تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     16-06-2015

چندہ حاضر‘بندہ حاضر

سابق وزیراعلیٰ چوہدری پرویزالٰہی نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ پنجاب کی موجودہ حکومت نے ریسکیو1122 کی خدمات برقرار رکھنے کے لئے چندہ مانگنا شروع کر دیا ہے۔ چوہدری صاحب کو شاید پتہ نہیں کہ یہ تو ہمارا دیرینہ پیشہ ہے۔ آزادی سے پہلے بھی مسلمانوں کی بیشتر جماعتیں ‘زیادہ تر چندوں پر چلا کرتی تھیں۔ ہمارے جتنے سیاسی علمائے کرام کے مابین اختلافات رہتے تھے‘ وہ اصل میں چندوں کے جھگڑے ہوتے تھے۔آزادی کے بعد بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ جب تک زندہ تھے‘ اپنے وسائل پر بھروسہ کر کے کام چلاتے رہے۔ اس وقت ہمارے پاس نہ سیکریٹریٹ تھا۔نہ دفاتر تھے۔ نہ عمارتیں تھیں۔فوجیوں کی چھائونی کے لئے جو بیرکیں بنائی گئی تھیں‘ ان میں میزیں رکھ کر سرکاری دفتر مہیا کئے گئے۔پیپر پن تک دستیاب نہیں تھی۔ درختوں کے کانٹے توڑ کر ان سے پیپر پن کے کام لئے جاتے رہے لیکن پاکستان جو بطور ریاست معرضِ وجود میں آرہا تھا‘روزمرہ کے کام چلاتا رہا۔ جیسے ہی بابائے قوم رخصت ہوئے‘ ہم نے چندے مانگنا شروع کر دئیے‘ جس کا نام ''بیرونی امداد‘‘ رکھا گیا۔ جس ملک سے جو ہو سکا‘ اس سے چندہ لیا۔ کچھ خود کھایا، کچھ سے کام چلا لیا اور ہمارے سفر کا آغاز ہو گیا۔مجھے نہیں معلوم‘ چوہدری پرویز الہٰی کو اعتراض کس بات پر ہے؟۔ چندے لینا تو ہمارا پرانا پیشہ ہے۔ابھی کچھ ماہ پہلے ‘ہمارے وزیرخزانہ‘ سعودی عرب گئے تھے اور ڈیڑھ ارب ڈالر کا چندہ لے کر آئے۔ اسی کے بل بوتے پر‘ ابھی تک حکومتی امور چلائے جا رہے ہیں ۔ ریسکیو1122جب شروع ہوا تو ایک مثالی ادارہ تھا۔فائر بریگیڈ کی تمام گاڑیاں برانڈ نیو تھیں۔ ان کے لئے‘ نئے گیراج بنائے گئے۔ بہترین عملہ رکھا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے‘ ریسکیو1122 شہریوں کا پسندیدہ ادارہ بن گیا۔آج بھی لاہور کا ہر باخبری شہری‘آپ کو بتائے گا کہ جب تک موجودہ حکومت نہیں آئی‘ اس ادارے کا معیار‘یورپ کے برابر تھا۔ اس کی گواہی برطانوی پارلیمنٹ کے سابق ممبر چوہدری سرور نے دی اور بتایا میں نے پاکستان میںریسکیو1122کی آزمائش کر کے دیکھی ہے۔ ان کا معیارِ کارکردگی‘ ہر اعتبار سے برطانیہ کے برابر تھا مگر حکومت بدلتے ہی‘ سب کچھ بدل گیا ۔ 1122کے فنڈز کٹنے لگے۔ پہلے پہل فائر بریگیڈ کی گاڑیاں خراب ہونے لگیں۔محکمے کے پاس سپیئر پارٹس خریدنے کی استطاعت نہیں تھی۔ جو گاڑی خراب ہوتی گئی‘گیراج میں لگتی گئی۔ اس کے بعد‘ عملے کی تنخواہیں بھی آگے پیچھے ہونے لگیں۔ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ کا کہنا ہے کہ اب اس ادارے کو بھی چندے پر چلایا جائے گا۔عملی طور پر اس وقت پوراپاکستان ہی چندے پر چل رہا ہے۔ کہیں سے گرانٹ آرہی ہے۔ کہیں سے قرضے کے نام پر‘رقمیں وصول کی جا رہی ہیں۔ کہیں سے امداد لی جا رہی ہے لیکن اصل میں یہ جو کچھ بھی ہے‘چندہ ہے۔اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کھربوں روپے کا لین دین ہوتا ہے لیکن کبھی اسے خود کوئی مسجد بنانے کی توفیق نہیں ہوئی۔ ہمارے ہاں تمام مسجدیں چندوں سے تعمیر ہوتی ہیں۔ پاکستان کی جو تاریخی مسجد‘ایک یادگار کے طور پر فیصل مسجد کے نام سے پہچانی جاتی ہے‘ وہ بھی چندے سے ہی تعمیر ہوئی۔ جو شاہ فیصل مرحوم کی یاد میں‘سعودی عرب نے بنا کر دی۔اس کے بعد‘ دوسری بڑی مسجد ملک ریاض نے تعمیر کر کے دی‘جو شاہ فیصل مسجد سے بھی بڑی ہے ‘ اس میں ایک ہی وقت‘ ایک لاکھ نمازی‘ نماز ادا کر سکتے ہیں۔
اب تک یوں ہوتا رہا کہ عالمی برادری سے ہمیں جو چندے ملے‘ ان سے دفتری کام بہرحال نمٹائے جاتے تھے ۔ محکمے چلانے کے لئے کبھی براہ راست چندے نہیں مانگے گئے تھے لیکن پاکستان کی سب سے امیر حکومت نے ایک محکمہ چلانے کے لئے بھی یہ راستہ کھول لیا۔ صحافی بہت عرصے سے شور مچا رہے تھے کہ حکومت نے بہت لوٹ مار مچا رکھی ہے۔ کرپشن ملک کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ قرضے چڑھتے جا رہے ہیں۔ ترقیاتی کاموں کے لئے فنڈز نہیں ہیں۔ سڑک ٹوٹی ہے تو وہ نہیں بنتی۔ ہسپتالوں میں دوائیں ختم ہوتی ہیں تو دوبارہ نہیں آتیں۔ ایک ایک کر کے سارے محکمے کنگال ہوتے جا رہے ہیں۔سرکاری عمارتیں‘ کھنڈرات میں بدل رہی ہیں اور ایوانِ اقتدار کے محلات بڑے سے بڑے ہوتے جا رہے ہیں۔عوام حیران تھے کہ اس طرح حکومتیں ‘مزید کب تک چلیں گی؟ لیکن حکمران اتنی بھی گئے گزرے نہیں۔وہ پیسے بٹورنے کے نئے سے نئے طریقے نکال لیتے ہیں۔عوام کو مبارک ہو کہ ریاست کی ناکامی کا خطرہ ٹلنے لگا۔چندہ خوری میں مسلمانوں سے بڑھ کر ‘ کوئی دوسرا لائق اور سمجھدار نہیں۔جب عوام سرکاری محکمے چلانے کے لئے‘مطلوبہ چندے جمع نہ کر سکے تو پھر پرانے تجربے کام آئیں گے۔ مولویوں میں بڑے سے بڑا چندہ جمع کرنے والا ‘فن کار دستیاب ہے۔آج بھی جا بجا جو مساجد نظر آرہی ہیں‘ان سب کی تعمیر چندوں سے ہوئی ہے۔ اگر ملک بھر میں مساجد کی تعمیر اور انتظام چندوں کے ذریعے چلتا ہے تو سرکاری محکمے چلانا کون سا بڑا کام ہے؟آپ کو اچھی طرح معلوم ہو گا کہ اہل تشیع سالانہ مجالس پڑھنے کے لئے‘ذاکرین کا انتظام نہایت مناسب اور منظم طریقے سے کرتے ہیں۔ جیسے ہی محرم الحرام کے دن قریب آتے ہیں‘ ملتان میں ذاکروں کا اکٹھ ہوتا ہے۔ مختلف امیدوار اپنی اپنی پرفارمنس بتاتے ہیں۔ ملک بھر سے ذاکرین کے طلب گار‘ ملتان آکرذاکروں کے ٹیسٹ لیتے ہیں اور جس ذاکر کو منتخب کر لیا جائے‘ اسے حاصل کرنے کے لئے بھائو تائو کیا جاتا ہے اور سب سے زیادہ معاوضہ لینے والا ‘محرم کے ایک سیزن کے لئے اپنے پسندیدہ ذاکر کی خدمات حاصل کر لیتا ہے۔سنی علما کے لئے ایسا کوئی باقاعدہ نظام موجود نہیں۔ اب حکومت چندوں کے میدان میں اتر آئی ہے تو اسے بھی چاہیے کہ چندہ بٹورنے والے ملائوں کی ہائرنگ کا سلسلہ شروع کر دے۔ حکام بھی خاطر جمع رکھیں۔ وہ کرپشن کر کے جتنا کچھ کما لیتے ہیں‘ چندوں میں اس سے کہیں زیادہ کے امکانات ہوں گے۔سرکاری پیسہ ہضم کرنے میں کافی تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی پکڑے بھی جاتے ہیں۔ سزائیں بھی ہو جاتی ہیں۔ نوکریاں بھی چلی جاتی ہیں۔قید بھی ہو جاتی ہے لیکن چندہ خوری انتہائی محفوظ ذریعہ آمدنی ہے۔ آپ کے گردو نواح میں بھانت بھانت کے چندہ خور پائے جاتے ہیں۔ جو جتنا زیادہ چندہ پاتا ہے‘ اتنا ہی معزز اور محترم کہلاتا ہے۔جب حکومتی سرپرستی حاصل ہو جائے گی تو سرکاری چندہ جمع کرنے والوں کے گریڈ بن جائیں گے اور گریڈ اٹھارہ یا انیس کا ملاّ اپنے عہدے کے مطابق چندہ مانگے گا اور لوگ بھی چندے دیتے وقت یہ دیکھیں گے کہ مانگنے والے کا رتبہ کیا ہے؟ گریڈ کیا ہے؟ سرکاری چندے مانگنے والوں میں محض گریڈ نہیں گریڈوں سے بھی اوپر کے رتبے والے لوگ موجود ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا چند سال قبل‘ ہمارے وزیراعظم‘ وزیراعلیٰ‘وزراء کرام اور گورنر سب نے ڈھول باجے کے ساتھ‘ چندہ جمع کیا تھا۔ ان کا نعرہ تھا''قرض اتارو ملک سنوارو‘‘۔ عوام نے چندہ مانگنے والوں کا رتبہ دیکھ کر‘ دل کھول کے چندے دئیے۔ جو اربوں کھربوں میں جمع ہو گئے اور اسلامی روایت کے عین مطابق‘ چندہ دینے والوں نے آج تک اس کا حساب نہیں مانگا۔ یہ چندہ کتنا تھا؟ کس کے پاس گیا؟ کون ہضم کر گیا؟ کسی کو ڈکار تک سنائی نہیں دیا۔
اس کام میں پیپلز پارٹی بھی کسی سے پیچھے نہیں رہی۔ اس کا بھی جہاں دائو لگا‘ امدادی سکیمیں شروع کر کے چندے بٹورتی رہی۔ ایک زمانے میں بچوں کو بھی معاف نہیں کیا گیا تھا۔ سکولوں میں دس دس روپے کے ٹکٹ بھیج دئیے گئے تھے‘ جہاں بچوں سے چندہ جمع کیا گیا تھا۔جس حساب سے سرکاری خزانے کی لوٹ مار ہور ہی ہے اور کرپشن کے ذریعے جو بھاری رقمیں وصول کر کے بیرونی بینکوں میں جمع کرائی جا رہی ہیں‘ اس کی رفتار دیکھ کر ماہرین کا اندازہ ہے کہ ریسکیو1122کی طرح‘ باقی محکموں کو بھی چندوں پر آنا پڑے گا۔ویسے تو اب بھی حکومتوں کو جب اچانک بڑی بڑی مشکلات پڑتی ہیں تو ملک ریاض کا چندہ کام آتا ہے۔ سیلاب میں وہ کروڑوں روپے دے دیتے ہیں۔ زلزلے کے موقعے پر‘وہ کروڑوں خرچ کر دیتے ہیں۔ کسی قسم کی بڑی مصیبت آئے تو وہاں بھی ملک ریاض کے چندے کام آتے ہیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ جہاں ملک ریاض خود خرچ کریں تو مصیبت زدگان کی مدد ہوجاتی ہے لیکن جہاں مصیبت زدگان کے لئے‘ چندہ سرکاری حکام کے سپرد کیا جاتا ہے‘وہاں مصیبت زدگان کا تو کچھ نہیں بنتا لیکن اہل اقتدار کی جیبیں بھر جاتی ہیں۔ دنیا بھر میں ووٹ مانگنے والے‘ جیب سے خرچ کر کے انتخابی اخراجات اٹھاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں‘الیکشن لڑنے والے بھی چندہ مانگنے سے باز نہیں آتے۔ ایک سیاسی جماعت کا انتخابی نعرہ ہی یہ تھا کہ'' ہم کو ووٹ دو‘نوٹ دو‘‘۔گھبرانے کی ضرورت نہیں۔چندہ حاضر‘بندہ حاضر۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved