سوموار کے روز سینیٹ میں فرحت اللہ بابر کی رینجرز کے خلاف کی گئی دھواں دھار تقریر سن کر سوچتا رہا‘ کسی دور کی بڑی جماعت پیپلز پارٹی کا کیا افسوسناک انجام ہوا ہے۔
کسی نے کیا خوبصورت بات لکھی تھی کہ جو کام جنرل ضیاء، اپنے دس برس کے اقتدار میں بھٹو کو پھانسی اور سینکڑوں ورکرز کو جیل میں ڈال کر نہ کر سکا وہ زرداری نے آٹھ برس میں کر دیا ہے۔ دیوالیہ پن ملاحظ فرمائیں کہ صوبے کا سابق گورنر لطیف کھوسہ ایک عام عدالت میں ماڈل ایان علی کے مقدمے میں پیش ہوکر بونگے قسم کے دلائل دے کر اسے رہا کرانے کے لیے کوشاں ہے۔ کیا ایان علی کی محبت کھوسہ صاحب کو عدالت تک کھینچ لائی ہے کیونکہ سب جانتے ہیں کہ موصوف حسن پرست واقع ہوئے ہیں ، یا فیس کے نام پر ایک بریف کیس ملا ہے یا پھر اوپر سے حکم تھا کہ خود جائو اور بچی کو رہا کرائو اور جج سے پوچھو اب بچی کی جان لوگے کیا؟
بابر اعوان کے کالم میں پڑھا کہ جناب کفر ٹوٹ گیا۔ آصف زرداری کو ان کی یاد آگئی۔ وہی بابر اعوان جن سے ایک ایک عہدہ واپس لیا گیا تھا اور پیپلز پارٹی میں اچھوت بنادیا گیا تھا کہ کوئی ان سے بات نہ کرے ورنہ زرداری صاحب ناراض ہوں گے‘ آج وہی بابر اعوان کو فون کر کے کہتے ہیں کہ یار فون کیوں نہیں اٹھاتا۔ اگر بابر اعوان کی ضرورت پڑگئی ہے تو سمجھ لیں کہ جناب زرداری کسی بڑی مصیبت میں ہیں۔ اب وکیلوں کی ضرورت پڑنے والی ہے۔ خیرات بٹنے کا وقت آگیا ہے۔ اب ایوان صدر کے پیروں فقیروں، جوتشیوں اور زائچہ شناسوں سے زیادہ عدالت میں وکیلوں کی ضرورت پڑنے والی ہے۔ا ب بے چارہ شریف انسان فاروق نائیک کتنے مقدمات لڑے گا ۔ لطیف کھوسہ کی اوقات تو ایان علی سے زیادہ نہیں ہے۔ لہٰذا بابر اعوان ہی بچ گیا تھا جسے فون کرنا ہی پڑگیا۔ مفت میں اور مقدمہ کون لڑے گا۔ اعتزاز احسن میں پہلے والی بات نہیں رہی۔ بلند بانگ نعرے مارنے والا اعتزاز احسن آج زرداری صاحب کے اشارے کا منتظر رہتا ہے۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کے ڈرائیور کے طور پر لاکھوں کے مجمع کو خطاب کر کے نئے معاشرے کی نوید سنانے والا آج سینیٹ میں زرداری صاحب کی قیادت میں نئے انقلاب کے گن گاتا ہے۔ ویسے کیا قسمت پائی ہے اعتزاز احسن نے بھی۔ افتخار چوہدری کے گیت گانے سے فرصت ملی تو زرداری صاحب کی خوبیاں قوم کو بتانے پر مامور ہیں۔ لہو گرم رکھنے کو کوئی نہ کوئی بہانہ تو چاہیے۔
بابر اعوان سب جانتے ہیں کیا مصیبت آنے والی ہے۔ ورنہ برسوں بعد زرداری صاحب انہیں یاد نہ فرماتے۔ خوشنود علی خان نے ایک دفعہ بتایا تھا کہ زرداری صاحب نے انہیں کہا تھا ان کا ایک ایک منٹ کتنا قیمتی ہے‘ اس کا اندازہ وہ نہیں لگا سکتے۔ اگر زرداری صاحب نے چند منٹ نکال کر بابر اعوان کو کال کی ہے تو پھر سمجھ جائیں کہ کوئی بہت بڑا مقدمہ، یا کام ان کی جھولی میں گرنے والا ہے۔ بابر اعوان اپنی فیس سوچ کر رکھیں‘ اگرچہ مجھے پتہ ہے انہیں یہ نیا مقدمہ بھی ماضی کی طرح مفت ہی لڑنا پڑے گا۔
ویسے آج پیپلز پارٹی کا جو حشر ہوچکا ہے اس کے بعد اس کے دشمن بھی عبرت پکڑتے ہوں گے۔ پہلے پنجاب سے فارغ ہوئے، پھر خیبر پختون خوا سے خاتمہ ہوا‘ اب گلگت کے الیکشن میں کچھ نہ بچا۔ بلوچستان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ سندھ رہ گیا تھا وہ بھی ہاتھ سے نکل گیا ہے کیونکہ اسے رینجرز نے سنبھال لیا ہے۔ بس سینیٹ ہے‘ جہاں اپنا چیئرمین اور چند وفادار ابھی تک زرداری صاحب سے زیادہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ اب انہیں اس کشتی میں ہی تیرنا یا ڈوبنا ہے جس کے ملاح زرداری صاحب ہیں۔ پیپلز پارٹی کے لیڈروں کی طرح پیپلز پارٹی کے ورکرز بھی شاید کسی معجزے کے انتظار میں ہیں ۔ انہیں یہ احساس دلا دیا گیا ہے کہ زرداری صاحب کوئی بھی کرشمہ دکھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘ زرداری صاحب جان بوجھ کر خاموش ہیں ورنہ جب چاہیں وہ دوبارہ اقتدار میں آسکتے ہیں‘ یہ تو ان
کی مہربانی ہے کہ نظام چل رہا ہے ورنہ کب کا بوریا بستر لپیٹا جا چکا ہوتا۔ یہ سب وہ فریب ہیں جو زرداری صاحب اور ان کے ہمنوا خود کو دے رہے ہیں‘ ورنہ سب جانتے ہیں کہ کھیل ختم ہے۔
فرحت اللہ بابر کی تقریر سنیں تو لگتا ہے‘ سب ابھی 2007ء میں زندہ ہیں‘ جب موصوف اخبارات کے سکینڈلز کاٹ کر شام کو پیپلز پارٹی کے کسی لیڈر کے ہمراہ زیروپوائنٹ پر اپنے دفتر میں ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیا کرتے تھے۔ جنرل مشرف دور کے کسی وزیر کی کرپشن کو اخباری سکینڈل کی مدد سے بے نقاب کر کے اگلے روز نیب میں ریفرنس فائل کرتے اور لوگوں کو یقین دلاتے کہ زرداری اور بینظیر بھٹو تو بے چارے یونہی بدنام ہوگئے تھے، اصل لوٹ مار تو مشرف دور میں ہورہی ہے۔ مقصد جنرل مشرف پر این آر او کے لیے دبائو ڈالنا تھا۔ جنرل مشرف کو بھی اقتدار کی ایسی لت پڑچکی تھی کہ ہر قیمت پر اقتدار میں رہنا چاہتے تھے اور یوں دس ہزار مقدمات ختم کر دیے گئے۔ کراچی میں 35 قاتلوں کو پیرول پر رہا کیا گیا۔ آج کل وہی جنرل مشرف ٹی وی اینکرز کے سامنے نیکی کے وعظ فرماتے ہیں ۔
بابر صاحب نے مشرف دور کی کرپشن کے ستر ریفرنس نیب کو بھیجے۔ جس دن زرداری صاحب نے حلف اٹھایا، اسی شام بابر صاحب نے بھی وہ تمام ریفرنس پیپلز پارٹی کی ویب سائٹ سے ہٹا دیے اور خود ایوان صدر میں پانچ سال کے لیے گم ہوگئے۔ پھر کبھی ان کے منہ سے کرپشن کا نام نہ سنا۔ الٹا انہوں نے ایوانِ صدر میں زرداری صاحب کے ترجمان کے فرائض سنبھال لیے۔ اگر کوئی خبر کرپشن کے خلاف چھپتی تو اپنی انگریزی دانی کے جوہر دکھاتے اور ایسے دفاع کرتے کہ جس وزیر پر الزام ہوتا وہ بھی حیران ہوتا کہ کیا واقعی وہ اتنا اچھا انسان ہے جس کا خود اسے بھی علم نہیں۔
اب اچانک فرحت اللہ بابر دوبارہ جوان ہوگئے ہیں ۔ 2007ء کے دن لوٹ آئے ہیں۔ وہی لہجہ، وہ گھن گرج، وہی انگریزی دانی کا کمال ، وہی فقروں پر قابو‘ مگر اب کی دفعہ ہدف کراچی میں رینجرز ہے۔ رینجرز کی پریس ریلیز کے بعد اعتزاز احسن بھی اٹھ کھڑے ہوئے، شیری رحمن جنہیں پچھلے ہفتے اس کام کے لیے سینیٹ میں بھیجا گیا ہے وہ بھی پھٹ پڑیں اور رہی سہی کسر اب فرحت اللہ بابر نے پوری کر دی ہے۔ سب غصے میں ہیں کہ رینجرز نے دو سو تیس ارب روپے کے بھتے کی بات کیوں کی ہے۔ ثبوت دیے جائیں۔ جب ثبوت ملیں گے تو کوئی نیا بہانہ تراش لیں گے۔ دس ہزار انسان کراچی میں ان آٹھ برسوں میں مارے گئے‘ پھر بھی کسی ثبوت کی ضرورت ہے؟
کچھ برس قبل سینیٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی جس کی صدارت افراسیاب خٹک فرما رہے تھے اور جس میں رضا ربانی، فرحت اللہ بابر، اور مشاہد حسین شامل تھے‘ میں موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان نے بریفنگ میں انکشاف کیا تھا کہ بعض جماعتوں میں دہشت گرد بیٹھے ہیں جو کراچی شہر کو جہنم بنا چکے ہیں اور ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ ہمیں کوئی آزادی سے کام نہیں کرنے دے رہا۔ ہمیں آزادی دیں ہم کراچی کو صاف کر دیں گے۔
آج بابر صاحب کہتے ہیں کہ کراچی میں رینجرز کو کھلا ہاتھ ملا ہوا ہے وہ کارروائی کیوں نہیں کرتے؟ دو سو تیس ارب روپے والوں کو گرفتار کیوں نہیں کرتے؟ اس طرح انہوں نے فوج پر بھی الزامات لگائے ہیں کہ اگر پیپلز پارٹی پر قبضہ، بھتہ خوری اور دیگر الزامات ہیں تو فوج پر بھی تو ہائوسنگ سوسائٹیوں کے لیے قبضے‘ کمرشل زمینوں پر قبضے اور گولف کلب کے لیے قبضے کے الزامات لگتے ہیں۔ مطلب بڑا صاف ہے کہ جناب ہمارے ساتھ فوج دوبارہ بیٹھ کر بات کرے جیسے جنرل مشرف نے کی تھی‘ جیسے جنرل کیانی نے چھ برس ہم سے ڈٖیل کیے رکھی۔ جنرل کیانی نے این آر او میں ضامن کا کردار ادا کیا تو ہم نے جواباً جنرل کیانی کا خیال رکھا۔ انہیں تین کی بجائے چھ برس آرمی چیف رکھا۔ کیانی صاحب نے ہمیں کچھ نہیں کہا اور ہم نے انہیں کچھ نہیں کہا۔
اب جنرل راحیل شریف نے رنگ میں بھنگ ڈال دی ہے‘ اس لیے اب فوج کے اندر کرپشن اور زمینوں کے قبضے یاد آرہے ہیں‘ ورنہ جب تک پیپلز پارٹی خود اقتدار میں رہی کبھی بھول کر بھی نام نہیں لیا کہ فوج بھی کچھ کرتی رہی ہے‘ بلکہ الٹا بابر صاحب زرداری صاحب کے ایوانِ صدر میں بیٹھ کر فوج کے شاندار کارناموں کی تفصیلات پریس کو جاری کیا کرتے تھے۔ کیا فرحت اللہ بابر کوئی ایسا پریس ریلیز دکھا سکتے ہیں جو انہوں نے ایوانِ صدر سے جاری کیا ہو جس میں بتایا گیا کیسے فوج زمینوں پر قبضے کر کے ہائوسنگ سوسائٹیاں بناتی ہے اور ملک کے ہر علاقے میں اچھے سے اچھا کمرشل ایریا اپنے قبضے میں لے لیتی ہے؟
کیا جرأت کر کے پوچھا جا سکتا ہے کہ ہماری فوج نے بقول فرحت اللہ بابر کے ہائوسنگ سوسائٹیوں، کمرشل پلاٹوں اور گولف کلب کے لیے سرکاری اور غیرسرکاری زمینوں پر جو قبضے شروع کیے تھے وہ کل پرسوں سے شروع کیے ہیں جب سے رینجرز نے کراچی میں دو سو تیس ارب روپے کی بھتہ خوری کے بارے میں پریس ریلیز جاری کی ہے یا فوج کے یہ قبضے اس وقت بھی جاری تھے جب وہ ایوانِ صدر میں بیٹھ کر زرداری صاحب کے ترجمان کے طور پر فرائض سرانجام دیتے تھے؟
ویسے اس ذہانت اور قابلیت کا کیا فائدہ جو اس ملک اور قوم کی بجائے چند کرپٹ لوگوں اور لیڈروں کی لوٹ مار کا دفاع کرنے کے کام آئے۔ فرحت اللہ بابر، اعتزاز احسن اور شیری رحمن کی کراچی میں ان کی پارٹی کے دور حکومت میں جاری کرپشن کے جواز ڈھونڈنے کے لیے کی گئی تقریریں سن کر بلھے شاہ یاد آیاع
علموں بس کریں او یار!