کون ہیں یہ خاک بسر...؟ یہ بے یارو مدد گار لوگ...!
جو اپنے سوکھے سڑے‘ بھوک زدہ وجود اور مدقوق زرد چہروں پر‘ حسرتوں کی داستانیں تحریر کئے دنیا سے کچھ کہہ رہے ہیں! ان کے وجود تذلیل اور کمتری کے احساس سے بوجھل نظر آتے ہیں‘ وطن سے بے وطن ...گھر سے بے گھر۔ کھلے پانیوں میں پناہ کی تلاش میں بے سمت راستوں کے سفر پر روانہ۔ اور زادِ راہ میں بے سروسامانی ہے‘ بے بسی ہے۔ بے گھر ی ہے!
گھروں سے چلتے ہوئے اشک رکھ لیے ہم نے
سفر کی راہ میں سامان بھی ضروری تھا!
ان کے مرد‘ عموماً قمیض سے بے نیاز‘ عورتیں سروں کو سکارف سے لپیٹے۔ بچوں کی صورت میں حسرتوں کا بوجھ گود میں اٹھائے کسی انہونی کے منتظر ہیں! ان کے بچے جیسے‘ دنیا بھر کی بھوک اور بے بسی گوندھ کر ان کے چہرے بنائے گئے ہوں۔ ان بے گھروں کے ہمراہ بچوں کی خاصی تعداد۔ جن کے چہروں پر معصومیت سے زیادہ بھوک اور بے بسی کے سائے لرزتے دکھائی دیتے ہیں۔
کون ہیں یہ لوگ۔ ؟ یہ غریب وطن۔ جن کی آنکھوں میں التجا ہے۔ پکار ہے‘ ایک آہ و بکا ہے!! شکایتیں ہیں‘ شکوے ہیں‘ ان کی خاموش نظروں میں ایک کہرام بپا ہے۔ ان کی بے بسی کی تصویر لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ہاں تصویر دیکھ لیں تو اہل درد کے دل میں پھانس سی اتر جاتی ہے!یہ لوگ برما یعنی میانمار کی مسلم اقلیت ہیں۔ جنہیں روہنگیا کہا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ اس لفظ روہنگیا پر میانمار میں پابندی لگ چکی ہے۔ ان کم قسمت لوگوں کو
اقوام متحدہ دنیا کی سب سے زیادہ بے بس‘ کچلی ہوئی اور حقوق سے عاری قوم قرار دیتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اپنی 2004ء کی رپورٹ میں روہنگیا مسلمانوں کو wretched (پسے ہوئے) اور Least Wanted Nationلکھتا ہے۔ عالمی مسائل پر کام کرنے والا ایک اور معتبر ادارے ورلڈ کرائسس نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ روہنگیا ایشو پر دنیا کی متضاد رائے کے باوجود انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ایسی Long-Oppressed minority ہیں‘ جن کے مسئلے کو عالمی توجہ بھی کم کم ہی ملی۔
یہ امن اور انصاف کے حوالے سے کام کرنے والے چند عالمی اداروں کی رائے ہے۔ میڈیا میں کبھی بھی ان کے بارے میں‘ ان کے ایشو کے بارے میں زیاد ہ بات نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ 2012ء میں جب روہنگیا اور بدھ مت کے درمیان بدترین ہنگامے ہوئے‘ اس نسلی فسادات میں بہت خون خرابہ ہوا‘ دونوں اطراف کے سینکڑوں لوگ مار دیئے گئے‘ ایک لاکھ سے زیادہ گھروں کو جلایا گیا‘ اس وقت یہ ایشو خبروں میں آیا تو روہنگیا دنیا کے لیے قدرے اجنبی سا لفظ تھا۔ روہنگیا کون ہیں اور اس مسئلے کی بنیاد کیا ہے؟اس پر متضاد آراء ہیں۔ روہنگیا مسلمان برما کی مغربی ریاست راکھین کے رہنے والے ہیں۔ برما میں مسلمان اقلیت میں ہیں مگر اس ریاست میں مسلمانوں کا تناسب 98فیصد ہے۔ برما میں اکثریت بدھ مت پیروکاروں کی
ہے۔ وہی حکومت میں ہیں۔ مسلمانوں کو برما کی حکومت شہری حقوق دینے سے انکاری ہے۔اس لیے کہ وہ روہنگیا کو برما کے شہری تسلیم ہی نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بنگالی ہیں جو بنگلہ دیش سے ہجرت کر کے برما کی مغربی ریاست راکھین میں آ کر آباد ہوئے ہیں۔ یہ بات سچ ضرور ہے مگر آدھا سچ ۔ پورے سچ کو جاننے کے لیے برما کی سیاسی تاریخ کو جاننا ضروری ہے ۔ جب برطانوی راج کا سورج برصغیر پر جگمگا رہا تھا تو اس وقت برما بھی برطانوی راج کے زیر تسلط ایک کالونی تھا۔ دوسری جانب بنگال کا علاقہ بھی برطانیہ کے زیر تسلط تھا۔ روہنگیا برما کی سرزمین پر 16ویں صدی سے آباد ہیں۔ یہ تاریخ کہتی ہے۔ مگر برطانوی راج میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک پراجیکٹ کے تحت‘ بنگال سے کسان لا کربرما کی مغربی ریاست راکھین میں آباد کئے گئے کیونکہ وہاں آبادی کم تھی؛ چنانچہ زرخیز زمین سے فائدہ اٹھانے کے لیے بنگال سے کسانوں کو لاکر آباد کیا۔ روہنگیا قوم کے مسلمان پہلے ہی وہاں آباد تھے۔ پھر دوسری جنگ عظیم میں جاپانی فوجیں فتوحات کرتی ہوئی یہاں تک پہنچیں۔ برطانوی فوجوں کو شکست ہوئی تو اس خطے میں برطانیہ کے راج کا خاتمہ ہونے لگا۔ اس وقت جاپانی فوجوں نے یہاں راکھین مسلمانوں پر تشدد اورظلم کی انتہا کر دی۔ اس ظلم سے پناہ لینے کے لیے جہاں ایک طرف بنگال سے آئے ہوئے آباد کار واپس بنگال جانے لگے‘ وہیں روہنگیا کے کچھ خاندانوں نے بھی بنگال کی طرف ہجرت کی۔ یہ دور اس خطے میں ایک بڑی سیاسی تبدیلی کا دور تھا۔ برطانوی راج کا خاتمہ ہو رہا تھا۔ زیر تسلط کالونیاں آزاد حیثیت کے ملکوں کا سٹیٹس حاصل کر رہی تھیں۔ برما کی سرزمین پر روہنگیا مسلمانوں اور بدھ مت لوگوں میں نسلی تصادم بھی تبھی شروع ہوا۔ اور یہ عین اسی فطری انداز میں ہوا کہ جب طاقت اور حکومت کا مرکز جو برطانیہ راج کی صورت میں ہاں موجود تھا‘ ختم ہوا‘ تو وہاں موجود قوموں کے درمیان اس مرکز پر قبضہ حاصل کرنے کی جنگ شروع ہوئی۔ جب برما نے آزاد حیثیت میں ایک ملک کا درجہ حاصل کیا تو یہاں بدھ مت اکثریت میں تھے جنہوں نے مسلم اقلیت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ دوسری جانب روھنگیا‘ صدیوں سے راکھین میں آباد تھے۔ وہ اس سر زمین پر اپنا حق سمجھتے تھے اورسمجھتے ہیں۔ سو جب برما کی بدھ مت حکومت نے مسلمانوں پر سیاسی‘ سماجی ‘ مذہبی پابندیاں لگا کر انہیں برما کے شہری تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تو روہنگیا کا اپنے حق کے لیے آواز اٹھانا‘ احتجاج کرنا‘ سیاسی جماعت بنانا ایک فطری ردعمل تھا۔ اسی کشمکش نے روہنگیا ایشو کی بنیاد رکھی۔ جو آج ہمیں کشتی والے لوگوں کی (Boat People)صورت میں عالمی میڈیا میں نظر آتا ہے۔ سال ہا سال سے یہ بدقسمت لوگ بدترین ریاستی جبر کا شکار ہیں۔ برما میں اس وقت بدھ مت لیڈر آشن ورتھا (Ashin Wiratha)جو وہاں اپنی اشتعال انگیز تقریریں کر کے نسلی امتیاز کو ہوا دیتا ہے‘ کئی سال (2003ء سے 2011ء) تک جیل میں بھی رہا۔ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تحریک چلانے میں اس بدھ مت لیڈر کا کردار سب سے اہم ہے۔ وہ انہیں برما کے شہری تو کیا انسان بھی تسلیم کرنے سے بھی انکار کرتا ہے۔2012ء کے ہنگاموں کے بعد سے روہنگیا مسلمانوں کی آزادانہ نقل و حرکت پر بھی پابندی ہے۔ انہیں محصور کر کے قتل کیا گیا۔ اسی ظلم سے پناہ کے لیے یہ بدقسمت لوگ کشتیوں پر سوار‘ بے یارو مددگار‘ بے سمت راستوں کے مسافر‘ بنے مختلف ملکوں کی جانب سفر کرتے ہیں مگر کوئی ملک اتنی بڑی تعداد میں انسانوں کی ذمہ داری اٹھانے کی ہامی نہیں بھرتا۔ ڈولتی کشتیوں میں بے یارو مددگار یہ لوگ اگر مسلمان نہ ہوتے تو بھی اہل درد اور اہل دل انسانیت کے مضبوط رشتے کے حوالے سے ان کے دکھ اور تکلیف کو محسوس کرتے۔ اس پیچیدہ مسئلے کو حل کرنے کے لیے‘ عالمی مدبرین اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو برما حکومت پر اپنا دبائو ڈالنا چاہیے۔
اقوام متحدہ کے فورم پر روہنگیا کے حق میں آواز آئی ہے کہ میانمار(برما) حکومت روہنگیا کو فوراً اپنا شہری تسلیم کر کے انہیں شہریت کے تمام حقوق دے۔ یہی اس مسئلے کا حل ہے۔ بے بس کچلے ہوئے اور حقوق سے عاری روہنگیا کو اپنی سرزمین پر سر اٹھا کر جینے کا حق ہونا چاہیے۔