تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     15-06-2015

کچھ ’’کھٹّا‘‘ ہو جائے

ماہرین کے حوالے سے ہمارا تجربہ خاصا تلخ رہا ہے۔ وہ عموماً ایسی باتیں کرتے ہیں جنہیں پڑھ یا سن کر دل و دماغ کے دانت کھٹّے ہوجاتے ہیں۔ مگر اب کے ماہرین نے ایسی میٹھی خبر سنائی ہے کہ جی چاہتا ہے ان کا منہ میٹھا (ہمیشہ کے لیے) میٹھا کردیں تاکہ وہ آئندہ اپنی زبان پر کوئی کڑوی بات لا ہی نہ سکیں۔ 
برطانوی ماہرین نے تحقیق کے نتائج کی روشنی میں بتایا ہے کہ میٹھا کھانے سے ذہنی تناؤ اور مایوسی کو کو شکست دی جاسکتی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ مایوس کن حالت میں منہ میٹھا کرلیا جائے (یا کردیا جائے) تو ذہنی حالت کو اعتدال میں لانے میں خاصی مدد ملتی ہے۔ اور اس کے نتیجے میں مزاج خوش گوار تبدیلی سے ہمکنار ہوتا ہے۔ 
دیکھا آپ نے؟ جس مسئلے نے دنیا کو ہزاروں سال سے پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے وہ ماہرین نے کتنی عمدگی سے حل کردیا۔ ہمیں یقین ہے کہ ہماری طرح آپ بھی مٹھائی یا میٹھی اشیاء کے خوش گوار اثرات کے حوالے سے ماہرین کی رائے سن کر خوش گوار حیرت میں مبتلا ہوئے ہوں گے۔ 
ماہرین کی یہ عالمانہ رائے پڑھ کر ہم مطمئن ہوگئے کہ ہمارے ذہن میں کلبلانے والے کتنے ہی سوالوں کا جواب ماہرین کی اِس میٹھی میٹھی سی رائے میں پوشیدہ ہے۔ ہم اکثر سوچا کرتے تھے کہ جب کسی کی بات پکّی ہوتی ہے تو فوراً منہ میٹھا کرنے یا کرانے کی بات کیوں کی جاتی ہے، کوئی نمکین، چٹ پٹی یا کھٹّی چیز کھانے اور کھلانے کی فرمائش کیوں نہیں کی جاتی۔ اب ہمارے ذہن میں اس حوالے سے کوئی اشکال نہیں رہا۔ آپ نے ماہرین کی رائے تو پڑھ لی ہے کہ ذہنی تناؤ پیدا کرنے والے لمحات یا مایوس کن حالت میں منہ میٹھا کرنے سے حواس بحال کرنے اور خطا ہوتے ہوئے اوسان قابو میں لانے میں مدد ملتی ہے! آج کے حالات میں تو بات پکّی ہونے کا لمحہ انتہائی جاں گسل ہوتا ہے۔ بندہ ہو یا بندی، دونوں ہی کو خوب خوب اندازہ ہوتا ہے کہ اب مختلف ذرائع سے زندگی کشیدگی، تناؤ اور تلخیوں سے ''ہمکنار‘‘ ہونے والی ہے! ایسے میں دل قابو میں رہتا ہے نہ دماغ۔ دل خوشی سے زیادہ گھبراہٹ کے مارے اچھل رہا ہوتا ہے اور دماغ کی ویسی ہی طوفانی کیفیت ہوتی ہے جیسے دھرنا دینے والوں سے خطاب کرتے وقت ڈاکٹر طاہرالقادری کی ہوا کرتی ہے! ایسی حالت میں انسان منہ میٹھا کرکے ذہنی تناؤ کو پتلی گلی سے رخصت نہ کرے تو کیا کرے! 
آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب دو گھرانے کوئی رشتہ طے کر رہے ہوتے ہیں تب چند ایک چھوٹی چھوٹی باتوں پر اختلافات ابھرتے ہیں اور ذہنوں میں تناؤ بڑھتا جاتا ہے۔ لڑکا اور لڑکی ہی نہیں بلکہ ان کے گھرانے بھی پریشان ہو اٹھتے ہیں۔ اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ بات پکّی کرنے کے وقت ٹوکرا بھر مٹھائی کیوں لائی جاتی ہے! سیدھا سا اصول ہے۔ جتنے زیادہ لوگ پریشان و مایوس اُتنی ہی زیادہ مٹھائی! سب کے منہ میں لڈّو یا گلاب جامن ٹھونسے جاتے ہیں تاکہ کسی کے ذہن میں تناؤ باقی نہ رہے! تناؤ صرف اُس کے ذہن میں رہ جاتا ہے جس نے ٹوکرا بھر مٹھائی کے لیے جیب ڈھیلی کی ہو! 
ماہرین کی تحقیق نے ہمیں خوش تو کیا مگر تھوڑا سا الجھا بھی دیا۔ ہم عام طور پر کسی معمولی ٹینشن کی طرف بالکل متوجہ نہیں ہوتے اور ذرا بڑی ٹینشن کو بھی زیادہ گھاس نہیں ڈالتے۔ جو مزاج آپ کو ہمارے کالم میں دکھائی دیتا ہے کم و بیش وہی ہمارا حقیقی مزاج ہے۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ ہم میٹھا بہت کھاتے ہیں۔ میٹھے کے اثرات سے متعلق ماہرین کی رائے پڑھ کر ہم شش و پنج میں پڑگئے کہ جب ہم ذہنی تناؤ اور مایوسی کا زیادہ شکار ہوتے ہی نہیں تو مٹھائی یا میٹھی اشیاء زیادہ کیوں کھاتے ہیں۔ اگر ہم میٹھا زیادہ کھاتے رہے تو لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ ہمارا ذہن شاید تناؤ کا شکار ہے۔ 
بزرگوں سے سنا ہے کہ جنّات مٹھائی شوق سے کھاتے ہیں۔ مٹھائی کی بعض دکانوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہاں سے جنّات روزانہ من من بھر مٹھائی لے جاتے ہیں۔ مٹھائی اور جنّات کے تعلق کی بنیاد پر ہمیں یہ شک بھی گزرا کہ کہیں ہم بھی ''منجملۂ جنّات‘‘ تو نہیں! بعض احباب نے بھی یہ کہہ کر اِس شک کو یقین میں بدلنے کی اپنی سی کوشش کی کہ کالم کے معاملے میں ہماری زُود نگاری اور بسیار نویسی خاصی جنّاتی نوعیت کی ہے! (ویسے اب مجموعی طور پر پوری صحافی برادری ہی مزاجاً خاصی جنّاتی ہوچکی ہے!) خیر گزری کہ ہم نے کسی کی رائے دل پر نہیں لی یعنی ذہنی تناؤ کا شکار نہیں ہوئے۔ اور اپنے آپ کو کسی اور مخلوق پر محمول کرنے کے بجائے میٹھا زیادہ کھانے کو محض اپنے مزاج کے ایک پہلو سے تعبیر کرنے پر اکتفا کیا! 
ماہرین کی کوئی بات سن کر مرزا تنقید بیگ بے مزا نہ ہوں، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ اگر ماہرین کی کوئی بات مرزا کے مزاج کے عین مطابق ہو اور اُنہیں پسند بھی آجائے تو وہ یہ کہتے ہوئے ماہرین پر لعن طعن فرماتے ہیں کہ کم بختوں نے ایسی درست بات کیوں کہی جس سے اختلاف ممکن ہی نہیں! 
طبیعت یا مزاج پر میٹھا کھانے کے مثبت اثرات سے متعلق ماہرین کی رائے پڑھ کر مرزا کے مزاج کا کھٹّا پن عود کر آیا اور وہ شروع ہوگئے: ''ماہرین کو آنکھ بند کرکے رائے جھاڑنے کے سِوا آتا کیا ہے؟ وہ کیا جانیں کہ مٹھائی کے نقصان دہ اثرات کیا ہوتے ہیں۔ سگائی اور نکاح کے موقع پر کھائی جانے والی مٹھائی ہی تو شادی کے بعد کچھ دن تک گھروں میں پھڈّے کراتی ہے۔‘‘ 
مٹھائی کے ہاتھوں گھریلو جھگڑے؟ ہم مرزا کی زبان سے یہ الزام سن کر حیران رہ گئے۔ ایک لمحے کو یقین ہی نہ آیا کہ ہم نے جو سنا ہے مرزا نے وہی کہا ہے! خیر، چند لمحات کے توقف کے بعد ہم نے مرزا سے پوچھا کہ مٹھائی کا شادی کے بعد کچھ دن تک ہونے والے گھریلو جھگڑوں سے کیا تعلق۔ مرزا نے مزے لے لے کر کھٹّے میٹھے لہجے میں جواب دیا: ''بات یہ ہے کہ شادی کے بعد کچھ دن تک دولہا میاں اپنی نئی نویلی دلہن کے لیے روزانہ باربی کیو کا کوئی آئٹم (چکن تِکّہ وغیرہ) اور پاؤ بھر قلاقند یا گلاب جامن لے کر گھر آتے ہیں۔ یہ کام بہت ہوشیاری اور خاموشی سے اسی طرح کرنا ہوتا ہے جس طرح منتخب حکومتوں کے خلاف سازش کی جاتی ہے۔ 'کمالِ فن‘ یہ ہے کہ دلہن صاحبہ کی دِل جُوئی کے لیے لایا جانے والا کوئی آئٹم دکھائی بھی نہ دے اور خوشبو بھی نہ پھیلے! اگر گھر والوں کی اور بالخصوص والدہ محترمہ کی نظر پڑجائے یا وہ 'خطرے‘ کی بُو سونگھ لیں تو سمجھ لیجیے رات گئے پورا گھر اسلام آباد کے ریڈ زون میں حکومت مخالف احتجاج کا سماں پیش کرنے لگتا ہے! فوراً طعنے کا تیر برسایا جاتا ہے کہ جمعہ جمعہ آٹھ دن کی دلہن کے لیے مٹھائیاں لائی جارہی ہیں، کبھی ماں کے لیے تو ایک گلاب جامن یا پیڑا لانے کی بھی توفیق نہ ہوئی! اور ہاں، ماں بوٹی کو ترسے اور زوجہ محترمہ کے لیے ملائی والا چکن تِکّہ! ساس صاحبہ لگے ہاتھوں بہو کو 'پیر‘ کا درجہ دیکر اپنے بیٹے کو اُس کا مرید یعنی زن مرید بھی قرار دے دیتی ہیں! کہاں ہیں ماہرین؟ ذرا پوچھو تو سہی کہ مٹھائی کے خوش گوار اثرات کہاں مرتب ہوتے ہیں۔ یہاں تو مٹھائی پھڈّا کراکے دم لیتی ہے!‘‘ 
مرزا کو ماہرین سے خدا واسطے کا بَیر ہے۔ ان کی ہر بات میں کیڑے نکالے بغیر مرزا کو سُکون نہیں ملتا۔ مگر خود مرزا کا مزاج بھی تو ماہرانہ ہے۔ وہ ہر اچھی بات میں کوئی نہ کوئی ایسی ویسی بات کھوج نکالتے ہیں، اچھے خاصے معاملے کو مشکوک بنا ڈالتے ہیں! ہم مٹھائی اور میٹھے آئٹمز کے خوش گوار اثرات سے متعلق ماہرین کی رائے پڑھ کر میٹھا میٹھا سوچ رہے تھے کہ مرزا نے ہماری سوچوں میں کھٹّا رخنہ ڈال دیا۔ ہمیشہ کھٹّا چاہنے والے ماہرین کبھی کبھی چاہتے ہیں کہ کچھ میٹھا ہوجائے مگر مرزا جیسے کج فہم اِسی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ کچھ کھٹّا ہوجائے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved