کیا ان دو تقریروں کو منظر عام پر لانا پہلے سے طے شدہ تھا؟۔ ایک جانب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی زبان سے اعترافات ابل رہے تھے کہ بنگلہ دیش بھارت نے اپنی فوج کے 75 ہزار جوانوں کی قربانی دے کر بنایا تھا اور یہ ہماری ہی فوج تھی جس نے مشرقی پاکستان کے اندر مکتی باہنی کوداخل کرتے ہوئے پاکستان کے دو حصے کیے بلکہ بھارت کے وزیراعظم نے بڑے فخر سے کہا کہ وہ خود اس تنظیم میں شامل تھے جو مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کی کوششیں کر رہی تھیں اور بنگلہ دیش بنانا اور پاکستان کے اس مشرقی حصے کو اس سے الگ کر نا صرف نریندر مودی کی ہی نہیں بلکہ ہر بھارتی کی خواہش تھے‘ دوسری جانب پاکستان کے حکمران ہیں جو اپنی ہی دھرتی پر کھڑے ہو کر دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے تھے جناب والا بھارت سے ہونے والی پاکستان کی تمام جنگوں کے واحد ذمہ دار میرے ملک کے فوجی حکمران تھے‘ جو اپنی آمریت کو سہارا دینے کیلئے خواہ مخواہ ہمسایوں سے جنگیں لڑتے رہتے ہیں جبکہ پاکستان میں حکومت کرنے والی کسی بھی جمہوری یا سول حکومت نے تو بھارت سے جنگ کرنے کے بارے میں کبھی سوچا تک نہیں۔
یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ وزیراعظم گئے تو تھے راولپنڈی اسلام آباد میٹرو بس کے شاندار منصوبے کا افتتاح کرنے کیلئے لیکن رگڑا دینا شروع کر دیا اپنے ہی ملک کے سابق فوجی حکمرانوں کو اور حکمران بھی وہ جو جنہوں نے ان کو اور ان کے پورے خاندان کو گوشہ گمنامی سے اٹھاکر اقتدار کی منزلیں طے کراتے ہوئے ملک کے سیا ہ و سفید کا مالک بنا دیا اور خود اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ایک جانب حکمرانوں کا نیا دوست نریندر مودی بنگلہ دیش کی ڈھاکہ یونیورسٹی میں دنیا کے سامنے سینہ تان کر اقرار کرتا ہے کہ پاکستان پر حملہ ہم نے کیا، بنگلہ دیش بناتے ہوئے پاکستان کو ہم نے دو لخت کیا اور اسی تقریب میں بس میں بیٹھ کر واہگہ بارڈر کے راستے لاہور پہنچنے والے ان حکمرانوں سے امن کی باتیں کرنے والے ان کے پرانے دوست اٹل بہاری واجپائی کو بنگلہ دیش کی حکومت اس خصوصی ایوارڈ سے نوازتی ہے‘ جس میں پاکستان توڑنے کے سلسلے میں ان کی بے بہا خدمات کا اقرار کیا جاتا ہے۔ جناب! آپ کا یہ کیسا دوست ہے جس نے آپ کے ملک کو ہی دولخت کر دیا ؟ جس نے آپ کے ملک پر حملہ کراتے ہوئے لاکھوں انسانوں کا قتل عام کیا؟ اگر اس قسم کا 'دوست‘ پاکستان آئے اور اس کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے جماعت اسلامی احتجاج کرے تو لاہور کی لٹن روڈ پر وہ خوفناک مناظر دکھائے جاتے ہیں کہ انسانیت کانپ کانپ جاتی ہے تاہم یہ الگ بات ہے کہ ان مناظر کا شکار ہونے والی اس جماعت کا ایک گروپ چند نشستوں کی بھیک کیلئے آپ کو اب بھی اپنا نجات دہندہ مانتا ہے۔
جناب وزیر اعظم نے میٹرو بس کے افتتاح کے موقع پر فرمایا کہ پاکستان پر حکومت کرنے والے آمر جرنیلوں کے دور میں بھارت سے تین جنگیں ہوئیں اور کسی بھی جمہوری حکومت میں پاکستان کی کسی سے بھی جنگ نہیں ہوئی۔ ان کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ بھارت کے ساتھ اب تک پاکستان کی تین نہیں بلکہ چار جنگیں ہو چکی ہیں۔ سب سے پہلی جنگ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے دور میں پاکستان بننے کے فوری بعد1948ء میں لڑی گئی تھی اور یہ جنگ بھی ہم پر بھارت کی جانب سے تھونپی گئی تھی کیونکہ وہ آزاد کشمیر کو اپنے قبضے میں لینے کیلئے اس کی جانب قدم بڑھا چکا تھا‘ جسے روکنا جناحؒ صاحب کا اور ہماری اس وقت کی بچی کھچی فوج کا فرض تھا۔
نریندر مودی نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں بنگلہ دیش کی آزادی کی تحریک کیلئے واجپائی کو حسینہ واجد کی جانب سے پیش کئے جانے والے ایوارڈ کو وصول کرتے ہوئے کسی بھی قسم کی لگی لپٹی رکھے بغیر کہا کہ ہر بھارتی کی خواہش تھی کہ پاکستان ختم ہو جائے اور ان کی یہ پرارتھنا پوری ہو گئی۔ اس سے یہ حقیقت سب پر
واضح ہو جانی چاہئے کہ بھارت پاکستان کو ایک کانٹا سمجھتا ہے اور کوٹلیہ کی ابتدائی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ ہلکا سا بیر یا بدگمانی رکھنے والے ملک کو اپنا دوست بنانا اور وہ ممالک جو پاکستان کے قریب ہیں یا اس کے دوست ہیں ان کے دلوں میں پاکستان کے بارے غلط فہمیوں اور بد گمانیوں کو ہوا دینا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ لیکن اس وقت افسوس ہوتا ہے‘ جب اسی طرح کا کام اپنے لوگ ہی کرنا شروع ہو جائیں۔ 1948ء کی کشمیر میں بھارت سے ہونے والی جنگ کے بارے میں بتایا جا چکا ہے کہ بھارت چونکہ کشمیر کی جانب قدم بڑھا چکا تھا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ بہت سے حصوں پر قبضہ کر چکا تھا تو غلط نہ ہو گا‘ اس لئے بھارت کو آزاد کشمیر سے نکالنا پاکستانی فوج کا اولین فرض بنتا تھا جو اس نے ادا کر دیا۔
سب سے پہلے تو پاکستان کی نئی نسل کو یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ 1965ء، 1971ء اور 1999ء کی بھارت سے ہونے والی یہ تین جنگیں ہوئیں کیوں؟ 1971ء کی جنگ کے بارے میں تو نریندر مودی خود ہی دنیا بھر کو بتا چکے ہیں کہ بھارت کی فوج نے مکتی باہنی کے روپ میں مشرقی پاکستان میں گوریلا جنگ شروع کی‘ پھر اپنی فوجیں داخل کر تے ہوئے قبضہ کیا اور بنگلہ دیش کو آزادی دلوائی۔اب اگر ہمارے حکمران پھر بھی یہ
کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں کہ جرنیلوں کی آمریت نے یہ جنگ بھارت پر مسلط کی تو اس پر کیا کہا جا سکتا ہے۔
1999ء میں کارگل کی چوٹیوں پر لڑی جانے والی جنگ کے بارے میں وزیر اعظم نواز شریف کا اصرار ہے کہ انہیںاس آپریشن کے کسی بھی مرحلے میںبحیثیت وزیر اعظم شریک نہیں کیا گیا اور نہ ہی یہ فوجی کارروائی ان سے پوچھ کر کی گئی اور نہ ہی انہیں اس پر اعتماد میں لیا گیا۔ یہ ایک علیحدہ اورطویل موضوع ہے۔ اس پر جنرل مشرف کی کابینہ اور ان کے نزدیک ترین ان لوگوں کی جانب سے بہت کچھ کہا جا چکا ہے‘ جو خود کو آج نواز شریف کی محبت میں غرق کر چکے ہیں۔ ان میں سے ماروی میمن، امیر مقام، گوہر ایوب، زاہد حامد، دانیال عزیز ، شیخ وقاص اکرم جیسے جنرل مشرف کے ساتھی کئی بار اپنے ٹی وی انٹرویوز اور کتابوں میں ذکر کر چکے ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف کو با قاعدہ فوج نے اپنے اعتماد میں لیا تھا بلکہ جنرل مشرف کے بعض ساتھیوں کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی جنرل مشرف اور پاکستانی فوجی جرنیلوں سے ناراضگی کی اصل وجہ کارگل نہیں بلکہ یہ تھی کہ وہ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں خود دھماکے کرنے سے پس و پیش کر رہے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ پاکستان جوابی ایٹمی دھماکوں کی بجائے امریکہ ، جاپان اور یورپی یونین سے اربوں روپے کی امداد حاصل کرے جو وہ فوری طور پر ادا کرنے کو تیار تھے، لیکن فوجی جرنیلوں نے ان سے زبر دستی ایٹمی کروا دئیے جس کا انہیںابھی تک رنج اور غصہ ہے!!