پس ثابت ہوا اگر اینٹ سے اینٹ بجائے جانے سے بچنا ہے تو پھر کرپشن برداشت کرنا پڑے گی۔
زرداری صاحب کی تقریر سن کر یاد آیا سکندر بھی پوری دنیا فتح کرنے نکلا تھا اور ہمارے ہی علاقے میں مارا گیا تھا ۔ وہ گورے جن کی سلطنت پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا وہ بھی جنگ عظیم دوم کے بعد امریکہ سے ایک ارب ڈالر کا قرضہ مانگ رہے تھے کہ بھاڑ میں جائے سلطنت باقی ماندہ برطانیہ ہی بچا لیں تو بڑی بات ہے۔
تقریر سن کر شیکسپیئر اور قدیم یونانی ڈراموں کے کردار یاد آئے جو اپنے ہی Tragic flaw کا شکار ہوکر تقدیر کے ہاتھوں مارے گئے۔ خدا نے ہر انسان کے اندر کوئی نہ کوئی ایسی خامی رکھ چھوڑی ہے جو اس کے زوال کا سبب بنتی ہے۔
زرداری صاحب کی تقریر کو کیا نام دیا جائے؟ Tragic flaw یا پھر زرداری کا واٹرلو ۔جو کچھ نپولین کے ساتھ ہوا تھا ۔ اتنا غرور کس چیز کا ؟
میرا اپنا خیال ہے زرداری صاحب زیادہ ہی خوداعتمادی کا مظاہرہ کر کے پھنس گئے ہیں۔ دوسرے وہ جنرل راحیل شریف کے بارے میں بھی اندازہ لگانے میں غلطی کر گئے ہیں ۔ زرداری صاحب کا واسطہ اب تک جنرل مشرف‘ جنرل کیانی اور جنرل پاشا سے پڑا تھا ۔ جنرل مشرف اقتدار کی شدید ہوس کا شکار تھے اور انہوں نے مارشل لاء کے ایک سال بعد سیاسی کھیل شروع کر دیا تھا ۔ جنرل مشرف زرداری سے ڈیل کرتے رہے، وہ بینظیر بھٹو سے بھی خفیہ ملاقاتیں بھی کرتے رہے۔ اس لیے زرداری صاحب کو علم تھا کہ جنرل مشرف کو ڈرایا جا سکتا ہے۔ جنرل مشرف کو دھمکی دے کر جھکایا بھی جا سکتا ہے۔ اس لیے جو کچھ بینظیر نے مانگا وہ دینے پر تل گئے تھے۔ تاہم زرداری صاحب کسی دن کونڈولیزارائس اور وزیردفاع رمز فیلڈ کی کتابیں پڑھ لیں‘ یہ دراصل امریکن تھے جو جنرل مشرف کو اس ڈیل پر تیار کررہے تھے۔ اس سے پہلے جتنی محنت بینظیر بھٹو اور زرداری صاحب نے امریکہ کو رام کرنے کے لیے کی تھی اس کی کہانی اگر کبھی حسین حقانی نے لکھی تو بہت دلچسپ ہوگی۔ اور چھوڑیں زرداری اور بینظیر بھٹو کو... بش کے سالانہ روایتی ناشتے کی دعوت لینے کے لیے کیا کیا ترلے کرنے پڑگئے تھے تاکہ پاکستان میں تاثر دیا جائے کہ وہ بش کے قریب ہوگئے تھے۔
زرداری بھول گئے ہیں وہ جنرل مشرف کی جیل میں تو رہے لیکن وہ انہی جرنیلوں سے خفیہ ڈیل کرتے رہے اور جیل سے زیادہ وقت ان کا پمز ہسپتال میں گزرتا تھا ۔ ایک رات وہ بینظیر بھٹو کو بتائے بغیر پمز ہسپتال سے امین فہیم کے ساتھ غائب ہوگئے۔ بینظیر بھٹو نے امریکہ سے ویسے ہی فون کیا تو فون بند ملا۔ وہ گھبرا گئیں۔ انہوں نے امریکہ میں ہر پاکستانی صحافی کو فون کر کے کہا کہ ان کے خاوند کو جنرل مشرف نے اغوا کر لیا ہے تاکہ انہیں بلیک میل کیا جائے۔ کچھ دیر بعدپتہ چلا زرداری اس وقت آئی ایس آئی کے ایک جنرل کے ساتھ اپنی ڈیل فائنل کر رہے تھے کہ وہ پاکستان سے کیسے غائب ہوں گے اور دوبارہ پاکستان نہیں آئیں گے۔ ایک جنرل نے تو زرداری کو اتنا بیوقوف بنایا اور یقین دلایا کہ وہ اگر دبئی سے پاکستان کی فلائٹ لے کر لاہور اتریں اور کچھ ہنگامہ کریں تو ملک میں دوبارہ الیکشن 2005ء میں ہوسکتے ہیں۔ اس جنرل نے اتنی سنجیدگی سے وہ سودا زرداری صاحب کو بیچا کہ موصوف فوراً تیار ہوگئے۔ وہ منجن زرداری صاحب نے بینظیر بھٹو تک کو بیچ دیا حالانکہ بی بی کو شک تھا انہیں اتنی جلدی جنرل مشرف اقتدار میں کیسے لائے گا۔ زرداری صاحب نے بیانات دینے شروع کر دیے کارکن تیاری کریں۔ اس سال الیکشن ہوں گے۔ چودھری پرویزالٰہی نے جنرل مشرف سے پوچھا کہ کیا واقعی وہ ان سے جان چھڑا کر پیپلز پارٹی سے اتحاد چاہتے ہیں۔ جنرل مشرف نے چودھری پرویز الٰہی کو اجازت دی جیسے چاہیں وہ زرداری اور ان کے ورکرز کو پھینٹی لگائیں۔ زرداری صاحب کو علم نہ تھا کہ ان کے لاہور پہنچے سے قبل بازی پلٹ چکی ہے۔ وہ جنرل انہیں ابھی بھی یہ چونا لگا رہا تھا کہ وہ جونہی اتریں گے انقلاب آچکا ہوگا۔ ورکرز سندھ سے چلے، سب کو پولیس نے پھینٹی لگائی، خود زرداری جہاز سے اترے، ایس پی کیپٹن مبین کا ہاتھ پکڑا، اور مرسیڈیز گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے، ورکرز اور صحافی چودھری پرویزالٰہی کی پولیس کے ہاتھوں مارکھاتے رہے اور بعد میں اسی چودھری پرویزالٰہی کو ڈپٹی وزیراعظم بنادیا۔
اس کے بعد انہیں حوصلہ نہ ہوا کہ پاکستان میں انقلاب لاتے کہ پتہ چل گیا تھا کہ جنرل مشرف اور اس کے جنرل نے انہیں بیوقوف بنایا تھا۔اس دن لوٹے جب بینظیر قتل ہوئیں۔
زرداری صاحب کے لیے اقتدار میں آنے کے بعد جنرل کیانی کے ساتھ ڈیل کرنا سب سے آسان کام تھا ۔ سب نے بانٹ کر کھایا ۔ جنرل پاشا بھی اس بندر بانٹ میں توسیع کی شکل میں حصہ لیتے رہے۔ تاہم جنرل کیانی کو چھ سال آرمی چیف کا عہدہ ملا۔ جنرل کیانی کے ٹھیکیدار بھائیوں کی کہانیاں الٹا زرداری صاحب کے کانوں میں موسیقی بنتی رہیں۔
اس لیے زرداری صاحب خوش تھے کہ ماضی کے جرنیلوں کو جس طرح وہ حصہ دیتے رہے ہیں یا ان سے ڈیلیں کرتے رہے ہیں اب کی بار بھی ان کا غصہ کام دکھائے گا اور جنرل راحیل بھی جنرل کیانی اور جنرل پاشا اور جنرل مشرف کی طرح دب جائیں گے اور ایک آدھ دھمکی کام کر جائے گی۔ سارے غلط زرداری بھی نہیں تھے کیونکہ ماضی میں زرداری کی دھمکی کے بعد جنرل مشرف نے صدارت سے استعفیٰ بھی دے دیا تھا جب زرداری نے انہیں پیغام بھیجا تھا کہ وہ چھوڑ دیں وگرنہ پارلیمنٹ ان کا ٹرائل کرے گی۔
شاید مقصد اس دفعہ بھی یہی تھا ۔ تاہم ایک فرق زرداری نہ سمجھ سکے کہ جنرل راحیل کے کندھوں پر جنرل مشرف جیسا بوجھ نہ تھا کہ ایک دور وہ بھی آیا تھا جب وہ عوام میں اتنے اَن پاپولر ہوگئے تھے کہ جی ایچ کیو نے خط جاری کیا تھا کہ فوجی وردی پہن کر مارکیٹ نہ جائیں۔ اس طرح جنرل کیانی کی طرح جنرل راحیل کے بھائی ٹھیکوں میں الزامات کا سامنا نہیں کر رہے یا زرداری انہیں تین سال مزید توسیع نہیں دے سکتے۔ اس لیے اب کی دفعہ جنرل مشرف اور جنرل کیانی کی طرح جنرل راحیل کو زرداری کوئی فائدہ نقصان پہنچانے کی پوزیشن میں نہیں تھے لہٰذا ان کی دھمکیوں کا کوئی اثر نہیں ہونا تھا۔
