تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     16-06-2015

دریا اور سمندر

ولایت میں ویک اینڈ Weakend کا مطلب ہوتا ہے ہفتہ اور اتوار کو چھٹی کا دن۔ جمعہ کی شام سب رفقائے کار ایک دُوسرے کو الوداع کہتے ہوئے اس نیک تمنا کا اظہار کرتے ہیں کہ خدا کرے کہ آپ کا ویک اینڈ اچھا گزرے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ آپ نہ بیمار ہوں اور نہ آپ کے گھر میں کوئی بدمزگی ہو بلکہ یہ کہ آپ اگلے دو دن میں کسی ایسی تفریح سے لطف اندوز ہوں جو کہ گزرے ہوئے پانچ دنوں میں کولہو کے بیل کو آٹھ یا دس یا کبھی کبھی بارہ گھنٹے کام کرنے کی وجہ سے نصیب نہیں ہوئی۔ جنوبی ایشیائی ممالک (مثلاً بھارت اور پاکستان) میں رہنے والوں کو یہ اندازہ نہیںہوتا اور نہ اپنی روایتی کاہلی اور مزاجاً سست الوجودی کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ مشرق بعید (کوریا‘ جاپان اور چین)کی طرح مغربی ممالک (سارا یورپ‘ کینیڈا اور امریکہ) میں لوگ‘ ہر طرح کے لوگ، ہر روز کتنی محنت کرتے ہیں۔ سو فیصدی توجہ سے۔ پورے انہماک سے۔ پوری دیانتداری سے ۔ شاعرانہ مبالغہ آمیزی کی جائے تو کہا جا سکتا ہے جانفشانی سے۔ اس کالم نگار کے اندازہ کے مطابق ترقی یافتہ ممالک کے دفاتر میں ہر روز جتنا کام ہوتا ہے وہ اپنے حجم کے لحاظ سے ترقی پذیر ممالک کے دفاتر سے دس بیس گنا زیادہ ہوتا ہے۔ کسی بھی یورپی ملک میں لوگوں کو سرکاری دفاتر کے چکر نہیں لگانے پڑتے اور نہ اپنی فائلوں کے پیچھے بھاگنا پڑتا ہے۔ سرکاری دفاتر میں عوام کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ فون کر سکتے ہیں۔ سرکاری عہدے دار اُن کی انکوائری (آپ ترجمہ بتائیں) لکھ لیتے ہیں اور اتنی جلد اتنا تسلی بخش جواب دیتے ہیں کہ کسی شہری کو دُوسری بار فون کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اسے کہتے ہیں کہ فرض شناسی۔ پوری دیانتداری اور احساس ذمہ داری سے اپنے اپنے فرض کی بجا آوری۔ یہی ضابطۂ اخلاق (Work Ethics) ہے جو مشرق بعید اور یورپ کے ہر ملک کو ترقی یافتہ بنانے کا ذمہ دار ہے۔ 
اس کالم نگاراور اُس کی بیوی کا‘ اُس کے بیٹے اور اُس کی بہو کا ہفتہ (23 مئی) کا دن اتنا یادگار گزرا کہ ڈائری میں لکھ لئے جانے اور اس کالم کی زینت بنائے جانے کے قابل ہے۔ دونوں تقریبات کے دعوت نامے ملکہ برطانیہ کی طرف سے جاری کئے گئے تھے۔ ظاہر ہے کہ ملکہ الزبیتھ نے ذاتی طور پر تو نہ جاری کئے‘اُن کے سرکاری فرائض سینکڑوں محنتی اور مستعد افراد ادا کرتے ہیں اور بڑے سلیقہ اوررکھ رکھائو سے کرتے ہیں۔ کالم نگار اور اُس کی بیوی کو یہ دعوت نامہ ملا کہ وہ اپنے گھر سے ساٹھ میل کا سفر کر کے برطانیہ کے مشرقی ساحل پر ایک بندرگاہ جائیں اور وہاں ایک سرکاری تقریب میں شریک ہو کر اس کی رونق بڑھائیں۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا ہے ہم دنوں کی شرکت سے رنگا رنگ تقریب کی رونق کتنی بڑھی مگر یہ وثوق سے لکھا جا سکتا ہے کہ ہم دونوں کے بوڑھے دل خوشی اور Excitement (آپ ترجمہ بتائیں) سے باغ باغ ہو گئے۔ 
75 سال پہلے جرمنی کے اچانک حملہ سے برطانوی فوج کے یورپ میں پائوں اُکھڑ گئے تو فیصلہ کیاگیا کہ ساری فوج کو حفاظت سے برطانیہ واپس لے آیا جائے۔ انسانی زندگی کی طرح جنگ میں بھی کبھی پسپائی کامیابی کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔ دُشمن کے نرغہ میں آجانے والی فوج بہت بڑی تھی اور بحریہ کے پاس اتنے تھوڑے جہاز تھے کہ انخلاکے لئے ناکافی۔ دُشمن کی یلغار تند و تیز تھی اور وقت بہت تھوڑا تھا جس میں انخلا کو مکمل کرنا ضروری تھا ورنہ ساری فوج کے ہلاک ہوجانے کی تلوار سرپر لٹک رہی تھی جوہر لحظہ جُھکے ہوئے‘ فکر مند اور (وقتی طور پر) شکست خوردہ انسانی سروں کے قریب ہوتی جا رہی تھی۔ برطانوی حکومت نے اپنے اُن شہریوں سے مدد مانگی جن کی ذاتی کشتیاں ہیں‘ جو رودبار انگلستان میں بحری سیر اور مچھلیاں پکڑنے کے لئے استعمال کی جاتی ہیں۔ خوش قسمتی سے اُن کشتیوں کی تعداد ہزاروں تھی۔ ہر وہ شخص جس کے پاس چھوٹی سی موٹر بوٹ (Motor Boat)تھی وہ مقررہ دن مقررہ وقت پر مقررہ جگہ پہنچ گیا۔ یہ وُہی ساحلی مقام تھا جہاں 23 مئی کی صبح کو چمکنے والی خوشگوار دھوپ میں یہ کالم نگار اپنی رفیقۂ حیات اور ہزاروں لوگوں کے ساتھ کھڑا تھا تاکہ 75 سال پہلے ہونے والے تاریخی واقعہ کی یادمنائی جاسکے۔ ساحل پر نہ صرف برطانیہ بلکہ دولت مشترکہ کے وہ تمام ممالک‘ جن کے شہریوں نے دُوسری جنگ عظیم میں حصہ لیا تھا‘ کے پرچم بڑی تمکنت سے لہرا رہے تھے۔ ہم نے دور کھڑے ہوکروہ جگہ ڈھونڈی جہاں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم اس شان سے لہرا رہا تھا جیسے جانتا ہو کہ وہ 20 کروڑ بہادر اور غیرت مند لوگوں کی عظمت اور آزادی کی علامت ہے۔ تقریب کا آغاز ایک توپ چلا کر کیا گیا‘ جس کی گونج دُور تک سنائی دی گئی ہوگی۔ دفاعی افواج کے ایک چاق و چوبند دستہ نے سب پرچموں کو سلامی دی۔ سب لوگوں نے مل کر برطانیہ کا قومی ترانہ گایا۔ پاکستانی جوڑے نے اس موقع سے فائدہ اُٹھا کر اپنے پرچم کو سلام کیا اور اپنا قومی ترانہ گنگنایا (افسوس کہ سارے الفاظ یاد نہ تھے اور نہ ہماری آواز زیادہ سُریلی تھی)۔ فوجی بینڈ دُھنیں بکھیرنے لگا تو چشم فلک نے ایک بار پھر وُہی منظر دیکھا جو 26 مئی اور چار جون 1940ء کے درمیانی نو دنوں میں ہر گھنٹہ دیکھا گیا تھا۔ سینکڑوں کشتیاں اپنے نمائشی بادبان لہراتی ہوئی فرانس کی ایک بندرگاہ Dunkirk کی طرف روانہ ہوئیں۔ اُنہوں نے تیس میل کا بحری سفر چھ گھنٹوں میں طے کیا۔ خوشی قسمتی سے موسم اچھا تھا اور سمندر پر سکون اور ساری کشتیاں منزل پر خیر خیریت سے پہنچ گئیں۔ وہ شام فرانس گزاریں گی۔ فرانسیسی عوام کی مہمان نوازی کی اُن پر بارش کر دی جائے گی۔ فرانس میں ہر اچھے کھانے کے ساتھ اتنی زیادہ شراب (Wine) پی جاتی ہے کہ تقریب کے شرکاء مذاق میں کہہ رہے تھے کہ ہمارے جو افراد آج خیریت سے اپنی کشتیوں کو فرانس کے ساحل پر لنگر انداز کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے‘ آج رات وہ اتنے مدہوش ہوں گے کہ شاید کل واپسی میں گھر کا راستہ بھول جائیں اور گہرے سمندروں میں گم ہو جائیں تو پھر ان کی بازیابی کے لئے ہمیں جن اور کشتیوں کی ضرورت پڑے گی وہ کہاں سے لائیں گے؟ ہمارے پاس کھڑے ہوئے بحریہ کے بڑے افسروںنے ہمیں تسلی دی کہ وہ کام‘ جو برطانوی بحریہ 1940ء میں نہ کر سکی تھی (اپنی جنگی مصروفیات کی وجہ سے)‘ ضرورت پڑی تو کل کر دینے کی اہلیت رکھتی ہے۔ میں آپ کو یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ 1940 ء کے ان تاریخی نو دنوں (26 مئی سے لے کر 6 جون تک) میں ہزاروں چھوٹی چھوٹی کشتیوں کے ذریعہ عام شہریوں نے دن رات کام کر کے اور آرام کے بغیر فرانس میں پھنسی ہوئی اتحادیوں کی جس فوج کو ڈنکرک سے نکالا اُس کے سپاہیوں کی کل تعداد تین لاکھ 38 ہزار تھی۔ آج بھی انگریزی زبان میں Dunkirk Spirit کے الفاظ بولے جاتے ہیں‘ جس کا مطلب ہوتا ہے کہ انتہائی نامساعد حالات میں فقید المثال ہمت اور حوصلہ کا مظاہرہ کر کے ناممکن کو ممکن بنا دینا (جس طرح 1965 ء کی پاک بھارت جنگ میں اہل لاہور نے کیا)۔
اب آتے ہیں کالم نگار کے بیٹے اور بہو کی طرف۔ اُنہیں ملکہ برطانیہ نے اپنے گھر چائے پر بلایا۔ مہمانوں کی کل تعداد تین ہزار تھی۔ اس طرح کی تقریب ہر سال گرمیوں میں تین بار منعقد کی جاتی ہے ۔ تین ہزار کو تین سے ضرب دیں تو جواب بنتا ہے نو ہزار۔ ہر سال ملکہ برطانیہ کاعملہ سرکاری اور فوجی افسروں‘ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اراکین‘ وُکلا‘ اساتذہ‘ سوشل ورکروں‘ کونسلروں‘ رضا کاروں‘ خدمت خلق کرنے والوں‘ ادیبوں‘ فنکاروں اور کھلاڑیوں میں سے نوہزار افراد کو چُن کر اس تقریب کے دعوت نامے جاری کرتا ہے تاکہ اُن کی حوصلہ افزائی اور عزت افزائی کی جا ئے۔ ملکہ سب مہمانوں کے سامنے سے گزرتی ہیں اور تمام مہمانوں کے اجتماعی سلام کا جواب دیتی جاتی ہیں۔ مہمانوں کی خاطرتواضع بہترین کیک اور سینڈ وچ سے کی جاتی ہے۔ ہمارا بیٹا علی اپنے دُوسرے (تین بڑے اور ایک چھوٹے) بھائی سے زیادہ اچھا بیرسٹر تو ہر گز نہیں مگر خوش نصیبی کا ھُمااُس کے سر پر بیٹھا اور اُسے چوٹی کا بیرسٹر ہونے کا اعزاز Queen's Counsel بنائے جانے کی صورت میں دیا گیا۔ یہ ہوتا ہے قسمت کا کمال۔ میرے دُوسرے بیٹے کہتے ہیں کہ اگر آپ ہماری پیدائش پر ہمارا نام علی رکھتے تو ہم بھی یہ درجہ کمال حاصل کر لیتے۔(باقی صفحہ 13پر)
اس خطرہ کے پیش نظر کہ علی اور مسز علی مذکورہ بالا عزت افزائی پر مغرور نہ ہو جائیں میں نے اُن دونوں کو یاد دلایا کہ آپ تو ملکہ مُعظمہ کے گھر دو تین گھنٹے گزار آئے ہیں‘ جہاں آپ نے چائے کی ایک پیالی پی اور کیک کا ایک ٹکڑا کھایا اور بس۔ چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان میرے بہت دُور کے رشتہ دار تھے۔ وہ خود کاہلوں جاٹ تھے مگر والدہ باجوہ گھرانہ کی نور چشم تھی۔ قیام پاکستان کے قبل وہ ہندوستان کے وائسرائے کی مرکزی انتظامیہ کونسل کے رُکن تھے۔ جب بھی لندن آتے (اور وُہ کئی بار آئے) تو ملکہ الزبتھ کے آنجہانی باپ (شہنشاہ جارج ہشتم)کی دعوت پر ہمیشہ بکنگھم پیلس ٹھہرتے‘ اور کئی کئی دن شاہی مہمان بنتے۔ صرف چائے کی ایک پیالی پی کر گھر نہ آجاتے۔ 
آج کا کالم ختم کرنے سے پہلے اپنے قارئین کو یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ جس شخص کو وہ1947 ء میں ہندوستان کے دو صوبوں (پنجاب اور بنگال) کو تقسیم کرنے اور لکیر کھینچنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی اُس کا نام Sir Cyril Radcliffe۔ یہی وجہ ہے کہ اُس کے کئے گئے انتہائی غیر منصفانہ اور شرمناک فیصلہ کو ریڈ کلف ایوارڈ کہا جاتا ہے۔ وہ برطانوی نظام عدلیہ میں کسی سطح کا بھی جج نہیں تھا (یہ عہدہ بطور انعام اُسے 1948ء میں دیا گیا)۔ 1947 ء میں وہ محض وہ ایک Kings Counsel تھا۔ کاش قائداعظم (ایک عام انگریز بیرسٹرکی (چاہے وہ میرے ایک بیٹے کی طرح Kings Counsel ہوتا)غیر جانبداری پر اتنا اندھا بھروسہ نہ کرتے اور کئی لاکھ بے گناہ ہندو اور مسلمان گھرانے ناقابل تصورعذاب اور قتل عام سے بچ جاتے۔پنجاب کے دریائوں کا پانی اَن گنت پنجابیوں کے خون سے سرُخ نہ ہو جاتا۔ دوبارہ کاش لکھتا ہوں ۔بار بار کاش لکھتا ہوں؎
ایں حرف کا شکہ کہ بَعد جا نوشتہ ام

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved