سابق صدر آصف زرداری نے گزشتہ رو ز نرم سے نرم الفاظ میں فوج کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے۔ جب ان کے صاحبزادے بلاول زرداری کو قیادت سونپنے کی بات چلی تو آصف صاحب نے فرمایا تھاکہ ''بلاول ابھی ناپختہ ہے‘اسے کچھ وقت اور انتظار کرنا چاہیے۔‘‘ کل تو سب کچھ الٹ نکلا۔ پختگی کی ضرورت بلاول کو نہیں‘ خود زرداری صاحب کو ہے۔ ورنہ جو کچھ انہوں نے کل کہہ دیا ہے‘ یہ پاک فوج کے خلاف کھلا اعلان جنگ تھا اور ایسا چیلنج کرنے کے لئے ان سے برے حالات نہیں ہو سکتے‘ جتنے کہ اس وقت ہیں۔ خود زرداری صاحب نے فرمایا کہ ''فوج بلوچستان میں ''را‘‘ کا مقابلہ کر رہی ہے۔ فاٹا میں اسے دہشت گردوں کامقابلہ درپیش ہے۔‘‘ انہوں نے براہ راست فوج کو مخاطب ہوئے کہا: ''ہمیں تنگ مت کرو۔ ورنہ ہم اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے جیسی جیسی دھمکیاں دیں‘ ان سے تو لگتا تھا کہ وہ باقاعدہ اعلان جنگ کر رہے ہیں۔ انہوں نے پاک فوج کے جنرلوں سے اپنا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ ''میں پانچ سال جیل میں رہا‘ جبکہ کمانڈو مشرف تین مہینے جیل میں رہنے کو تیار نہیں اور مشرف کو نہیں پتہ کہ ملک کو کتنا خطرہ ہے؟مجھے پتہ ہے کہ ملک کو کتنے بڑے خطرے کا سامنا ہے۔‘‘ انہوں نے جنرلوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ''آپ کو تین سال رہنا اور چلے جانا ہے۔ اس کے بعد ہمیں ہی رہنا ہے۔ آپ کے پالے ہوئے پٹھو توتے کی طرح ٹیں ٹیں کرتے ہیں۔ کالعدم تنظیمیں کسی اور کے اشارے پر آتی ہیں اور انہیں بلایا بھی جاتا ہے۔‘‘ انہوں نے عمران خان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ''جس کو ہم نے بال اور وکٹ دی‘ اسے کھیلنے دو۔ حکومت کو معیشت ٹھیک کرنے دو۔ پیپلزپارٹی جنگ سے نہیں ڈرتی۔جنگ صرف ہمیں کرنا آتی ہے‘ ہماری کردار کشی کا اگر سلسلہ چل نکلے گا۔ میں نہیں چاہتا کہ ایسا ہو۔ ہمیں معلوم ہے عدالتوں میں کتنے کیس چل رہے ہیں اور چلنے والے ہیں؟ ان میں آپ کے پیٹی بھائی مجرم ہیں۔ جس دن میں کھڑا ہو گیا‘ سب کچھ بند ہو جائے گا۔فاٹا سے سندھ تک ہر چیز بند ہو جائے گی۔ ہم چاہتے تو کپتان کے ساتھ استعفیٰ دے دیتے اور اسی سال الیکشن ہو جاتا۔‘‘ انہوں نے کہا: ''ایک طرف بھارت للکار رہا ہے۔ دوسری طرف کالعدم تنظیمیں سر نہیں اٹھانے دے رہیں۔ بلوچستان میں ''را‘‘ سرگرم ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ آپ کو تنگ کروں۔ پیپلزپارٹی جنگ سے نہیں ڈرتی۔ جنگ کرنا ہمیں ہی آتا ہے۔ ہماری کردار کشی کی‘ تو یہ سلسلہ چل نکلے گا۔ سب کا کچا چٹھا کھول دوں گا۔ اس لئے میں نہیں چاہتا کہ میں آپ کو تنگ کروں۔ میں نے فہرست بنائی تو کئی جرنیلوں کے نام آئیں گے۔‘‘ یہ صرف اعلان جنگ نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر بہت کچھ ہے۔ عوام حیران ہیں کہ ایسے خوفناک اعلان جنگ کی ضرورت کیوں پڑی؟ زرداری صاحب نے تو پیپلزپارٹی کی سربراہی اپنے کنٹرول میں لیتے ہی واضح کیا تھا کہ وہ محاذ آرائی پر یقین نہیں رکھتے۔ مفاہمت کی سیاست کے قائل ہیں اور واقعی انہوں نے جس طرح قدم قدم پر لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے سمجھوتے کئے‘ اس پر لوگوں کو واقعی یقین آ گیا کہ وہ مفاہمت پسند ہیں۔ محاذآرائی سے گریز کرتے ہیں۔ بے حد صبر کرنے والے ہیں۔ موقع محل کا اندازہ کرتے ہوئے فیصلے کرتے ہیں۔ مگر اچانک انہیں کیا ہو گیا؟
خود انہوں نے ہی اپنی تقریر میں کہا کہ اگر وہ کپتان کے ساتھ استعفیٰ دے دیتے تو فوراً ہی الیکشن ہو سکتے تھے۔ مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ واقعی اگر وہ اس وقت چاہتے تو استعفیٰ دے کر ایسا بحران پیدا کر سکتے تھے جس سے نوازشریف اور ان کے ساتھی مشکل سے ہی نکل سکتے تھے۔ حکومت کے لئے حالات کافی خراب ہو چکے تھے۔ اس کی گرفت کمزور پڑ گئی تھی اور خود زرداری صاحب نے ہی کہا کہ اگر وہ استعفیٰ دے دیتے تو الیکشن کرانا پڑتے۔ ہو سکتا ہے زرداری صاحب کا یہ خیال رہا ہو کہ اس الیکشن میں ان کی سسرالی پارٹی جیت سکتی تھی۔ لیکن حالات ہرگز ایسے نہیں تھے۔ اس وقت کپتان کا ستارہ عروج پر تھا۔ وہ مقبولیت کی انتہا پر تھے۔ الیکشن میں ان کی لہر چل رہی ہوتی اور وہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہو جاتے۔ یہ سوال البتہ غور طلب ہے کہ جیتنے کے بعد وہ کیا کرتے؟ تجربے سے ثابت ہوا کہ وہ جیت کر بھی کامیابی کو سنبھالنے میں ناکام رہتے اور اپنے ساتھ وہ نہ جانے ملک اور عوام کا کتنا نقصان کر دیتے؟
زرداری صاحب نے اپنی طرف سے دھماکہ کر کے جو بحران فوج اور نوازشریف کے لئے پیدا کرنا چاہا تھا‘ وہ پیدا تو یقینا ہو گیا۔ لیکن اس میں زرداری صاحب خود پھنس گئے۔ اگر نوازشریف چاہتے بھی تو زرداری صاحب کو مشکل سے نہیں نکال سکتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ ہمدردی کرتے‘ تو خود بھی ڈوب جاتے۔ مجھے اس وقت حیرت ہوئی‘ جب یہ پتہ چلا کہ نوازشریف ‘ زرداری صاحب کے ساتھ اپنی ملاقات طے کر چکے ہیں۔ حسب معمول قسمت نے یاوری کی اور وہ اپنی عقل مندی یا اپنے خیرخواہوں کی ہمدردیوں کے سبب بچ نکلے۔ ورنہ ایسے حالات میں اس ملاقات کا ایک ہی مطلب نکالا جا سکتا تھا کہ یہ حملہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا ہے۔ یہ دونوں بڑے سیاستدان اس نازک موقع پر فوج کو بحران میں مبتلا کر کے‘ اپنی بالادستی قائم کر لیں گے۔ اگر دونوں سیاستدان اس طرح سوچ رہے تھے‘ تو فوج کو بھی نقصان پہنچاتے اور خود بھی تباہ و برباد ہو جاتے‘ کیونکہ تصادم میں زیادہ خطرہ خود سیاستدانوں کو تھا۔ فوج کے پاس جو تربیت‘ اسلحہ اور وسائل ہیں‘ وہ جنگ ہی کے لئے مہیا کئے جاتے ہیں اور سیاست دان اگر اس میدان میں کود پڑتے‘ تو ان کا جو انجام ہونا تھا‘ وہ بہت خوفناک ہوتا۔ ہم اپناملک‘ معیشت اور آزادی ہر چیز گنوا بیٹھتے اور پورے خطے میں جو تباہی آتی‘ اس کے تصور سے بھی مجھے خوف آ رہا ہے‘ کیونکہ زرداری صاحب نے جس طرح سر ہتھیلی پہ رکھ کرفوج کو للکار دیا تھا‘ اس میں کچھ بھی ہو سکتا تھا اور یہ ذہن میں رکھئے کہ جو کچھ ہو سکتا تھا‘ اس میں ایٹمی تباہ کاری بھی شامل ہے۔ زرداری صاحب نے تو احتیاط سے کام لیتے ہوئے پارٹی کے امور بلاول کو سونپنے سے انکار کر دیا تھا تاکہ وہ اپنی ناپختگی کی وجہ سے پارٹی کو نقصان نہ پہنچا دیں‘ ورنہ خود زرداری صاحب نے تو اس سے بھی بڑی ناپختگی کا مظاہرہ کر دیا‘ جس کا اندیشہ انہیں بلاول سے تھا۔ مجھے وہ پس منظر معلوم نہیں۔ البتہ لوگوں سے سنا ہے کہ سارا جھگڑا کرپشن پر ہوا۔ سندھ میں زرداری صاحب کی قیادت میں پیپلزپارٹی کی مچائی ہوئی جس اندھیرنگری کے چرچے تھے‘ صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ فوج نے اصل حقائق کو تلاش کر لیا ہے اور اب وہ فیصلہ کن اقدام کرنے والی ہے۔ اس فیصلہ کن اقدام میں کیا ہوتا؟ اس کا آسانی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ کافی بڑی بڑی نشانیاں دکھائی دینا شروع ہو چکی تھیں۔ درجن ڈیڑھ درجن وزیروں کی فہرستیں زیربحث تھیں۔ شہری زمین کا بہت بڑا رقبہ جس کی مالیت اربوں روپے ہے‘ اس کی بندربانٹ ہو چکی تھی۔ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ریکارڈ سے جو فائلیں رینجرز نے نکالیں‘ ان سے پتہ چل رہا تھا کہ کرپشن کے دسترخوان سے کون کون فیض یاب ہوا ہے؟ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ زرداری صاحب جو مردمفاہمت کے لقب سے معروف ہو چکے تھے‘ انہیں صبر کا دامن کیوں چھوڑنا پڑا؟ یہ بات بھی ناقابل فہم ہے کہ کراچی میں رینجرز کی ساری کارروائیاں وزیراعلیٰ کے حکم پر ہوتی ہیں۔ صرف ایک دن پہلے خودزرداری صاحب نے قائم علی شاہ کی تعریف کی تھی کہ کراچی میں امن قائم کرنے کا سہرا وزیراعلیٰ کے سر ہے‘ تو پھر انہوں نے فوج پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ جو کچھ ہو رہا تھا‘ اس کے نگران تو خود وزیراعلیٰ تھے‘ جو زرداری صاحب کے حکم کے بغیر پر نہیں پھٹک سکتے۔ وزیراعظم نوازشریف کے لئے بھی بہت نازک لمحہ آ گیا تھا۔ انہوں نے اس شعلہ بار تقریر کے بعد ان سے ملاقات کا وقت رکھ لیا تھا۔ اگر کہیں یہ ملاقات ہو جاتی‘ تو پھر نگرانی دونوں کی ہونا تھی۔ قسمت ہمیشہ کی طرح نوازشریف پر مہربان رہی۔ ملک بے یقینی کے ماحول میں پھنسنے سے بچ گیا۔ زرداری صاحب الیکشن سے باہر ہو جاتے۔ عین ممکن ہے دائو عمران خان کا لگتا۔