد دیہات کا یہی حال ہے۔ میرا سوال ہے کہ 35 کلومیٹر کی میٹرو بس پر 70 ارب روپے خرچ کیے جارہے ہیں (شاید اس نوجوان تک یہ خبر نہیں پہنچی کہ نئے بجٹ میں لاہور میں 26 کلو میٹر طویل میٹرو ٹرین کے لیے ایک سو ساٹھ ارب روپے رکھے گئے ہیں) اور ہمارے دیہات میں زندگی سسک سسک کر دم توڑ رہی ہے۔ کوئی تو ان حکمرانوں کو سمجھائے۔ ہاں انکل اگر کبھی آپ خانیوال کے شہر عبدالحکیم آئیں تو ہمارے گائوں بھی ضرور آیئے گا۔ میری نانی اماں بڑا عمدہ زردہ پلائو پکا لیتی ہیں‘‘۔ محمد فاروق حیدر بستی دین پور نزد عبدالحکیم تحصیل کبیروالا۔
آپ اس نوجوان کے سوال پر غور کریں کیونکہ میں تو نانی اماں کے ہاتھوں گائوں کی دیواروں پر اترتی کسی اداس اور تنہا شام میں کسی دور دراز جنگل سے لائی گئی لکڑیوں سے جلائی گئی آگ کی دھیمی آنچ پر پکائے گئے بھینی بھینی خوشبو سے لبریز تازہ زردہ پلائو کے تصور میں ہی ڈوب گیا ہوں ۔!
پتہ نہیں اس نوجوان کو کیسے پتہ چل گیا کہ زردہ بچپن سے ہی میری کمزوری ہے!!