تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     19-06-2015

ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے!

دھواں وہیں سے اٹھتا ہے جہاں چنگاری ہو۔اور دہکتے کوئلوں کے ڈھیر پر کھڑے ہو کر کوئی کتنی دیر چیخ نہیں مارے گا؟پروفیشنل مداری بھی زیادہ دیر صبر نہیں کر سکتا۔لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ جب سے مودی سرکار آئی ہے پاکستان میں بار بار فوج کو ''پنچنگ بیگ‘‘ کیوں بنا یا جا تا ہے؟
برادرم رؤف کلاسرا تب ایک انگریزی اخبار سے وابستہ تھے اور جسٹس مولوی انوار الحق اٹارنی جنرل۔ صحافیوں کا ایک گروپ خبر کی تلاش میں اٹارنی جنرل کے آفس گیا اور مولوی انوارالحق سے خبریں کریدنے لگا۔جسٹس صاحب نے کہا میںآج کھل کر بولتا ہوں۔ صحافی خوش ہوئے کہنے لگے ضرور ضرور... کھل کر بتائیے کیا خبر ہے۔مولوی انوارالحق بولے آپ نئے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے مل لیں مجھے خود ان سے ہی پتہ چلتا ہے کہ حکومت کیا کرنے جا رہی ہے۔سپریم کورٹ کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں نے حیرت سے اٹارنی جنرل کا منہ دیکھا جو پوری طرح سے سنجیدہ تھے۔ان کے اس ری ایکشن پر صحافی مزید حیران ہوئے اور ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق نے صحافیوں کو یہ کہہ کر مزید حیران کر دیا کہ جناب میں تو ڈپٹی اٹارنی جنرل رؤف کلاسرا کی خبر پڑھ کر جان پاتا ہوں کہ سرکار کے ایوانوں میں کیا ہو رہا ہے۔صحافی رؤف کلاسرا کے پاس گئے اور انہیں اٹارنی جنرل سے اپنی ملاقات کی روداد سنائی جبکہ اٹارنی جنرل نے خود یہ دلچسپ کہانی مجھے بتائی۔ دو روز پہلے رؤف کلاسرا نے پھر لکھا کہ مجھے پتہ ہے کیا ہونے والا ہے۔جب کلاسرا صاحب ڈپٹی اٹارنی جنرل تھے تب میں ملکی تاریخ کے کم از کم پانچ بڑے طوفانوں کی آنکھ کے عین درمیان کھڑا تھا۔ آج اس لیے تھوڑاسا کنفیوز ہوں کہ کیا کہوں اور کتنا کہوں ۔
مئی کی 3تاریخ کواختلافی نوٹ میں‘ میں نے پہلی بار کہا تھا کراچی ایکشن کا فائنل رائونڈ آن پہنچا ہے۔ اس دفعہ چند ''بڑوں‘‘ کی گردن پر ہاتھ ڈالا جائے گا۔ جس میں بڑے سیاستدان ،بڑے سرکاری ملازم اور کچھ صحافی بھی شامل ہیں ۔میرے پاس ٹیلیفونوں کا تانتا بندھ گیا کہ نام بتائیں۔ میں نے دوستوں سے عرض کیا جناب جو میں نے اختلافی نوٹ میں کہا‘ پوری ذمہ داری سے کہا ۔مگر میں تفتیشی نہیں ہوں نام نہیں بتا سکتا۔اس سے پہلے پچھلی حکومت کے دور میں جب کراچی آپریشن شروع ہوا تب میں وزارت سے استعفی دے چکا تھا اور وفاقِ پاکستان نے کراچی سوموٹو میں مجھے وفاق کی طرف سے وکیل مقرر کیا تھا۔اس لیے میں نے وہ کچھ دیکھ اور پڑھ رکھا ہے جس تک سپریم کورٹ کے چار ججوں ،اٹارنی جنرل اور دو متعلقہ اداروں کے علاوہ کسی کی رسائی نہیں تھی۔پچھلی معلومات کو تازہ اطلاعات نما واردات سے علیحدہ رکھ کر دیکھا جائے تب بھی تلخیوں اور دھمکیوں سے بھرپور سابق صدر کی تقریر کی کہانی کا پس منظر کھل جاتا ہے۔
مثلاً ،منی لانڈرنگ کی ایک گرفتار ملزمہ کو اسلام آباد کے بڑے گھر سے 19 کالیں آئیں۔ ان کالوں کی تحقیقات کرنے والے یہ کھوج لگانے میں کامیاب ہو چکے ہیں کہ کالیں کس نے کی تھیں۔ اب یہ حقیقت بھی کھل چکی کہ اس خاتون کواڈیالہ جیل میں مساج کی سہولت میسر تھی۔چنانچہ اتنی فرینڈلی جیل میں اس کے لیے موبائل فون پلانٹ کرنا کو ن سا شرلاک ہومز کا معرکہ ہے۔
دوسرا: سابق وزیرِ خزانہ کے ذریعے سینٹ کی قائمہ کمیٹی سے یہ ہدایت جاری کرائی گئی کہ بیرونِ ملک بینکوں میں جمع پاکستانی لیڈروں کے ناجائز کمائے ہوئے ڈالر واپس منگوائے جائیں۔ اس کا واضح اشارہA2کی طرف جاتا ہے۔تیسرا: سندھ میں جس کے گھر سے صرف اڑھائی ارب کیش برآمد ہوا اس کے تین ملازم ابھی گھر واپس نہیں آئے۔
چوتھا: سابق صدر کے خلاف مقدمات کی زنبیل کھل رہی ہے۔ جبکہ ساتھ ساتھ انہی عدالتوں سے شریف فیملی مقدمات سے بری ہونے کی ہیٹرک بھی کر چکی۔وزیراعظم ہاؤس کی شام کے ایک راز دار کا یہ دعوی ہے کہ شریف فیملی صدر ممنون حسین پر بہت خوش ہے۔ جنہوں نے راولپنڈی میں ایک ایسا پرائڈ آف پرفارمنس 23مارچ کو جاری کیا جس نے شریف فیملی کا سب سے بڑے ریلیف والا خواب پورا کر دکھایا۔رینجرز کراچی کی فہرست اگرچہ بذات خود ایک طوفان ہے لیکن میری اطلاعات کے مطابق ابھی آپ مزید انتظار کریں کیونکہ ضمنی فہرست بھی آئے گی۔
پانچواں: پاکستان کی سلامتی کے ادارے جان چکے ہیں‘ جب تک کراچی میں ''فنانشل‘‘ کرائم یعنی مالیاتی جرائم پر کنٹرول نہیں ہو گا آپریشن مکمل فتح سے ہمکنار نہیں ہو سکتا۔ایک اور معتبر ادارے نے پچھلے ہفتے آٹھ سالوں میں برازیل،چین ،ترکی ،پولینڈ امریکہ اور برطانیہ میں ان رقوم کا سراغ لگا لیا ہے جو سپر ماڈل طرح کے غیر اینٹی بینک چینلز سے باہر بھیجی گئی ہیں ۔
چھٹا:کچھ انتہائی خطرناک ٹیلیفون کالیں اور ان سے بھی زیادہ بے باک ویڈیو کلپس بھی بڑی پریشانیوں میں شامل کی جا رہی ہیں۔آپ کو یاد ہو گا میں نے سابق سیاسی چیف جسٹس کے اصل حلقہ یعنی وکیل برادری میں اس کے اثرو رسوخ کو للکارا تھا ۔تب اس کے چار ،پانچ ڈرائیوروں نے مخصوص ٹی وی چینلوں پر میرے خلاف لفظوں کی بمباری کے مورچے لگا لیے تھے۔تب میں نے پنجاب کی ایک بڑی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے ان لیڈروں کے وہ نام لیے جو برادرم علی احمد کرد نے رکھے تھے یعنی عدلیہ فروش وغیرہ۔ اور پھر کہا کہ ان میں سے کوئی مائی کا لال اب بولا تو میں دبئی کی ان کمپنیوں کے نام بتا دوں گا جن کے مالک پاکستانی نہیں جہاں سے انہیں مشاورت (consultancy) کے نام پر رقوم بھجوائی جاتی ہیں۔ اس کے بعد پروپیگنڈے کی جھاگ بیٹھ گئی۔ کے پی کے سے تعلق رکھنے والے ایک معروف وکیل نے تو میرے پاس اپنی صفائی کا جرگہ بھجوا دیا۔
اب تصویر کا رخ دیکھیں۔جب سے مودی سرکار آئی ہے پاکستان کے مخصوص سیاسی عناصر تقریباً ہر مہینے کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کر کے عوام تک یہ بات پہنچانا فرض سمجھتے ہیں کہ ملک کے سارے مسائل فوج کی وجہ سے ہیں۔اس کا ان ڈائریکٹ مطلب یہ بھی ہے کہ پاکستان کو فوج کی ضرورت ہی نہیں۔ آپ اگر پچھلے اٹھارہ ماہ میں فوج کے خلاف ہونے والی بڑی بڑی تقریروں کی ویڈیو کلپس نکال کر دیکھیں توآپ پر یہ حیران کن انکشاف ہو گا کہ جس لیڈر نے بھی فوج کے موضوع پر خطاب کیا اس کا رویہ ماضی میں بھارت کے بارے میں انتہائی سافٹ رہا ہے۔
یادش بخیر 2012ء میں مجھے بھارت کی سات سے زائد بار ایسوسی ایشنوں ،پنجاب ہریانہ بار کونسل ،انڈیا بار کونسل ،اور نئی دہلی بار کونسل نے بھارت آنے کی دعوت دی۔میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج اور پاکستان بار کونسل کے وائس چیئر مین رمضان چودھری صاحب کو ساتھ لے کر تین ہفتے کے دورے پر بھارت گیا۔ہمارے دورے کے پندرہ دن بعد صدر آصف زرداری نے بھارت کا دورہ کیا۔ ہمیں دورے کا پتہ تب چلا جب ایک دن غیر معمولی تعداد میں بھارتی میڈیا میرے پاس پہنچا اور کہا امن کی آشا کامیاب ہو گئی ۔آپ کا صدر بھارت پہنچ گیا۔ راہول اور بلاول اگلی نسل کے تعلقات کی علامتیں ہیں ۔اب برصغیر میں دیوار برلن گرنے کا وقت آ گیا آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ میں نے جواب دیا ۔ ایٹمی پاکستان کے بین الاقوامی بارڈر کو ''دیوارِ برلن‘‘ کہنے کا حق آپ کو کس نے دیا۔شام کو خبر چلائی گئی میں صدر زرداری سے ملنے بھارت پہنچ گیا۔
رؤف کلاسرا سے پوچھ لیں ان کی موجودگی میں امن کی آشا پر کون مجھے ملنے کے لیے فون کرتا رہا اور میں معذرت ۔کل پھر صدر زرداری کی کال آئی میری تقریر پر تمہارے تاثرات۔ میرا جواب تھا تاثرات نہیں میرے اعتراضات یہ ہیں۔ پھر کہا شوکت عزیز سے بینک ہتھیانے اور کانا پھوسی کرنے والے مشیر ایسی تقریر کروا تو سکتے ہیں اُسے سنبھال نہیں سکتے۔آج دیکھ لیں‘ بدبودار عوام دشمن مفاہمت کی باسی ہانڈی آبپارہ چوک میں ٹھاہ ہو گئی۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved