تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     18-06-2015

کارگہ شیشہ گری

طوفانی سمندر میں ملّاح کو اور بھی محتاط ہونا چاہیے۔ عزم وہمت ہی نہیں، اور بھی زیادہ سلیقہ مندی۔
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا
زرداری صاحب کا مقدمہ بہت ہی ناقص ہے۔ پیچھے انہیں ہٹنا ہی پڑے گا۔ اگر ایک آدمی کا موقف نادرست ہو، حکمتِ عملی بھی، اس پر وہ اپنی طاقت کا بالکل غلط اندازہ لگا کر دھمکیاں دینے پر اتر آئے تو نتیجہ کیا ہو گا؟
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی پر رینجرز کے چھاپے کو غلط ہی مان لیجیے، تب بھی اس بات سے کیا انکار کیا جا سکتا ہے کہ یہ ادارہ ہولناک بے قاعدگیوں اور شرمناک بدعنوانیوں کا مرکز بن چکا تھا۔
حکمران طبقے کو ادراک ہی نہیں کہ معاشرہ بدل چکا۔ کوئی چیز اب پوشیدہ نہیں رہ سکتی۔ سیاسی جماعتیں بہت کمزور ہو گئی ہیں اور فوج ہمیشہ سے زیادہ طاقتور ہے۔ اسے یہ طاقت سیاستدانوں کی بداعمالیوں نے عطا کی ہے۔ تدارک یہی ہے کہ سیاسی پارٹیاں خود کو نچلی سطح تک منظم کریں اور حالات کے نئے تقاضوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ آخرکار سول اداروں کے استحکام ہی سے معاشرہ مستحکم ہوتا اور ثمر خیز ہو سکتا ہے۔ افسوس کہ ہمارے لیڈروں نے اپنی غلطیوں پر غور کرنے کی بجائے منفی ہتھکنڈوں پر انحصار بڑھا دیا ہے۔ تضادات کا بوجھ اٹھا کر کتنی دیر کوئی اپنا سفر جاری رکھ سکتا ہے۔
حدیثِ قدسی یہ ہے کہ ایسے میں آدم زاد کو اس کی راہ میں تھکا دیا جاتا ہے۔ الطاف حسین کی طرح زرداری صاحب بھی تھک چکے۔ داخل کی بجائے، ناکامی کے اسباب وہ خارج میں تلاش کر رہے ہیں۔ آج نہیں تو کل، اندازہ انہیں ہو جائے گا کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ پورے ملک کو وہ بلیک میل نہیں کر سکتے۔
ادارہ صرف ایک بچا ہے اور وہ پاکستان کی مسلّح افواج ہیں۔ اوپر کی سطح پر عدالت نے خود کو بہتر بنانے کی کوشش ضرور کی ہے۔ باقیوں کا حال پتلا ہے۔
سبھی جانتے ہیں کہ پنجاب، پختون خوا اور شہری سندھ کے بعد گلگت بلتستان میں پیپلز پارٹی کا صفایا کیسے ہوا۔ تمام اندازے یہ ہیں کہ اگلے برس آزاد کشمیر میں بھی یہی ہونے والا ہے۔ وزیرِ اعظم نواز شریف کا فیصلہ یہ ہے کہ مظفر آباد کی حکومت برقرار رکھی جائے‘ بہت پہلے وگرنہ وہ تحلیل ہو چکی ہوتی۔ محترمہ فریال تالپور کا فرستادہ وزیرِ اعظم آزاد کشمیر سے اگر یہ کہے: چوہدری صاحب میرا کپڑوں کا جوڑا ڈرائی کلینر کے ہاں سے واپس پہنچایا نہیں؟ تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کاروبارِ حکومت میں کہاں کہاں، کیا کچھ برپا ہو گا۔
زرداری صاحب غلطی پہ غلطی کر رہے ہیں۔ قابلِ اعتماد ذرائع کے مطابق، پچھلے دنوں صدر اشرف غنی اور عبد اللہ عبد اللہ سے ملاقات کے لیے کابل تشریف لے گئے تو پاکستان اور پاکستانی فوج کے خلاف انہیں اکساتے رہے۔ مشورہ انہیں یہ دیا کہ اسلام آباد کے ساتھ تعاون کی بجائے، وہ اس پر دبائو ڈالیں۔ کابل کے کوچہ و بازار میں خبریں اسی طرح پھیلتی ہیں، جس طرح کہ کراچی اور لاہور میں۔ کچھ دن میں انہیں اندازہ ہوا کہ یہ بات عسکری قیادت کے علم میں آ چکی۔ جارحانہ احساسِ کمتری کے ساتھ اب وہ اس پہ پل پڑے ہیں۔
کراچی میں ان کا وتیرہ شروع سے یہی ہے۔ بظاہر وہ تعاون کے علمبردار ہیں، درحقیقت شدید عدم تعاون کے مرتکب۔ چیلنج یہ ہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر اور سب سے بڑے صنعتی مرکز کو، جس پر معاشی بقا کا انحصار ہے، کھویا ہوا امن لوٹا دیا جائے۔ سر تا پا سندھ حکومت کرپشن کی دلدل میں پڑی ہے۔ اسلحے اور منشیات کی سمگلنگ کا دھندا جاری ہے۔ جائیدادوں پر قبضے ہیں، اغوا برائے تاوان اور بھتہ وصولی بھی۔ خود حکومتی شخصیات اس کارِ خیر میں ملوّث ہیں۔ رینجرز کی قیادت کب تک صبر کا مظاہرہ کرتی؟ دو ماہ قبل راولپنڈی میں اطلاع یہ تھی کہ زرداری صاحب نے پیپلز امن کمیٹی کی از سرِ نو صف بندی کا فیصلہ کیا ہے۔ نام تک معلوم تھے کہ کن لوگوں کو یہ ذمہ داری انہوں نے سونپی ہے۔ موسمِ سرما میں بار بار میں کراچی گیا۔ معلوم ہوا کہ بعض وزرا اس طرح سرمایہ سمیٹ رہے ہیں، قدیم زمانے میں جس طرح مالِ غنیمت۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی والے منظور کاکا کی کہانیاں ہر کہیں سنی جا سکتی تھیں۔ ایک ممتاز اور مشہور کاروباری شخصیت نے مجھے بتایا: زرداری صاحب نے مجھے یاد کیا اور کہا فلاں کمرشل پلاٹ میں خریدنے کا آرزومند ہوں۔ اس کے مالک سے کہو، پرانی قیمت پر بیچ دے، دس پندرہ فیصد پر۔ ایک آدھ نہیں، درجنوں قصے ہیں۔ ایک سندھی زمیندار نے مدعو کیا اور ایسے واقعات سنائے کہ میں دنگ رہ گیا۔ ذوالفقار مرزا کے قضیے کا پسِ منظر بھی ایسا ہی بتایا گیا۔
اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے کہ سونے کی ایک وادی اگر آدمی کے پاس ہو تو وہ دوسری کی آرزو کرتا ہے۔ زرداری صاحب اسی ذہنی کیفیت کا شکار ہیں۔ ان کے خطاب کا کلیدی نکتہ یہی ہے کہ انہیں اور میاں صاحب کو اقتدار سے حظ اٹھانے دیا جائے۔ کاش کوئی انہیں بتا سکے کہ اقتدار ایک ذمہ داری ہے، ''انجوائے‘‘ کرنے کی چیز نہیں۔ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ جب اور جہاں چاہیں، وہ روپیہ بناتے رہیں۔ اسی طرح میاں صاحبان کو تادیر یہ آزادی حاصل نہ رہے گی کہ ترقیاتی منصوبوں کا تعین وہ ذاتی انتخابی ترجیحات کے مطابق کریں۔ عمران خان اگر حقائق کو واشگاف نہ کریں گے تو میڈیا کرے گا۔ خلا تادیر باقی نہیں رہتا۔
کرائے کے بجلی گھروں والے راجہ پرویز اشرف آزاد گھوم رہے ہیں۔ خدا کی پناہ، رحمٰن ملک سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ حیرت یہ ہے کہ سندھ کی کتنی ہی شخصیات منی لانڈرنگ میں ملوّث ہیں۔ سندھ میں پولیس افسروں کے تقرر اور تبادلے اس طرح ہوتے ہیں، جس طرح نو دولتیے ملبوس بدلتے ہیں۔ ایان علی کیس کس رفتار سے رینگ رہا ہے؟ کراچی کے ایک نجی چینل نے خبر دی کہ فلاں صوبائی وزیر کے گھر سے دو ارب برآمد ہوئے۔ کچھ دیر میں خبر روک دی گئی۔ سوشل میڈیا پر مگر زندہ ہے۔
عسکری قیادت فرشتوں پر مشتمل نہیں۔ اس کے ہر اقدام کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ ناچیز کی رائے اب بھی یہی ہے کہ کراچی کے کور کمانڈر اور سندھ رینجرز کو چارج شیٹ جاری نہ کرنی چاہیے تھی۔ سات سو برس ہوتے ہیں، جب عالمِ اسلام نے عہدِ اوّلین کے بعد اپنے بہترین حکمران، صلاح الدین ایوبی کو دیکھا تھا۔ صلیبیوں کی یلغار میں، حجاز وحشی قبائل کی زد میں تھا۔ عازمینِ حج لوٹ لیے جاتے۔ جب تک صلیبیوں کو پسپا نہ کر دیا گیا ایوبی ایسا جلیل القدر حکمران اس شرط پر سونے کی سلاخیں حجاز کے حاکم کو بھجواتا کہ عازمین کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو گا۔ اس سطح کی سمجھوتہ بازی کی ضرورت نہیں مگر بعض اوقات مصلحت ہی میں حکمت ہوتی ہے۔
عسکری قیادت کا ہاتھ اوپر ہے۔ اس کی ذمہ داری ہے کہ وسیع القلبی سے کام لے۔ اچھی خبریں بھی بہت ہیں۔ انشاء اللہ خزاں کے یہ دن گزر جائیں گے۔ افغانستا ن میں بھارتی رسوخ محدود کر دیا گیا۔ بہت بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری پر چین آمادہ ہے۔ نریندر مودی پر وحشت سوار ہوئی تو امریکہ کو مداخلت کرنا پڑی۔ ماسکو میں جنرل راحیل شریف کا شاندار خیر مقدم ہوا۔ پاکستان کی تزویراتی اور جغرافیائی اہمیت کا دنیا کو ادراک ہوا ہے۔ سول ملٹری ہم آہنگی سے، سول اداروں کو مستحکم کر لینے سے، معاشی نمو پر توجہ سے ملک سنور سکتا ہے۔ ہر ایک کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے۔
اندازہ یہ ہے کہ جلد ہی زرداری صاحب بجھ جائیں گے۔ ان کا سیاسی انجام قریب آ پہنچا ہے۔ کہیں سے انہیں حمایت نہ ملے گی۔ بہت دن اس ادبار کا شکار انشاء اللہ ہم نہ رہیں گے۔ شرط یہ ہے کہ ہوش مندی سے کام لیا جائے۔
طوفانی سمندر میں ملّاح کو اور بھی محتاط ہونا چاہیے۔ عزم وہمت ہی نہیں، اور بھی زیادہ سلیقہ مندی۔
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved