تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     16-06-2015

ہمت کیسے ہوئی؟

پچھلے ہفتے حیدر آباد میںایک گدھا گاڑی سڑک پر سے گزر رہی تھی۔ سڑک پر پانی کھڑا تھا اور پانی میں بجلی کے دو ننگے تار گرے ہوئے تھے۔ پانی میں داخل ہوتے ہی گدھا کرنٹ لگنے سے ہلاک ہو گیا جبکہ اس کا مالک لکڑی پر بیٹھے رہنے کی وجہ سے محفوظ رہا۔ گدھے کی ہلاکت پر مالک نے چیخ پکار شروع کر دی۔ یہ صرف گدھا نہیں مرا تھا بلکہ اس کی روزی روٹی کا ذریعہ ختم ہو گیا تھا۔ اس دوران میں شور سن کر راہگیر اکٹھے ہو گئے۔ میڈیا کے آنے پر علاقہ مکینوں نے بتایا کہ بجلی کے یہ تار کئی دنوں سے گرے ہوئے ہیں ‘ متعدد مرتبہ حیسکو حکام کو اطلاع دی گئی لیکن کوئی ٹھیک کرنے نہیں آیا۔ اس سے قبل بھی دو بچیاں یہاں کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہو چکی ہیں تاہم حکام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ گدھے کا مالک اور علاقہ مکین اکٹھے ہو کر تھانے گئے اور حیسکو حکام کی غفلت سے گدھے کی ہلاکت کا پرچہ حیسکو حکام کے خلاف درج کروا دیا۔ پرچہ درج ہوا ہی تھا کہ وزیرمملکت عابد شیر علی نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور اسے اپنی اور اپنے محکمے کی بے عزتی قراردیدیا۔فرمایا کہ حیدرآباد پولیس نے گدھے پر بجلی کا تارگرنے کا مقدمہ حیسکو کے 8 اہلکاروں کے خلاف درج کرکے انہیں خوفزدہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ نہ جانے انہیں کہاں سے یہ اپنی ہتک محسوس ہوئی۔ گدھا اگر انسان نہیں تو انسان کے کام تو آتا ہے اور اگر یہ اتنا ہی غیر اہم ہوتا تو وزیرخزانہ اسحاق ڈار بجٹ تقریر میں یہ فخریہ اعلان کیوں کرتے کہ ملک میں گدھوں کی تعداد انچاس لاکھ سے بڑھ کر پچاس لاکھ ہو گئی 
ہے اور اگر یہ اتنا ہی غیر اہم ہوتا تو اس کی کھال پندرہ بیس ہزار میں فروخت ہو کر بیرون ممالک کیوں ایکسپورٹ ہو رہی ہوتی۔ عابد شیر علی کو پولیس کا یہ اقدام اتنا ناگوار گزرا کہ وہ تھانے کے سامنے پہنچ کر بیٹھ گئے کہ گرفتار کرنا ہے تو مجھے کرو ۔ میں دیکھتا ہوں کیسے کوئی میرے محکمے کے اہلکاروں کو ہاتھ لگاتا ہے۔ شاید عابد شیر علی کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ پنجاب میں تو پولیس حکمرانوں کے ایما پر چودہ پندرہ لوگوں کو سرعام گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے لیکن نہ پولیس کو کوئی ہاتھ لگانے کی جرأت کرتا ہے نہ پولیس کو ایسا کرنے کا حکم دینے والوں کو کوئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم ذمہ دار ٹھہرانے کا حوصلہ رکھتی ہے تو پھر سندھ پولیس کی یہ کیسے ہمت ہوئی کہ وہ ایک جانور وہ بھی گدھے کی ہلاکت کو اتنی اہمیت دے اور اس کا پرچہ عابد شیر علی جیسے وزیر کے محکمے کے ملازمین کے خلاف درج کروا دے۔عابد شیر علی کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کارنامے پر حیدرآباد پولیس کا نام گینز بک میں درج کرانا چاہئے۔عابد شیر علی کو شاید معلوم نہیں کہ گینز بک کا اجرا برطانیہ جیسے ممالک میں ہوا جہاں گدھا تو گدھا‘ کتے بلی اور تمام چرند پرند کے حقوق انسانوں سے کم نہیں ہیں۔ ان کے الگ ہسپتال‘ الگ ڈاکٹر‘ الگ رہائش گاہیں‘ سب کچھ انہیں ایسے ہی میسر ہوتا ہے جیسے انسانوں کو۔ اگر ہم انہیں یہ خبر گینز بک میں شامل کرنے کے لئے بھیج دیتے ہیں تو اس سے ہماری سبکی تو ہو سکتی ہے حوصلہ افزائی نہیں۔ ہاں اگر وزیرموصوف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں تو انسانوں کی کتے اور گدھے سے بھی کم عزت اور توقیر کی جاتی ہے اور ماڈل ٹائون سانحے کی طرح انہی کے مرنے پر اُلٹا متوفی اور اس کے اہلخانہ کے خلاف پرچے درج کرا دئیے جاتے ہیں تو اس لحاظ سے یہ واقعی ایک خبر ہے لیکن یہ گینز بک آف پاکستان میں تو شامل کی جا سکتی ہے‘ ورلڈ ریکارڈ میں نہیں۔ عابد شیر علی نے یہ بھی کہا کہ سندھ پولیس کی اتنی اچھی کارکردگی ہے تو پھرعوام کا اللہ ہی حافظ ہے۔شاید ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پنجاب پولیس تو غریب آدمی کے مرنے پر پرچہ تک درج نہیں کرتی سندھ پولیس ایک گدھے کی ہلاکت پر انسانوں کے خلاف پرچے درج کرنے پر تلی ہوئی ہے لہٰذا اس کی کارکردگی ناقابل قبول ہے۔
عابد شیر علی درست کہتے ہیں۔ سندھ پولیس کو اتنی جرأت نہیں دکھانی چاہیے تھی۔ چند ماہ قبل رائے ونڈ روڈ سے متصل ایک ٹریفک سگنل پر ناقص ٹرانسفارمر پھٹ گیا تھا جس کی زد میں آ کر ایک صحافی طارق عبداللہ جھلس کر زخمی اور ان کی اہلیہ جاں بحق ہو گئی تھیں۔ اس خاتون پر ساٹھ ڈگری کا گرم کھولتا ہوا تیل گرا تھا اور اسے موقع پر آگ بھی لگ گئی تھی۔ یہ واقعہ اسی رائے ونڈ روڈ پر ہوا جہاں سے ہر اتوار کو شاہی سواری گزرتی ہے۔ یہ خبر میڈیا میں فلیش ہوئی لیکن مجال ہے کہ عابد شیر علی نے اس وقت اس کا کوئی نوٹس لیا ہو۔ اس روز دو ٹرانسفارمر پھٹے تھے اور دونوں ایک کمپنی کے تیار کردہ تھے جس کے خلاف پہلے ہی عدالت میں غیرمعیاری مال کی تیاری کے مقدمے چل رہے تھے۔ ان ٹرانسفامرز میں غیر معیاری میٹریل استعمال کر کے اس کی لاگت کم کی گئی ۔ پاکستان میں جتنی گرمی پڑتی ہے اس کے لئے ان ٹرانسفارمرز کو تیار ہی نہ کیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جیسے ہی درجہ حرارت پینتالیس ڈگری کے قریب جاتا ہے‘ ٹرانسفارمر کے پھٹنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ گرڈ سٹیشنز میں جو نیا میٹریل اور آلات نصب ہو رہے ہیں وہ انتہائی غیر معیاری اور گھٹیا ہیں اسی لئے آئے روز گرڈ سٹیشن تھوڑا سا لوڈ بڑھ جانے پر بھی ٹرپ کر جاتے ہیں جس پر عوام کو لوڈشیڈنگ کا اضافی عذاب بھگتنا پڑتا ہے۔لیکن اس کی کس کو پروا ہے۔ ایک ٹی وی پروگرام میں نون لیگ کے رہنما جاوید لطیف کے سامنے یہ دردناک پیکیج بھی چلایا گیا تھا۔میں بھی اس پروگرام میں موجود تھا اور جاوید لطیف نے خود مجھ سے اس بارے میں تفصیل پوچھی تھی اور اس پر متعلقہ افراد کو آگاہ کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا لیکن کیا ہوا؟ طارق عبداللہ کئی ماہ میو ہسپتال کے برن وارڈ میں زیر علاج رہے۔ کسی حکومتی شخصیت نے ایکشن لینا تو درکنار ان کی خیریت پوچھنا تک گوارا نہ کیا۔ کسی جدید ملک میں یہ حادثہ پیش آیا ہوتا تو متعلقہ کمپنی کا مالک جیل میں ہوتا اور متاثرہ شخص کو لاکھوں ڈالر ہرجانہ بھی ادا کیا جاتا۔ یہ پاکستان میں ہی ہوتا ہے کہ نہ یہاں گدھے کی کوئی اہمیت ہے نہ انسان کی۔ انسانوں کے حقوق تو ہیں نہیں، کوئی جانوروں کے حقوق کی آواز اٹھانے کی کوشش کرے تو ہمارے حکمرانوں کی غیرت جاگ اٹھتی ہے ۔ وہ جب دیکھتے ہیں کہ ہم نے تو انسانوں کو بھی بنیادی حقوق سے محروم رکھا ہوا ہے‘ وہ بجلی‘ پانی اور رہائش کے بغیر بھی گزارا کر رہے ہیں اور انہیں بھی پولیس جب چاہے جہاں چاہے بھون کر رکھ دیتی ہے اور پھر بھی کوئی پولیس یا کسی طاقتور کے خلاف پرچہ درج نہیں کرا سکتا تو کس کی یہ جرأت کہ وہ ایک معمولی گدھے کی ہلاکت کو اتنی اہمیت دے کہ اس کے غریب مالک کو تھانے میں عزت بھی ملے اور اس کے کہنے پر ایک ایسے ادارے کے اہلکاروں پر پرچہ درج ہوجائے جس کے وزیر خواجہ آصف اور وزیر مملکت عابد شیر علی ہوں۔ 
بالکل ٹھیک عابد شیر علی صاحب! ان کی ہمت کیسے ہوئی۔ جانوروں کو انسانوں جیسی توقیر دینے والوں کو واقعی سبق سکھانا چاہیے ‘ انہیں عبرت کا نشان بنا دینا چاہیے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved