گلگت بلتستان کے حالیہ انتخابات میں پیپلز پارٹی تو ہار گئی لیکن بینظیر بھٹو جیت گئیں۔ میرے استاد گوگا دانشور نے جب یہ الفاظ کہے تو کچھ سمجھ میںنہ آیا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پی پی کو عبرت ناک شکست ہو جائے اور محترمہ بے نظیر بھٹو جیت جائیں‘ لیکن بھلا ہو ماروی میمن صاحبہ کا کہ انہوں نے فرطِ مسرت سے بے قابو ہو کر سب کچھ اگل دیا اور سب پر یہ راز کھل گیا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کیسے جیتیں اور پیپلز پارٹی کیسے ہاری؟۔ نواز لیگ نے بہترین نتائج کیلئے بے نظیر انکم سپورٹ فنڈ کا پیسہ خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات اور ملتان ، منڈی بہائوالدین‘ گلگت بلتستان سمیت ہزارہ ڈویژن اور سوات میں کھل کر استعمال کیا۔ شاید یہی خوش کن نتائج دیکھتے ہوئے ہی پاکستان کے نئے مالی بجٹ میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بے نظیر انکم سپورٹ کا بجٹ92 ارب روپے سے بڑھا کر102 ارب روپے کر دیا ہے۔ محترمہ ماروی میمن جو بے انکم سپورٹ پروگرام کی چیئر پرسن ہیں‘ بے خوفی اور کھلے دل سے گلگت بلتستان کے انتہائی'' مستحق‘‘ خاندانوں کی کفالت کرتی رہیں ۔ سکردو کا ایک معذور نوجوان اپنی ہاتھ والی سائیکل پر بیٹھ کر پولنگ اسٹیشن پہنچا تھا۔ اس سے جب ایک نجی ٹی وی کے نمائندے نے پوچھا کہ وہ اپنا ووٹ کس کو دے گا‘ تو کیمرے کی آنکھ نے دیکھا کہ اس کی آنکھیں نم تھیں اور انتہائی گلوگیر آواز میں اس نے جواب دیا کہ وہ ووٹ نون لیگ کو دے رہا ہے لیکن اس کا دل کپتان کیلئے تڑپتا ہے۔ اس نے اپنی معذور ٹانگوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میری یہ مجبوری میرے آڑے آ رہی ہے۔
تحریک انصاف کے ساتھ بد قسمتی یہ ہے کہ اس میں لیڈران تو بہت سے ہیں لیکن کام کرنے والے نہیں۔ عمران خان کے آگے پیچھے گھومنے والے ہی زیا دہ دکھائی دیتے ہیں ملتان میں یہ کام شاہ محمود قریشی کا تھا کہ وہ قومی اسمبلی میں یہ سوال اٹھاتے کہ ملتان کے ضمنی الیکشن میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے فی خاندان تیس ہزار سے لے کر تین لاکھ روپے تک ملتان کے کس حلقے اور کتنے لوگوں میں تقسیم ہورہے ہیں ؟۔ شاہ محمود قریشی یا اس وقت کے پنجاب کے پارٹی کرتا دھرتا اور ملتان کی پارٹی قیا دت کا فرض تھا کہ وہ یہ سوال میڈیا میں اٹھاتے اور چیف الیکشن کمیشن سے درخواست کرتے کہ اگر یہ بات درست ہے تو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے دفتر سے پتہ کرایا جائے کہ اس دوران اس صوبائی حلقے میں انہوں نے کتنے کروڑ روپے کی رقم'' مستحق خاندانوں‘‘ میں تقسیم کی؟ یہی سوال منڈی بہائوالدین کی قومی اسمبلی کے حلقہ108 کے انتخابات کے دوران مبینہ طور پر استعمال ہونے والے اس ادارے کے خرچ کئے جانے والے پیسے کے بارے میں بھی پوچھا جانا چاہئے تھا۔ کیا منڈی بہائوالدین اور ملتان میں کسی بھی پی ٹی آئی عہدیدار کو نظر نہیں آرہا تھا کہ ہزاروں کی تعداد میں وہ مفت فارم گھروں میں پہنچائے گئے جن کے ذریعے حاصل ہونے والے کارڈ سے ہر ماہ دو ہزار روپے فی خاندان ہمیشہ کیلئے تقسیم ہوتے رہیں گے؟۔ملتان اور منڈی بہائوالدین میں باقی سب کو یہ نظر آ رہا تھا اور اگر بے خبر رہے تو شاہ محمود قریشی صاحب اور ان کی تحریک انصاف۔
لگتا ہے کہ گلگت میں تو یہ سارا الیکشن جیتا ہی بے نظیر بھٹو سکیم کے اس پیسے سے گیا ہے۔ کیا کسی بھی سیا سی جماعت کو خبر نہیں مل رہی تھی کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ہنگامی دفاتر قائم کئے جا رہے ہیں؟۔ ملک کی سب سیا سی جماعتیں اور آزاد امیدوار‘ جو ان انتخابات میں حصہ لے رہے تھے‘ اس قدر بے خبر رہے کہ ان میں سے کسی کو بھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی سربراہ ماروی میمن کی پورے گلگت بلتستان کے کونے کونے میں بھاگ دوڑ دکھائی نہیں دی؟۔ ہنزہ نگر میں تو انہوں نے اپنا کیمپ دو دن سے زیا دہ لگائے رکھا؟ عوامی ورکرز پارٹی کا یہ پیغام البتہ سوشل میڈیا پر گردش کر تا ہوا سب کو دکھائی دے رہا ہے کہ
''Can't we challenge Marvi Memon's action and unfair means in the election commission as well as in high courts.?"
کیا تحریک انصاف کے کسی بھی رکن قومی اسمبلی کو اتنی سی بھی فرصت نہیں ملتی کہ وہ قومی اسمبلی میں پوائنٹ آف آرڈر پر کھڑے ہو کر وزیر اعظم اور وزارت خزانہ سے سوال کر سکے کہ جناب والا! پنجاب کے ضمنی انتخابات، خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات اور گلگت بلتستان میں ہونے والے الیکشن میں وسیلۂ حق یا وسیلۂ روزگار کے سلسلے میں کل کتنے ارب روپے کیوں اور کس مقصد کیلئے تقسیم کرنے جا رہے ہیں؟۔ بے نظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ان انتخابات کے دوران آپ نے ہر ماہ دو ہزار روپے فی خاندان فراہم کرنے والے کتنے فارم مفت میں کتنے ہزار لوگوں کو تقسیم کئے؟ اس مبینہ ہیرا پھیری کا پتہ چلانا ہرگز مشکل کام نہیں ہے کیونکہ یہ سب ریکارڈ اس ادارے کے کمپیوٹر میں موجود ہو نا چاہئے جس کے بارے میں جاننے کا ہر شہری کو حق ہے کہ قوم کی دولت کا یہ ایک کھرب سے بھی زیا د ہ روپیہ کن اللے تللوں میں ضائع کیا جا رہا ہے؟یہ تو بہت ہی آسان ہے‘ کیا آپ اتنا بھی تردد نہیں کر سکتے کہ پوچھ سکیں کہ اس ایک ماہ میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت کتنے ارب روپے خرچ ہوئے ہیں۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ کسی کو بھی حکمرانوں کی ان انتخابات میں دکھائی گئی ان کی بے مثال '' کار کردگی‘‘ کی خبر نہیں ہے تو یہ ان کی بھول ہے کیونکہ کل کو جب وہ اپنے محفوظ کئے گئے ریکارڈ کے ساتھ منظر عام پر آئیں گے تو کچھ بھی چھپاہوا نہیں رہے گا۔
جس روز منڈی بہائوالدین میں ضمنی انتخاب ہو رہا تھا‘ ملک کے چند غیر جانبدار نجی چینل پورے حلقے کی گلیوں اور سڑکوں کے کناروں پر ایک ہفتہ قبل پھینکا جانے والا ٹنوں کے حساب سے وہ پتھر دکھا رہے تھے جو انتخابی دھاندلی اور الیکشن کمیشن کے قائم کردہ اصولوں کی کھلی خلاف ورزی تھی لیکن جب پی پی پی اور تحریک انصاف کی نظریں اس طرف نہیں جا رہیں تو پھر الیکشن کمیشن کو کیا ضرورت ہے کہ وہ آگے بڑھ کر اس کے خلاف خود سے کوئی ایکشن لے ؟
عمران خان اپنی کشتی میں بوجھ کو لادے پھریں گے تو اس سے سوائے ڈوبنے کے اور کچھ برآمد نہ ہوگا۔ کیا عمران خان کو نظر نہیں آ رہا کہ ملک کی دس سیاسی جماعتیں ان کے مقابلے میں متحد ہو چکی ہیں اور اگلے عام انتخابات میںہر صوبے میں ان کے مقابلے میں علیحدہ علیحدہ اتحاد وجود میں آ چکا ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا کا ووٹر تو اس کیلئے تیار ہو چکا ہے‘ کیونکہ پنجابی اور پٹھان کی ریت ہے کہ اگر دس آدمی مل کر کسی ایک کو مارنا شروع ہو جائیں اور مار کھانے والا بھاگنے کی بجائے ڈٹ کر ان سب کا سا منا کرے تو وہ اکیلے مظلوم کے ساتھ مل کر ان دس کے خلاف لڑائی کیلئے کھڑے ہو جاتے ہیں‘ لیکن یہی کا فی نہیں اس کیلئے تحریک انصاف کو بہت ہی متحرک ہو نا پڑے گا کیونکہ عوام بھی دیکھ رہے ہیں اور پی ٹی آئی بھی یقینا دیکھ رہی ہو گی۔