تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     18-06-2015

سندھ بدل رہا ہے

زرداری صاحب نے جس ہستی کو ارب پتی سیاسی اداکار کا نام دیا ہے، میرے خیال میں ان کا نام ہے میاں محمد نواز شریف۔ لطیفہ یہ ہے کہ ایک ارب پتی دوسرے ارب پتی پہ طنز کر رہا ہے۔ ''دھرنے کے دوران مستعفی ہو جاتے تو نئے الیکشن کرانا پڑتے‘‘ یہ ہے ان کا بیان اور صاف ظاہر ہے کہ مرکزی حکومت پہ وہ آگ بگولہ ہیںکہ رینجرز کو وہ روکتی کیوں نہیں ۔ نائن زیرو پر چھاپے تک تو ٹھیک تھا، کیا اب وہ بلاول ہائوس آدھمکیں گے ؟ کیا اب وہ دبئی میں سندھ کابینہ کی جائیدادوں تک رسائی چاہیں گے ؟ گستاخ!
جی ہاں ، وہ ایسا ہی کریں گے ۔ جنرل بلال اکبر نے جرائم کی 230ارب کی آمدن اور دہشت گردی میں اس کے استعمال کا سوال اسی لیے اٹھایا ہے ۔ اسی لیے ان سیاسی زعما کی فہرست انہوںنے سندھ حکومت کے گلے میں لٹکا دی ہے، جو مجرموں کو پالتے ہیں ۔ اسی لیے ایان علی سمیت منی لانڈرنگ کے کچھ کردار سامنے آرہے ہیں اور بعض ابھی پوشیدہ ہیں ۔ فوجی قیادت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ دہشت گردوں کی مالی کمر توڑے بغیر ان کا خاتمہ ممکن نہیں ۔ کراچی بد امنی کیس میں یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ ایم کیو ایم کی پیروی میں اے این پی اور پیپلز پارٹی نے بھی مجرموں کو پالا پوسااور شہرِ قائد میں انہیں اپنا ذریعہ ء معاش بنایا۔
زرداری صاحب کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی کے جرائم پیشہ افراد پر ہاتھ ڈالنا ممکن نہیں ۔دوبارہ سنیے ''دھرنے کے دوران مستعفی ہو جاتے تو نئے الیکشن کرانا پڑتے‘‘۔ ان کا خیال یہ ہے کہ کپتان کے
ساتھ مفاہمت کی دھمکی سے ، جو ہر قیمت پر نون لیگ کی حکومت گرانا چاہتاہے ، وہ شریف حکومت کو کراچی آپریشن روکنے پر مجبور کر سکتے ہیں ۔ جو بات وہ سمجھ نہیں رہے وہ یہ کہ فوج ایک ادارہ ہے ۔ یہ نون لیگ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی طرح فردِ واحد کے اشاروں پر چلنے والی ایک نام نہاد سیاسی جماعت نہیں ۔ یہاں نیچے سے رپورٹ اوپر تک جاتی ہے ۔جوانوں او رافسروں کا حوصلہ بہرحال بلند رکھنا ہوتاہے ۔ سپہ سالار کور کمانڈروں کی رائے طلب کرتااور اسے اہمیت دیتا ہے ۔ ایک سپہ سالار نے کہا تھا : فوج افسروں کے ذریعے چلائی (Govern)کی جاتی ہے ۔ اس پسِ منظر میں فوجی قیادت کا نقطہ ء نظر یہ ہے کہ مشرق میں بھارت ، مغرب میں افغان سرحد، قبائلی علاقے ، کراچی اور بڑی حد تک بلوچستان میں بھی جب امن و امان اسے قائم کرنا ہے تو فیصلہ سازی بھی وہی کرے گی ۔ یہ وہ مرحلہ ہے ، جہاں وہ سیاسی مداخلت رد کر دے گی ۔ وزیرِ اعظم کراچی آپریشن روکنے کا حکم جاری نہیں کر سکتے اور نہ وہ ایسا کریں گے ۔
ایک سال قبل اسلام آباد میں عمران خان کے دھرنے کے دوران وزیرِ اعظم سے آرمی چیف کی پے درپے ملاقاتوں اور فوج کی طرف سے ثالثی کی کوشش سے ایک بات صاف ظاہر ہے۔ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں فوج نے یہ عہد کیا ہے کہ کسی غیر آئینی طریقے سے نون لیگ کی حکومت وہ گرنے نہیں دے گی۔ ہونا بھی ایسا ہی چاہیے کہ اس صور ت میں ملک خانہ جنگی کی جانب بڑھ سکتاہے ۔ ادھر دوسری طرف کشمیر او رافغانستان پالیسی، بھارت ، امریکہ اور چین سے تعلقات سمیت خارجہ پالیسی میں بڑا کردار اب فوج کا ہے ۔ یہ انہونی بھی نہیں ۔ہم ایسی غیر معمولی صورتِ حال سے گزر رہے ہیں ، جہاں خارجہ پالیسی تقریباً مکمل طور پر دفاع کے ساتھ منسلک ہے۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات‘ خدانخواستہ بگڑتے ہیں ، جس کا ایک مظہر آئی ایس آئی اور این ڈی ایس میں معاہدے پر افغان قائدین کا شدید پاکستان مخالف ردّعمل تھا، تو مغربی سرحد پربوجھ آئے گا۔ بھارت نے مشرقی سرحد پر پہلے ہی نصف پاکستانی فوج کو مصروف کر رکھاہے۔ خدانخواستہ دہشت گرد اگر کراچی آپریشن جھیل جاتے ہیں تو تباہی نازل ہوگی اور اس کا ملبہ فوج پر ہی گرے گا۔
حالات اس نہج پہ پہنچ چکے کہ کراچی آپریشن سمیت ، عسکری لیڈر شپ کے لیے پسپائی کہیں کوئی راستہ (Option)ہی نہیں ۔ اس صورتِ حال کو زرداری صاحب نہیں سمجھ رہے ۔سندھ میں اپنے باقی ماندہ تین سال وہ اس طرح گزارنا چاہتے ہیں کہ ہر دن عید اور ہر رات شب برات ہو ۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شریف حکومت پہ دبائوڈالتے ہوئے، اپنا یہ ہدف وہ حاصل کر سکتے ہیں ؛حالانکہ یہ معاملات مرکزی حکومت کے ہاتھ میں ہیں ہی نہیں ۔
زرداری صاحب نے اگر جوا کھیلنے کا فیصلہ کر ہی لیا تھا تو شف شف کی بجائے شفتالو کہتے ۔ ارب پتی سیاسی اداکار کی بجائے انہیں وزیراعظم کا نام لینا چاہیے تھا۔ سابق جرنیلوں کی فہرست نہیں ، انہیں اسد درّانی جیسے ان جرنیلوں کا نام لینا چاہیے تھا، جن پر نواز شریف سمیت پیپلز پارٹی مخالف سیاستدانوں میں روپے بانٹنے کا الزام ہے ۔پیپلز پارٹی اور فوجی قیادت میں کشیدگی تو اسی وقت ظاہر ہو گئی تھی جب اعتزاز احسن اور فرحت اللہ بابر نے 230ارب روپے کے ذکر پر ہنگامہ برپا کرنے کی کوشش کی ۔ برسبیلِ تذکرہ ، فرحت اللہ بابر کا یہ فرمان کہ ڈی جی رینجرز کا بیان ان کی اپنی ہی ناکامی کا اعتراف ہے ، غلط ہے ۔ جرائم ختم کرناصوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے اور وہ یہ فرض پولیس کی مدد سے انجام دیتی ہے ۔ صوبائی حکومت کی ناکامی پر یہ بوجھ رینجرز کو اٹھانا پڑا ہے ۔
زرداری صاحب کے پلّے ہے کیا؟ پانچ سالہ دورِ حکومت میں کراچی میں پانچ ہزار لاشیں ، توانائی بحران میں شدّت ، ایفی ڈرین، حج کرپشن ، رینٹل پاور، سوئس منی لانڈرنگ کیس ؟ ملکی قرض میں آٹھ ہزار ارب روپے کا اضافہ ؟ عوامی تائید سے تو وہ محروم ہیں۔ سندھ میں اس لیے جیتے کہ کو ئی موثر مخالف پارٹی تھی ہی نہیں۔ ادھر پرویز مشرف کے احمقانہ دورِ حکومت کے بعد فوج سنبھلی ہے اور اس نے کئی کارنامے سر انجام دیے ہیں ۔ ا س نے سوات ، جنوبی اور شمالی وزیرستان دہشت گردوں سے چھین کر قوم کو لوٹایا ہے ۔فاٹا اور کراچی میں بڑی حد تک امن قائم کیا ہے ۔ مشرق اور مغرب میں جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں ۔ بڑے صبراو رحوصلے کے ساتھ بین الاقوامی اور ملکی میڈیا کی یلغار کا سامنا کیا ہے ؛حتیٰ کہ حالات بدل گئے ۔پاکستانی میڈیا اب فوج پر پتھر نہیں برسا سکتا۔ سب سے بڑھ کر یہ جنرل کیانی کے خون پسینے کی کمائی ہے ۔
میرا خیال ہے کہ آنے والے دنوں میں رینجرز کچھ بڑے مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالیں گے۔ کارروائیوں میں تیزی آئے گی۔ نائن زیرو پہ چڑھ دوڑنے والے بلاول ہائوس کو کس خاطر لائیں گے۔ سندھ کی صورتِ حال پر گہرائی میں غور کیجیے تو ایسا لگتاہے کہ پانچ برس بعد پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا صرف نام ہی باقی رہ جائے گا۔ رہا زرداری صاحب کا خطاب تو وہ محض ایک پکار تھی!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved