تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     17-06-2015

قانون کی بالا دستی

قانون کی عملداری کے بغیر معاشرے میں قیامِ امن کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ ہمارے معاشرے میں بدامنی اور جرائم کی شرح میں اضافے کا بڑا سبب قانون کی بالادستی کا نہ ہونا ہے۔ جن معاشروں میں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے اور جہاں نہ تو قانون کو دبایا جا سکتا ہے اور نہ ہی خریدا جا سکتا ہے وہاں پر امن وامان کی صورتحال مثالی نظر آتی ہے۔
انگلستان اور سعودی عرب کی دو مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ جہاں پر کسی بھی شخص کو اپنی جان، مال اور عزت کے تحفظ کی فکر نہیں ہوتی۔ ان ممالک میں بسنے والے افراداس حقیقت سے کلی طور پر باخبر ہیں کہ قانون کی خلاف ورزی کرنے کی صورت میں انہیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چنانچہ ہر شخص قانون کی خلاف ورزی کرنے سے کتراتا اورگھبراتا ہے ۔
اسلام میںبھی عدل وانصاف کی اہمیت کو بہت زیادہ اجا گر کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں نہ تو غریب امیر کی تفریق روا رکھی گئی ہے اور نہ قرابت داری اور اجنبی شخص کے درمیان امتیازکو جائز قرار دیا گیا ہے ۔ سورہ نساء کی آیت نمبر135 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں'' اے لوگو! جو ایمان لائے ہو انصاف کو قائم کرنے اور اللہ تعالیٰ کے لیے گواہی دینے والے بنواگرچہ تمہاری اپنی جانوں کے خلاف ہو یا والدین اور رشتہ داروں کے۔اگر وہ امیر ہوں یا فقیرتو اللہ تعالیٰ ان دونوں سے زیادہ تعلق والا ہے۔پھرخواہشِ نفس کی پیروی کرتے ہوئے اگر عدل سے کام نہ لیا اگر تم نے بات کو بدلا یا اعراض کیا تو یقینا جو تم کرتے ہو اللہ اس سے اچھی طرح باخبر ہے۔‘‘
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سورہ مائدہ کی آیت نمبر8 میں ارشاد فرمایا ''اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کے لیے حق پر قائم رہنے والے،انصاف سے گواہی دینے والے بنو اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر نہ اُبھارے کہ تم انصاف نہ کرو۔عدل کرو یہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے اور ڈر جاؤ یقینااللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو ۔‘‘
نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ میں بنو مخزوم کی ایک بااثر عورت نے چوری کی ۔ رسول کریمﷺ کے محبوب صحابی حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ ﷺکی خدمت میںسفارش کے لیے روانہ کیا گیا۔ نبی کریم ﷺ نے اس موقع پر ارشاد فرمایا کہ میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں گا۔
نبی کریمﷺ نے اس موقع پر سابق اقوام کی تباہی کے ایک اہم سبب کو بھی بیان کیا تھا کہ جب ان میں کوئی بااثر فرد جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا‘ اگر کوئی کم حیثیت والا فرد جرم کرتا تو اس کو سزا دی جاتی ۔
مملکت خداداد پاکستان کو کلمہ طیبہ کے نام پر حاصل کیا گیا ۔ تحریک پاکستان کے قائدین نے اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کا وعدہ کیا تھا ۔ لیکن افسوس صد افسوس چھ سے زائد دہائیاں گزر جانے کے باوجود بھی قانون کی عملداری قائم نہیں ہو سکی۔
گزشتہ چندبرسوں کے دوران بہت سے ایسے واقعات رونما ہو ئے جن سے جرائم پیشہ افراد کی حوصلہ افزائی ہوئی ۔ امریکہ کے جاسوس ریمنڈ ڈیوس نے سرعام ملکی قانون کو پامال کیا اور معصوم اور نہتے پاکستانیوں کے خون سے قرطبہ چوک کی زمین کو رنگین کر دیا۔ ریمنڈ ڈیوس اس سرعام جرم کے ارتکاب کے باوجود قانون کے شکنجے میں نہ آسکا۔ اسی طرح شاہ زیب قتل کیس میں بااثر جاگیر دار کے بیٹے کا احتساب نہ ہوسکا۔ اس طرح کے واقعا ت سے پاکستان کے جرم و سزا کے نظام کی کمزوری کا تاثر تقویت پاتا ہے۔
پاکستان میں ایک عرصے سے گھریلو ملازمین پر تشدد کا سلسلہ جاری وساری ہے ۔ تشدد کے یہ واقعات باقاعدگی سے رپورٹ ہوتے ہیں لیکن ذرائع ابلاغ میں چھپنے والی خبروں کے باوجود ظالم کا احتساب نہیں ہو پاتا۔ اسی طرح زنابالجبرکے اندوہناک واقعات اور چھوٹی عمر کی بچیوں سے زیادتی کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے ۔ اغوا برائے تاوان کے واقعات کی تعداد بھی کم نہیں۔ جرائم پیشہ افراد کی اکثریت سفارش ، دباؤیا رشوت کی وجہ سے قانون کی گرفت سے بچ نکلتی ہے ۔
سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے بعض علاقو ں میں مقامی جاگیر دار کا حکم ملکی قانون پر سبقت رکھتا ہے ۔ عورتوں کے ساتھ زیادتی، غریب کسانوں پرغیر انسانی تشدد، چھوٹی عمر کی بچیوں کی ونی اور قرآن کے ساتھ شادی کے واقعات کی اطلاعات بھی گاہے بگاہے ملتی رہتی ہیں۔ لیکن اس قسم کے واقعات کے تدارک کے لیے قانون کا کردار نمایاں طور پر نظر نہیں آتا ۔ بالعموم مقامی جاگیر دار سیاسی طور پر اتنا بااثر ہوتا ہے کہ عام انسان اس کے مقابلے کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ بعض لوگ حریت اور آزادی کے جذبات سے سرشار ہوکر ظالم جاگیر دار کو چیلنج کرنے کی جستجو کرتے ہیں جس کا خمیازہ ان لوگوں کے پورے خاندان کو بھگتنا پڑتا ہے ۔
جرائم پیشہ افراد کبھی کسی عہدہدار اور کبھی کسی سیاستدان کی سفارش کے نتیجے میں قانون کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں ۔
انفراد ی سطح پر جرائم کا ارتکاب کرنے کے ساتھ ساتھ بعض لوگ اداروں ، جماعتوں اور گروہوں کی صورت میں جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی نظروں میں انسانی جانوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ اپنے مخالف کو صفحہ ہستی سے مٹانا ان کے لیے معمولی بات ہوتی ہے۔ ریاست کے مثبت اور پختہ عزائم بھی کئی مرتبہ ان اداروں اور گروہوں کے مقابلے میں کمزور پڑ جاتے ہیں ۔ ان گروہوں کے تانے بانے کئی مرتبہ بیرون ملک کے بااثر افراد اور گروہوں سے مل جاتے ہیں۔ یہ بیرونی عناصر اپنے آلہ ٔکاروں کی معاونت سے کبھی دستبردار نہیں ہوتے اور وقت پڑنے پر ان آلہ کاروں کی سرعام حمایت سے بھی اجتناب نہیں کرتے ۔
پاکستان میں ایک عرصے سے بہت سی ایسی غیر سرکاری تنظیمیں موجود ہیں جن کو وافر مقدار میں مالی وسائل بیرونی ممالک سے حاصل ہوتے ہیں۔یہ تنظیمیں کئی مرتبہ ملک اور مذہب کی مخالفت کی مرتکب ہوتی ہیں ۔ان تنظیموں کے خلاف حکومت کبھی ایکشن لینے کا ارادہ کر بھی لے تو ان کے غیرملکی آقا ان کی حمایت کے لیے ملکی قوانین اور معاملات میں مداخلت کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔
اس حوالے سے چند دن قبل دنیا نیوز پر بھی ایک پروگرام پیش کیا گیا تھا جس میں بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کے طرز عمل کا ذکر کیا گیا کہ انہوں نے بھارت کے مفادات کے خلاف سرگرم غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ سختی سے نمٹنے کافیصلہ کیا ۔ میں نے بھی اس پروگرام میں شرکت کی تھی اور مشورہ دیا تھا کہ اگر کوئی بھی غیر سرکاری تنظیم یا ادارہ اپنے کل فنڈز کا ساٹھ فی صد حصہ اپنے ملک سے حاصل نہیں کر پاتاتواس کی وفاداری قوم اور ملک کے فنڈ سے چلنے والی تنظیموں اور اداروںجیسی نہیں ہو سکتی۔ اس لیے بیرونی امداد سے چلنے والی ملک دشمن تنظیموں اور اداروں کی کارروائیوں پر کڑی نظر رکھنا ریاست کی ذمہ داری ہے اور اس سلسلے میں کسی بھی غیر ملک کو ہمارے معاملے میں مداخلت کا حق حاصل نہیں۔
جب تک ہماری ریاست میں قانون کی عمل داری کو بغیر کسی دباؤ اور لالچ کے یقینی نہیں بنایا جا تا اس وقت تک ملک میں جرائم کا خاتمہ نہیں ہو سکتا ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے کی توفیق دے تاکہ وہ بیرونی مفادات سے زیادہ قوم اور ملت کے مفادات کی نگرانی کا فریضہ سر انجام دیں ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved