وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی بجٹ 2015-16ء پیش کرنے سے ایک روز قبل ملک کی مجموعی اقتصادی صورت حال کا تفصیلی جائزہ پیش کرتے ہوئے قوم کو یہ خوش خبری بھی سنائی کہ ان کی حکومت کے دو سالوں میں ملک میں گدھوں کی تعداد پچاس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور یقینا یہ مسلم لیگ نواز کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ وزیر خزانہ نے قوم کو یہ خوش خبری اس دن سنائی جب میٹرو بس کا افتتاح ہونا تھا۔ ان کا کہناتھا کہ پچھلے سال پاکستان میں گدھوں کی کل تعدادانچاس لاکھ پچاس ہزار تھی جو اس سال بڑھ کر پچاس لاکھ ہو گئی ہے۔ڈار صاحب نے پری بجٹ بریفنگ دیتے ہوئے فرمایا کہ ملک میں خچروں کی تعداد اس وقت دو لاکھ ہے۔ خچر جسے ''کھچر‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے‘ تعداد میں تو ہمیشہ کم ہو تے ہیں لیکن انتہائی بلندی تک پہنچنے میں انہیں کمال حاصل ہوتا ہے اور گدھے جو بلندی کا خیال آتے ہی کانپنے لگتے ہیں‘ بس سر جھکائے گدھے ہی بنے رہتے ہیں۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ گدھوں کی کھالیں کھینچے کے بڑھتے ہوئے کاروبار کی وجہ سے پاکستان میں گدھوں کی نسل نایاب ہوتی جا رہی ہے لیکن وزیر خزانہ کی حوصلہ افزا پریس کانفرنس سننے کے بعد ذہن سے یہ بوجھ بھی اتر گیا۔ رہی گدھوں کی کھالوں کی بات تو وہ وقت گیا جب ان کی کھالیں بجٹ کے بعد اتاری جاتی تھیں‘ اب تو سال کے ہر مہینے میں اترتی ہیں اور اس کا باقاعدہ ڈنکے کی چوٹ پر اعلان بھی کیا جا تا ہے ۔ اب تو ملک بھر میں ہر طرف گدھوں کے گوشت اور گدھوں کی کھالوں کی آوازیںہی سنائی دے رہی ہیں بلکہ بھٹائی نگر سندھ میں بجلی کے کھمبے کے ساتھ بندھا ہوا گدھا اچانک برقی رو آجانے سے مارا گیا تو گدھے کے وارثوں نے حیسکو کے سات بڑے افسران کے خلاف اس کی ہلاکت کا مقدمہ درج کرا دیا ہے‘ جس کے خلاف بھٹائی نگر تھانے میں وزیر مملکت برائے پانی وبجلی عابد شیر علی نے کئی گھنٹے تک دھرنا دیے رکھا۔ استاد محترم گوگا دانشور کو وزیر خزانہ کی جانب سے قوم کو دی گئی یہ خوش خبری سناتے ہو ئے پوچھا: حضور اس ملک میں اب تک شاید 67 کے قریب قومی بجٹ پیش ہو چکے ہیں اور خود اسحاق ڈار صاحب نہ جانے کتنے بجٹ پیش کر چکے ہیں اور انہوں نے اس سے قبل کبھی گدھوں اور خچروں کی تعداد کا ذکر نہیں کیا تھا‘ لیکن اس دفعہ وہ کیا خاص وجہ ہے کہ گدھے قومی بجٹ کا حصہ بن کر سب سے زیا دہ اہمیت اختیار کر گئے ہیں اور ان کا ذکر کوئی اور نہیں بلکہ ملک کا با اختیار وزیر خزانہ اپنی پریس کانفرنس میں کر رہا ہے۔ گوگا دانشور نے میرے سوال پر توجہ دینے کے بجائے یہ پوچھا کہ تم جانتے ہو کہ گدھے کی کھال اب ایک بہت بڑا کاروبار بن چکا ہے‘ وہ کھال جو کل تک پانچ سو روپے میں بھی کوئی نہیں پوچھتا تھا‘ اب پندرہ سے بیس ہزار روپے میں فروخت ہونا شروع ہو گئی ہے؟۔ہو سکتا ہے کہ ملک کی کسی شخصیت نے کسی دوسرے ملک سے گدھوں کی کھالوں کا ایڈوانس سودا کر رکھاہو اور اپنے خریدار کو یقین دلایا جا رہا ہو کہ جناب! آپ گھبرائیں مت‘ ہمارے پاس ابھی پچاس لاکھ گدھے موجو دہیں؟
گدھا ایک بھولا بھالا اور فرمانبردار قسم کا جانور ہے۔ اسے جہاں کھڑا کر دیں وہاں کھڑا رہتا ہے۔ اپنی پوری زندگی میں وہ بمشکل پانچ دس دفعہ ہلکا سا احتجاج کرتا ہے۔ ورنہ وہ ہمیشہ گرمی سردی کی پروا کئے بغیر ہر قسم کا بوجھ اٹھانے کیلئے نظریں جھکائے کھڑا رہتا ہے۔ اس پر جتنا بوجھ لاد دیا جائے وہ چوں چرا نہیں کرے گا‘ بلکہ گدھے تو اس وقت اپنی خوش قسمتی پر رشک کرتے ہیں جب وہ جھکی ہوئی کمروں والے بوڑھوں کو بینکوں اور ڈاکخانوں کے سامنے سخت سردیوں اور آگ برساتی گرمیوں میں اپنی چالیس سالہ ملازمت کے صلے میں پنشن کیلئے قطاروں میں دھکے کھاتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
محترم وزیر خزانہ نے یہ تو قوم کو یا دنیا میں گدھوں کی کھالوں کے تاجروں کو بتا دیا کہ پاکستان میں اس وقت پچاس لاکھ گدھے ہیں لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ گدھے پنجاب میں زیا دہ ہیں یا سندھ میں‘ بلوچستان میں ہیں یا خیبر پختونخوا میں اور کیا یہ سب گدھے بوجھ اٹھانے اور ڈنڈے کھانے والے ہیں یا ان میں کچھ ایسے گدھے بھی ہیں جو بہت ہی اچھے علا قوں میںاچھی طرح سے رہ رہے ہیں۔ میرا تو خیال ہے کہ وزارت خزانہ نے بجٹ کے دوسرے اعداد وشمار کی طرح
گدھوں کی تعداد بھی ٹھیک نہ بتائی ہو‘ کیونکہ پچاس لاکھ کی تعداد تو بہت ہی کم لگ رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ تعداد صرف سندھ ہمیں موجود گدھوں کی ہو‘ کیونکہ ملک میں آج کل ٹائپنگ مسٹیکس بہت زیادہ ہو رہی ہیں‘ کیونکہ بجٹ کی کاپی کے صفحہ نمبر25 پر وزارت خزانہ کی جانب سے ملک کے صدر کا نام ممنون حسین کے بجائے ابھی تک آصف علی زرداری ہی لکھا جا رہا ہے تو گدھوں کی تعداد میں بھی ٹائپنگ مسٹیک کی گنجائش ہو سکتی ہے۔ بھئی دور نہ جائیں‘ سرگودھا کے جس قومی حلقے سے وزیر اعظم نواز شریف نے حصہ لیا‘ وہاں کے ایک پولنگ اسٹیشن پر ووٹوں کی کل تعداد پندرہ سو تھی لیکن ان کے اس پولنگ اسٹیشن سے آٹھ ہزار سے زائد ووٹ نکل آئے۔ جب یہ معاملہ میڈیا میں آنے سے شور مچا تو فرما دیا گیا کہ سوری سوری‘ یہ کلیریکل اور ٹائپنگ کی غلطی تھی۔ اس لئے وزیر خزانہ صاحب اپنی اس پری بجٹ تقریر کے اعداد و شمار کو دوبارہ چیک کریں۔ ہو سکتا ہے کہ گدھوں کی تعداد کروڑوں میں سامنے آ جائے۔ وزارت خزانہ اندازہ لگائے کہ اگر یہ گدھے تعداد میں دو تین کروڑ نکل آتے ہیں تو حکمران جماعت کو اس سے کتنا فائدہ ہو گا ۔ ذرا سوچئے کہ گدھے کی ایک کھال اگر پندرہ ہزار روپے میں بکے تو پاکستان کو ایک کروڑ کھالوں سے کتنا زر مبادلہ حاصل ہو گا؟ اگر کوئی حکومتی اہلکار یہ سمجھتا ہے گدھے گھنٹوں قطاروں میں کھڑے رہنا پسند کریں گے‘ اپنے مالک کی آمد پر اسے دیکھ کر اس کیلئے دھوپ اور سردی
میں ڈھینچوں ڈھینچوں کرتے رہیں گے‘ لیکن کھال اتروانے پر شدید احتجاج کریں تو ان کی غلط فہمی ہے کیونکہ یہاں تو گردے تک نکال کر بیچ دیے جاتے ہیں‘ پھر بھی انہیں کسی قسم کا فکر نہیں ہوتا۔
پاکستان کی سڑکوں پر اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ کتے بڑی بڑی ایئر کنڈیشنڈ گاڑیوں میں اپنے مالک کے ساتھ بیٹھے ہوئے گھوم رہے ہوتے ہیں لیکن گدھوں کے بارے میں ابھی تک دیکھنے میں نہیں آیا کہ یہ بھی بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتے ہوں۔ ہاں یہ بڑی گاڑیوں کے پیچھے پیچھے ضرور بھاگتے دیکھے گئے ہیں اور ان کو بڑے بڑے گھروں کے باہر بندھا ہوا بھی اکثر دیکھا جا سکتا ہے۔ انگریز کے دور میں یہ انتباہی الفاظ کئی عمارتوں کے باہر لکھے ہوئے دکھائی دیتے تھے ''ہندوستانیوں اور کتوں کا داخلہ ممنوع ہے‘‘ لیکن یہ آج تک کہیں بھی دیکھنے میں نہیں آیا کہ گدھوں کا داخلہ بھی ہندوستانیوں کے ساتھ بند کیا گیا ہو۔ اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ انگریز کی نظروں میں گدھوں کو ہندوستانیوں سے زیا دہ عزت حاصل تھی ۔ کتے کی وفاداری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مثالی ہوتی ہے لیکن وفاداری کے ساتھ ساتھ کتا بھونکتا ہے بلکہ اکثر کاٹنے کو بھی آ جاتا ہے لیکن گدھا کاٹتا نہیں‘ یہ اس وقت تک آپ کو اٹھائے ہوئے چلتا رہے گا جب تک یہ تھک ہار کر گر نہ جائے۔ اگر اسے گرنے پر بھی چار پانچ زور دار ڈنڈے مارے جائیں تو یہ دوبارہ اٹھ کر اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک کہ اس کی سانس اکھڑ نہ جائے۔ گدھے کو خود کشی کا طریقہ معلوم نہیں‘ ورنہ اب تک لاکھوں گدھے نہروں میں کود کر اور ٹرینوں کے آگے لیٹ کر جان دے چکے ہوتے۔