اگر فوج کا معزز ادارہ یہ سمجھتا ہے اور جو اس کے اپنے پیغامات سے بھی ظاہر ہے کہ کرپشن ختم کیے بغیر دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتی تو ہمہ مقتدر ہونے کے باوصف اس سلسلے میں روک تھام کے لیے اس کے اقدامات کیا ہیں۔ آئے روز اربوں کی کرپشن کے سکینڈل منظر عام پر آ رہے ہیں جن کی تردید یا وضاحت کرنے کا تردد بھی کبھی حکومت نے روا نہیں رکھا۔ کرپشن کی وجہ سے اگر پیپلز پارٹی جیسی ملک گیر جماعت گھٹنوں کے بل گری ہوئی نظر آتی ہے تو موجودہ حکومت کو بھی اس انجام سے دوچار ہونے کے لیے تیار ہونا چاہیے بلکہ اسے دوہری مار پڑے گی۔ کرپشن کی الگ اور پیپلز پارٹی کی کرپشن چھپانے کی الگ۔ کسی نے آج تک نیب سے نہیں پوچھا کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف جو سات ارب کی انکوائری چل رہی تھی اور موصوف کی فرمائش پر جس کا تفتیشی تبدیل کر دیا گیا، اس میں کیا ہو رہا ہے، کچھ ہو بھی رہا ہے یا نہیں۔
کسی ملک پر اس سے بڑا قہر نازل نہیں ہو سکتا اگر اس میں کسی کو کوئی پوچھنے والا ہی نہ ہو، اگر ہو بھی تو اس نے بھنگ پی رکھی ہو۔ گندم سکینڈل کا اخبارات میں شور مچنے کے بعد پورا ملک اس پر کانوں کو ہاتھ لگا رہا تھا، مگر ایک اجلاس میں جب اس سلسلے میں پیش رفت بارے سوال کیا گیا تو وزیراعظم نے کہا کہ مجھے تو اس کا علم ہی نہیں۔ ایک لڑکا آم کے درخت پر چڑھا آم چُرا رہا تھا کہ باغ کا مالک بھی وہاں آ پہنچا اور بولا۔
''نیچے اترتے ہو یا تمہارے باپ کو بلائوں؟‘‘
''انہیں بلانے کی ضرورت نہیں‘‘ لڑکے نے جواب دیا۔
''کیوں؟‘‘ باغ کے مالک نے پوچھا۔
''اس لیے کہ وہ ساتھ والے باغ پر چڑھے ہوئے ہیںٖٖ‘‘! لڑکے نے جواب دیا۔
اس وقت ملک کی اکثریتی آبادی یعنی کسان باقاعدہ پس کر رہ گئے ہیں۔ گندم کی چوٹ ہی ان کے لیے بہت تھی کہ چاول کی ضرب مزید لگا دی گئی کہ ملک کے مسلمہ طور پر اعلیٰ درجے کا کرنل باسمتی چاول گوداموں میں پڑا سڑ رہا ہے اور اس کی ایکسپورٹ یکسر بند ہے۔ پہلے یہ چاول ایران خریدا کرتا تھا، اب اس نے یہ خریداری بند کر دی ہے جس کے نتیجے میں رائس ملیں بند ہو رہی ہیں اور چاول کی کاشت کم سے کم تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ جو پیسہ ریلیف کے طور پر کسانوں پر خرچ کیا جانا چاہیے تھا، اس سے ادھر ادھر غیر ضروری اور غیر قانونی سب سڈیز دی جا رہی ہیں۔ شفقت محمود کا کہنا ہے کہ عوام روٹی کے لیے ترس رہے ہیں اور ان کے ٹیکس پر حکمران عیاشیاں کر رہے ہیں۔ بازار کی صورت حال یہ ہے کہ بجٹ کا اعلان ہوتے ہی مہنگائی کا طوفان آ گیاہے اور آج ہی کی ایک اطلاع کے مطابق لاہور میں سبزیوں اور پھلوں کی قیمت میں 40 روپے فی کلو کے حساب سے اضافہ ہو گیا ہے اور رمضان نے ابھی آنا ہے۔
جنگلا بس، موٹر ویز، اورنج ریلوے پر جو پیسہ پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے اس سے نہ صرف سکولوں اور ہسپتالوں کی ناگفتہ بہ حالت سدھاری جا سکتی تھی بلکہ کوئی چھوٹا موٹا ڈیم تو بنایا جا ہی سکتا تھا۔ چلیے، اس میں سریا نہ سہی، سیمنٹ تو کثیر مقدار میں خرچ ہوتا ہی ہے۔ حکومت اور عوام کمزور اس لیے ہیں کہ آبادی کو جاہل اور بیمار رکھا جا رہاہے۔ حکومتی پالیسیاں قطعاً عوام دشمن بلکہ ملک دشمن ہیں۔ چنانچہ اقوام عالم میں ایک غریب ملک کی جو عزت اور وقار ہو سکتا ہے وہ ہماری صورت حال سے صاف ظاہر ہے اور بدحکومتی کی اس سے بڑی مثال شاید دنیا بھر میں کہیں اور دستیاب نہ ہو۔
خارجہ امور میں کارکردگی کا عالم یہ ہے کہ ہمسایہ اور برادر ملک افغانستان کے ساتھ سدھرے ہوئے تعلقات ایک بار پھر بگاڑ کی طرف رواں دواں ہیں اور افغان صدر یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان نے ہمارے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے۔ اقتصادی راہداری کے تناظر میں بھارتی مخاصمانہ پالیسی اور اعلانات کے تناظر میں افغانستان کے ساتھ تعلقات کا یہ نہج اختیار کرنا مزید تشویش انگیز ہے۔ خود مختاری کا عالم یہ ہے کہ ایک غیر ملکی این جی او جس کے بارے میں ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی اطلاعات پر اسے بند کر دیا گیا تھا، امریکہ کی ایک گُھرکی کے بعد آناً فاناً وہ حکم واپس لے لیا گیا ہے جس کے پس منظر میں یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ امریکہ ایک جانی بوجھی پالیسی کے تحت بھارت کو اس علاقے کا چودھری بنانے پر تلا ہوا ہے تاکہ ہم بھی اس کے کمی کمینوں میں شامل ہو جائیں۔ اگر وزارت خارجہ کے اصل امین یعنی فوج نے اس این جی او کے حوالے سے حکومت کی پھرتیوں کا نوٹس نہیں لیا تو یہ اور بھی حیران کن امر ہے۔ اگر مذکورہ این جی او کے خلاف کوئی ثبوت موجود نہیں تھا تو اس کے دروازے پر تالا لگا کر باہر پولیس کیوں کھڑی کر دی گئی اور اگر کوئی تھا تو اس کی انکوائری کیوں نہیں ہوئی۔ یہ ہمارے طرز حکمرانی کی تازہ ترین مثال ہے، یعنی نانی نے خصم کیا، بُرا کیا۔ کر کے چھوڑ دیا اور بھی بُرا کیا۔ ملک میں ہزاروں این جی اوز سالہا سال سے کام کر رہی ہیں اور حکومت کو شایداعتراض یہی ہے کہ یہ سارے کام تو حکومت کو کرنا تھے اور کر یہ رہی ہیں اور اس کا کریڈٹ بھی لے رہی ہیں۔
سو، حکومتی فریب کاریوں اور جھوٹے دعووں کے باوجود ملک جس جانب جا رہا ہے، جس جانب اسے دھکیلا جا رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے اور ہر کوئی بے بس نظر آتا ہے حتیٰ کہ اقتصادی راہداری کا مستقبل بھی کچھ ایسا تابناک نظر نہیں آتا۔ ریٹائرڈ میجر جنرل اطہر عباس کا کہنا ہے کہ بھارت آزاد کشمیر پر حملہ کرنا چاہتا ہے تاکہ اس منصوبے کا راستہ ہی کاٹ کر رکھ دے۔ ہماری ازلی کمزوریوں اور اس نحیف و نزار حکومت کی بدولت اور ہماری بین الاقوامی تنہائی کی وجہ سے وہ دنیا بھر میں اس حملے یا قبضے کا جواز بھی فراہم کر دے گا جبکہ حکومت اس دھمکی پر کوئی توجہ نہیں دے رہی اور ایٹمی ملک ہونے کے ناتے اسے ناممکن قرار دے رہی ہے اور یہ نہیں جانتی کہ ایٹم بم چلانے کے لیے نہیں ہوتے اور اگر کوئی ایسا موقع خدانخواستہ آیا بھی تو امریکہ جو ہمیں مبینہ طور پر ایک ملک دشمن این جی او بند کرنے نہیں دے رہا، وہ ہمیں ایٹم بم ضرور چلانے دے گا۔ سو، اگر یہ ملک ہے تو فوج بھی ہے اور اگر خدانخواستہ ملک کو کچھ ہوتا ہے تو سب سے پہلے چھٹی اسی کی ہو گی لیکن اس ڈوبتی ہوئی کشتی کو اب بھی بچایا جا سکتا ہے۔
آج کا مطلع
خوش ہے وہ دے کے ہمیں خواب سہانے، خالی
پاس آتا نہیں، کرتا ہے بہانے خالی