دوسری طرف پیپلز پارٹی نے زرداری صاحب کے اس بیان کو یہ جواز دینے کی کوشش کی کہ بھٹو اور بینظیر بھٹو بھی فوج پر تنقید کرتے رہے۔ میں نے یاد کرنے کی کوشش کی کہ بھٹو نے کب فوج کے خلاف اسٹینڈ لیا تھا؟ ہاں جنرل ایوب کے خلاف لیا تھا جب وہ صدر تھے اور وہ ان کے وزیرخارجہ بن کر رہے۔ اس کے بعد کے حالات بتاتے ہیں کہ بھٹو تو فوج کے سب سے بڑے حامی تھی۔ جنرل یحییٰ کو بچانے والے وہ تھے۔ نوے ہزار فوجی وہ واپس لائے، ان جرنیلوں کو ترقیاں دیں جو مشرقی پاکستان سے بھاگ آئے تھے۔ سب سے بڑھ کر بھٹو نے حمودالرحمن کمشن رپورٹ شائع نہیں ہونے دی کہ اس سے فوج کا مورال ڈائون ہوگا۔ آپ بھٹو کا سپریم کورٹ میں دیا گیا آخری بیان پڑھ لیں جس میں انہوں نے فوج کے لیے دی گئی تمام اپنی خدمات کا ذکر کیا کہ وہ ہر موقع پر فوج کے لیے کیا کچھ کرتے رہے۔ فوج کو مضبوط کرنے کے لیے ہی ایٹم بم کی بنیاد رکھی۔ یہ تو جنرل ضیاء تھے جنہوں نے ان کو پھانسی لگایا ورنہ بھٹو نے فوج کو کبھی کچھ نہیں کہا۔ فوج کے خلاف پیپلز پارٹی کے جذبات اس وقت مجروح ہوئے جب بھٹو کو پھانسی دی گئی۔
اسی طرح بینظیر بھٹو نے کب فوج کو ٹارگٹ کیا؟ ہاں البتہ جنرل ضیاء کو ٹارگٹ کیا مگر وہ تو درست کیا تھا کیونکہ ان کے باپ کو پھانسی دی گئی تھی ۔ تاہم بینظیر بھٹو کو پتہ چل گیا تھا کہ ان کے باپ سے دو بڑی غلطیاں ہوئی تھیں‘ جنہیں درست کرنے کی انہوں نے بے پناہ کوشش کی اور آخر وہ کامیاب ہوگئیں۔ ان کے والد کی پہلی غلطی تھی کہ وہ امریکہ سے ٹکر گئے تھے حالانکہ امریکہ ہی انہیں اقتدار میں لایا تھا۔ امریکہ سے بھٹو کو دشمنی کا کیا فائدہ ہوا؟ پھانسی لگ گئے اور کوئی گھر سے باہر نہ نکلا۔ دوسری غلطی یہ تھی کہ وہ فوج کی طاقت کا غلط اندازہ لگا بیٹھے تھے اور ان کا خیال تھا کہ فوج اب بغاوت نہیں کرے گی۔ اس لیے بینظیر بھٹو نے سب سے پہلے امریکہ سے تعلقات درست کیے اور پھر جنرل اسلم بیگ کی شرائط پر ہی اقتدار قبول کیا ۔ ہاں بینظیر بھٹو نے اگر فوج پر تنقید بھی کی تو ڈھکے چھپے انداز میں کہ ان کا الیکشن چرا لیا گیا تھا۔ بینظیر بھٹو نے کبھی نہیں کہا کہ وہ فوج کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گی ۔
مجھے ترس بلاول پر آرہا ہے۔زرداری صاحب کی ایک تقریر نے ان کے لیے وہی مشکلات پیدا کر دی ہیں جو کبھی جنرل ضیاء نے بینظیر بھٹو کے لیے پیدا کی تھیں اور بھٹو خاندان کو سکیورٹی رسک کا درجہ ملا اور ایک ایک کر کے سارے بھٹوز مار دیے گئے۔ بینظیر بھٹو نے بڑی محنت کی تھی کہ وہ امریکہ اور فوج کی پسندیدہ لیڈر بن کر ابھریں۔ انہوں نے فوج کے کہنے پر ہی طالبان کا کھیل افغانستان میں کھیلا اور انہی طالبان نے ہی بعد میں انہیں قتل کیا۔ اب بھی وہ فوج کے ساتھ چلنے کے لیے تیار تھیں اس لیے انہوں نے جنرل مشرف سے ڈیل کی تھی۔
زرداری اپنی اننگز تو کھیل چکے لیکن وہ بلاول کے لیے بہت سارے کانٹے بچھا گئے ہیں۔ بلاول کو اب وہیں سے شروع کرنا پڑے گا جہاں سے کبھی بینظیر بھٹو نے شروع کیا تھا۔ ہو سکتا ہے اس دوران بلاول ایک میچور سیاستدان بن کر ابھرے لیکن کیا بلاول کے پاس اپنی ماں کی طرح دس برس کا وقت ہے کیونکہ واٹس ایپ، ٹوئیٹر اور جدید میڈیا کی موجودگی میں اب دنیا بہت بدل گئی ہے۔
ویسے بلاول بھی سوچتا ہوگا کہ اس کے والد نے اسے ملک سے یہ کہہ کر نکال دیا تھا کہ اس نے ایم کیو ایم کے خلاف سخت تقریر کر کے سیاسی امیچورٹی کا ثبوت دیا تھا، اب جو کچھ زرداری نے کہا ہے اس کے بعد بلاول چھوڑیں‘ پیپلز پارٹی کے لیڈرز بھی سوچتے ہوں گے اس ''میچور زرداری‘‘ سے تو امیچور بلاول ہی بہتر ہے!