فارسی میں کہتے ہیں ''یابآں شوراشوری یا بایں بے نمکی‘‘
وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے ایک این جی او کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا تو فارن فنڈڈ این جی اوز کے زخم خوردہ پاکستانی عوام نے سکھ کا سانس لیا۔
سات سالہ معصوم بچے عمیرکو جنسی زیادتی کے بعد وحشیانہ انداز میںموت کے گھاٹ اتارنے اور پھرغریب والدین سے دس لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کرنے والے شفقت حسین کی رہائی کے لئے این جی اوز نے جو سنگدلانہ مہم چلائی، اس کے پیش نظر ہر محب وطن پاکستانی کی یہ خواہش ہے کہ ایسی این جی اوز کو دیس نکالا ملنا چاہیے مگر حکومت پاکستان اور وزارت داخلہ نے صرف دو روز بعد یوٹرن لے کر عوام کی ساری خوش فہمی دور کردی اور یہ سوچنے پر مجبور کیا ''ماڑی سی تے لڑی کیوں سی‘‘
شفقت حسین کے مجرمانہ فعل کا انکار کوئی نہیں کرتا، اس کا کوئی حامی نہ وکیل۔ عمر کے تعین میں اختلاف ہے، سات سالہ بچہ عمیر تو ہر لحاظ سے بے گناہ تھا اور ایک بھیڑیے کی درندگی کا شکار ہوا لیکن ہماری غیرملکی فنڈز خور این جی اوز کو ہمدردی مقتول سے نہیں، قاتل سے ہے۔ صرف اس ایک قاتل سے نہیں، سزائے موت پانے والے ہر قاتل سے۔
انہیں مختلف ممالک اور اداروں سے گرانٹ مظلوموں اور مقتولوں کی ہمدردی کے عوض نہیں قاتلوں، وحشی درندوں اور مجرموں کے حق میں زوردار مہم چلانے پر ملتی ہے جس سے این جی او مافیا کے ڈان اور کارندے عیش کرتے ہیں۔ مہنگے علاقوں میں پرتعیش رہائش، فائیو سٹار دفاتر، جہازی سائز گاڑیاں اوردنیا بھر میں گھومنے پھرنے کے مواقع۔
دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی سرکاری فلاحی و رفاہی تنظیموں کو ہمیشہ کام کرنے کی آزادی رہی ہے۔ حکومت انصاف، روزگار، تعلیم، طبی سہولتوں کی فراہمی سے دستکش ہوئی تو غریبوں، یتیموں، بیوائوں اور بوڑھوں کی کفالت سے لے کر مفت تعلیم، طبی سہولتوں اور قدرتی آفات کے موقع پر متاثرین کو خوراک، ادویات، چھت کی فراہمی کا فرض ان غیر سرکاری تنظیموں نے ادا کیا اور عوام نے خدمت خلق میں مصروف تنظیموں کی کارگزاری کو ہمیشہ سراہا۔ جن غیر ملکی این جی اوز نے کسی علاقے اور شعبے میں عوام کی خدمت کی، بچوں، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کا بیڑا اٹھایا اور ظلم و زیادتی کے خاتمے کیلئے آواز بلند کی اس کی تحسین ہوئی مگر حشرات الارض کی طرح وجود میں آنے والی فارن فنڈڈ این جی اوز میں سے بیشتر کا کردار ہمیشہ مشکوک اور طرز عمل سدا متنازع رہا۔
جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد امریکی دبائو پر سیاسی و جمہوری قوتوں کے بجائے فارن فنڈڈ این جی اوز کو کھلی چھٹی دی۔ دو این جی اوز کے سربراہوں عمر اصغر خان مرحوم اور زبیدہ جلال کو اپنی کابینہ میں شامل کیا جبکہ بعد ازاں دونوں پر خردبرد کے سنگین الزام لگے۔
حکمران اشرافیہ کی بے نیازی اور بے حسی کے علاوہ ریاستی اداروں کی ناکامی عیاں ہے اور عیاں راچہ بیاں۔ ظلم اور زیادتی کا ایک گورکھ دھندا ہے جس نے وسائل کی منصفانہ تقسیم کو ناممکن بنا دیا ہے اور لوٹ کھسوٹ کے کلچرکی حوصلہ افزائی کی ہے اور بیشتر این جی اوز نے بھی محض نمود و نمائش پر اکتفا۔ 2005ء کے تباہ کن زلزلے،2010ء کے سیلاب، تھر میں قحط اور آواران کے زلزلے کے متاثرین کو توقع تھی کہ ڈالروں میں امداد وصول کرنے والی این جی اوز ان کی جھولیاں دھن دولت اور اشیائے ضروریہ سے بھردیں گی مگر یہ بری طرح ایکسپوز ہوئیں اور ہرجگہ صرف اپنی خدمات کے بینرز، بورڈ لگا کریوں غائب ہوگئیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
2005ء کے زلزلہ کے فوری بعد مجھے اپنے تین صحافی دوستوں عامرخاکوانی، تنویر قیصر شاہداور مظہربرلاس کے ساتھ مظفرآباد، باغ، راولا کوٹ، بالا کوٹ اور دیگر متاثرہ مقامات پر جانے کا موقع ملا۔ ہرجگہ الرشید ٹرسٹ، مسلم ہینڈز، الخدمت فائونڈیشن، جماعت الدعوۃ، جماعت اسلامی اور دیگر تنظیموں کے علاوہ سعودی عرب، ترکی جیسے دوست ممالک کے سرکاری اہلکار اشیائے ضروریہ کی تقسیم، علاج معالجے اور مکانوں کی تعمیرمیں مصروف نظر آئے۔ امریکہ، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک نے سرکاری طور پر پاکستان کی بہت مدد کی۔ امریکی چینوک ہیلی کاپٹر نے متاثرین کے انخلاء میں پاک فوج کا ہاتھ بٹایا لیکن بیشتر این جی اوز صرف پروپیگنڈے تک محدودرہیں۔ تھر اور آوران میں بھی فلاح انسانیت فائونڈیشن، ڈاکٹر آصف جاہ کی کسٹمز کیئر ہیلتھ سوسائٹی اور دیگر تنظیموں کے کردار کا اعتراف مقامی آبادی کھلے دل سے کرتی ہے یا پھر پاک فوج ہے جو ہر مشکل اور مصیبت میں اپنے عوام کی خدمت کے لئے کمربستہ نظر آتی ہے۔
سیودی چلڈرن نامی تنظیم کی سرگرمیاں محدود کرنے کا فیصلہ کن اطلاعات کی بنا پر ہوا۔ قوم کو وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے اعتماد میں لیا نہ حکومت کے کسی دوسرے ادارے نے تفصیل بتائی۔ ایک پریس کانفرنس میں نثار علی خان گرجے برسے تو عوام نے سراہا مگر شاید یا تو نثار علی خان کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ ان این جی اوز کے ہاتھ کتنے لمبے ہیں اور ان کے سرپرست و پشتی بان دبائو کا کون کون سا حربہ اختیار کرسکتے ہیں یا پھروہ حسب عادت مکمل ہوم ورک کے بغیر چڑھ دوڑے اور امریکی بیان جاری ہوتے ہی یوٹرن لینے پر مجبور ہوگئے۔ ''نانی نے خصم کیا برا کیا، کرکے چھوڑدیا اور بھی برا کیا‘‘۔ پرویز مشرف کی طرح ایک امریکی کال اور بیان پر ڈھیر۔
اس انداز حکمرانی نے ایک طرف تو تعلیم، صحت، روزگار کی فراہمی کے شعبے سیٹھوں اور ساہوکاروں کے سپرد کردیئے ہیں، سرکاری تعلیمی اداروں اور صحت کے مراکز کا کوئی پرسان حال نہیں، دوسری طرف خدمت خلق کی مقامی تنظیموں کو سہولتیں اور مراعات دینے کے بجائے فارن فنڈڈ این جی اوز کو کھلی چھٹی دے دی ہے ، وہ ہمارے عقیدے، نظریے، رسوم و رواج، اقدار، روایات، تہذیب و ثقافت اور پسند و ناپسندکی مٹی پلیدکریں یا دنیا بھر میں ہمیں بدنام، ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ دینی مدارس خدمت خلق کا ذریعہ ہیں جہاں غریب، یتیم اور بے آسرا بچوںکو تعلیم کے علاوہ خوراک و لباس اور رہائش کی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں مگر کٹھ ملائیت نے انہیں مسلکی تعصبات اور فرقہ وارانہ منافرت کی آماجگاہیں بنا کر خود ہی بدنام کردیا ہے۔
تاہم قوم مایوس ہے نہ اس ناکامی میں حصہ دار۔ غیر ملکی این جی اوز کے برعکس پاکستان میں کام کرنے والی رفاہی تنظیموں نے معاشرے کو اجتماعی ناکامی سے بچایا، ورنہ کروڑوں بھوکے، ان پڑھ، بے روزگار اب تک تہس نہس ہو چکے ہوتے۔ لاہور میں ٹرسٹ سکول پروگرام، غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ اور دیگر کئی ادارے تعلیم کے میدان میں قابل قدر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اخّوت نے بے روزگاروں کو بلاسود قرضوں کے ذریعے روزگار کی فراہمی کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ جبکہ الخدمت فائونڈیشن یتیم بچوں کی کفالت اور تعلیم وتربیت پر کمربستہ ہے۔ ڈاکٹر عامرعزیز کا گھرکی ٹرسٹ مفت طبی سہولتوں کیلئے کوشاں ہے۔ یہی فلاحی ادارے اور مخیر افراد اس خونی انقلاب کی راہ روک رہے ہیں جو ریاست اور حکومت کی بے عملی، غلط ترجیحات، لوٹ کھسوٹ، ظلم و زیادتی اور ناانصافی کی وجہ سے عرصہ ہوا ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔
پاکستانی قوم میں خیرکا جذبہ بہت ہے، عزت سے جینے کی آرزو پختہ اورکچھ کر گزرنے کی خواہش بے کراں۔ گوہر ایوب خان نے اپنی کتاب میں لکھا ''1965ء کی جنگ میں رات کو حملہ کرنے والے بھارتی کینبرا طیاروں کو ہمارے ایف 104 طیاروں کی وجہ سے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ رات کو ایک میل دور تک دیکھنے والے ایف 104 طیاروں کی صلاحیت کو کراچی میں سائیکل کی مرمت کرنے والے ایک نوجوان نے کئی گنا بڑھا دیا تھا‘‘ جبکہ ایٹمی سائنس دان سلطان بشیر الدین محمود نے بتایا کہ ''ابتدا میں درہ آدم خیل کے کاریگروں نے سنٹری فیوجز کی تیاری میں کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز کی مدد کی‘‘۔
اس قدر ہنرمند، لائق اور چرب دماغ قوم غیرملکی این جی اوز کی محتاج ہوسکتی ہے نہ ان کے فریب کارانہ ایجنڈے پرراضی مگر افسوس کہ چرب زبان، لالچی اور حرام خور امراء کے گھوڑوں اور کتوں کے لئے ایئرکنڈیشنڈ اصطبل، درآمدی خوراک اور فارن کوالیفائیڈ ڈاکٹرز کا اہتمام کرنے والے معاشرے میں فائدہ اٹھانے والا کوئی نہیں۔ یونیسیف کے اعدادوشمار کے مطابق بیالیس لاکھ یتیم بچوں میں سے بائیس لاکھ فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ شفقت حسین کی رہائی کے لئے سرگرم عمل این جی اوز میں سے کس نے ان یتیم بچوں کی خبرگیری کی، قوم لاعلم ہے اور ان این جی اوز کی قصیدہ خوانی میں مصروف میڈیا بھی۔
چلو دفع کریںان این جی اوز اوران سے نمٹنے کا دعویٰ کرنے والی آمادئہ پسپائی حکومت کو ۔ حضوراکرمؐ کا ایک فرمان پڑھتے اور اپنے گریبان میں جھانکتے ہیں۔ فرمایا '' روز قیامت یتیم کا کفیل جنت میں میرے ساتھ دو انگلیوں کی طرح جڑ کر داخل ہوگا‘‘ گویا کفالتِ یتیم سے جنت کا حصول اور رفاقتِ رسولؐ سو فیصد یقینی ہے۔
تو کیوں نہ ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں، یتیموں کی کفالت کا ذمہ لیں اور ان تنظیموں کی مدد کریں جو یتامیٰ و مساکین، تعلیم، صحت، خوراک، رہائش اور بہتر روزگارکی سہولتیں فراہم کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن جیسی۔ وسائل خور اشرافیہ اور این جی او مافیا جانے اور دونوں کا سرپرست امریکہ ہمارا آپ کا بھلا کیا لینا دینا۔