تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     19-06-2015

میری وسعتوں کی ہوس کا خانہ خراب ہو… (آخری قسط)

1975ء میں قائم کی جانے والی ایگری کلچرل ریسرچ کونسل چالیس سال کے عرصے میں کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ وہ اے آر سی سے این اے آر سی ہو گئی۔ سائنسدانوں کی تعداد زمین سے آسمان پر پہنچ گئی۔ تحقیقاتی شعبوں کی ان گنت شاخیں متعارف ہوئیں۔ آج این اے آر سی میں دو سو سے زائد پی ایچ ڈی محققین مختلف زرعی میدانوں میں اپنی صلاحیتوں سے اس ملک کی خدمت کرنے میں مصروف ہیں۔ سی ڈی اے کو این اے آر سی میں ہونے والی بے ضابطگیاں تو خوب نظر آئیں مگر اسی این اے آر سی کے شمالاً جنوباً بلامبالغہ سینکڑوں ایکڑ پر ہونے والی بے ضابطگیاں نظر ہی نہیں آ رہی جو صرف بے ضابطگیاں نہیں بلکہ سنگین خلاف ورزیاں ہیں اور معاہدے کی بنیادی روح سے ہی متصادم ہیں۔
اسلام آباد کے رہائشیوں کو تازہ سبزی‘ مرغی کا گوشت‘ دودھ‘ دہی اور انڈوں کی فراہمی آسان بنانے کی غرض سے چک شہزاد کے آس پاس دو سے لے کر پندرہ بیس ایکڑ تک اراضی فارم بنانے کے لیے الاٹ کی گئی یہ فارمز بعدازاں فارم ہائوسز اور پھر لگژری ہائوسز میں تبدیل ہو گئے۔ کسی ایک گھر سے اسلام آباد کے شہریوں کو مرغی کا ایک انڈا یا سبزی کا ایک ٹینڈا فراہم نہ ہوا۔ سارے زور آوروں نے ایکڑوں پر مشتمل ان نام نہاد فارموں میں اپنے محل تعمیر کر لیے۔ اس پر سپریم کورٹ نے ایکشن لینا شروع کیا۔ مختلف احکامات پاس کیے لیکن آج بھی صورتحال یہ ہے کہ کسی ''فارم ہائوس‘‘ سے دودھ کی ایک چھینٹ‘ سبزی کا ایک پتا‘ مرغی کا ایک انڈا اور گوشت کی ایک چھٹانک پیدا نہیں ہوئی۔ مجاز ادارہ خاموش ہے‘ حکمران چپ ہیں۔ عدالتیں صبر کر رہی ہیں کہ ان لگژری گھروں میں عام پاکستانی نہیں مراعات یافتہ طبقہ سے تعلق رکھنے والی ایلیٹ کلاس رہائش پذیر ہے۔
مجاز ادارے نے پارک انکلیو کی فروخت کا ایک تجربہ کیا۔ این اے آر سی کے قریب واقع پارک انکلیو میں پانچ سو گز پر مشتمل پلاٹ ایک کروڑ پچھتر لاکھ میں فروخت کیا۔ اصل کنال چھ سو گز رقبہ پر مشتمل ہوتا ہے مگر اب بڑے شہروں میں پانچ سو گز کا جعلی کنال فروخت کیا جا رہا ہے۔ مجاز ادارے نے بھی یہ جعلی کنال ساڑھے سترہ ملین روپے فی پلاٹ کے حساب سے بیچ کر مال اکٹھا کیا۔ اس تجربے کو سامنے رکھیں تو این اے آر سی کی زمین جو پارک انکلیو کے مقابلے کہیں زیادہ کمرشل اہمیت کی حامل ہے موجودہ حکومت اور متعلقہ ادارے کے لیے سونے کا انڈہ دینے والی مرغی ثابت ہو سکتی تھی؛ تاہم یاد رہے کہ حکومت اصل سونے کا انڈا دینے والی مرغی یعنی این اے آر سی کو ذبح کر کے اس کے پیٹ میں پڑے کچے پکے انڈے ایک ہی بار فروخت کر کے مال کھرا کرنا چاہتی ہے۔ زرعی تحقیق‘ فصلاتی ترقی‘ بیماریوں سے پاک بیجوں کی پیداوار‘ زیادہ پیداوار کی حامل فصلوں کی تیاری‘ سب بھاڑ میں گئی۔ تاجروں کو فوری آمدنی سے غرض ہے خواہ گھر بیچ کر ہی کیوں نہ کاروبار میں لگا دیا جائے۔
مجاز ادارے نے جو پلان دیا ہے اس کے مطابق چھ سو پچیس ایکڑ یعنی پانچ ہزار کنال پر رہائشی‘ ساٹھ ایکڑ یعنی چار سو اسی کنال پر کمرشل پلاٹس بنائے جائیں گے۔ ایک سو نوے ایکڑ کھلی جگہ پچاس ایکڑ پر پبلک بلڈنگز بنائی جائیں گی جبکہ سوا تین سو ایکڑ مستقبل میں اسی طرح استعمال میں لائی جائے گی۔ فی الوقت نو سو پچیس ایکڑ رقبہ فروخت کر کے ایک سو ارب روپے اکٹھے کیے جائیں گے۔ جس ملک میں اسحاق ڈار جیسا اکائونٹنٹ‘ ماہر معاشیات بن کر ملکی معیشت کی کشتی کے پیندے میں سوراخ کرنے پر مامور ہو وہاں یہی کچھ ہوگا۔
بظاہر یہ منصوبہ متعلقہ ادارے نے ایک سمری کی صورت میں سیکرٹری کینٹ ڈویژن کو بھجوایا ہے اور سیکرٹری کینٹ ڈویژن نے ایک خط نمبری No.4/17/2015-CDA-II مورخہ دو جون 2015ء کے ذریعے سیکرٹری نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کو اس تجویز پر جلد از جلد صاد (Endorsement) کے لیے لکھا ہے۔ اس ادارے کی سمری میں پوائنٹ نمبر سات کی شق 'B‘ بڑی شاندار ہے اور اس نے کافی چیزوں سے پردہ ہٹا دیا ہے اس سے تھوڑی سی سمجھ بوجھ رکھنے والا بھی جان سکتا ہے کہ اس سارے منصوبے کے پیچھے کون ہے‘ کون اس ساری تجویز کا منصوبہ ساز ہے اور کس کو فائدہ پہنچانا مقصود ہے۔ اس شق میں اس ادارے نے (بظاہر) تجویز کیا ہے کہ اس منصوبے کا نقشہ اور تعمیر تیسری پارٹی سے کروائی جائے جس کا اس میدان میں قابل ذکر تجربہ ہو۔ اس سارے منصوبے میں حکومت پاکستان کوئی پیسہ نہ لگائے بلکہ یہی تیسری پارٹی سارا سرمایہ لگائے‘ اس پارٹی کو اس سرمایہ کاری‘ ڈیزائن‘ ترقیاتی کاموں‘ بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور مارکیٹنگ کرنے کے عوض پلاٹ دیے جائیں۔ اس شق سے بلی تقریباً تقریباً تھیلے سے باہر نکل آئی ہے اگر کسی کو یہ بلی پھر بھی نظر نہ آئے تو اس کے لیے صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ پوائنٹ نمبر سات کی شق 'C‘ میں لکھا ہے کہ اس منصوبے کا پروجیکٹ ڈائریکٹر پرائیویٹ سیکٹر سے لیا
جائے۔ پانچ پانچ سو گز کے چھ ہزار پلاٹ بنا کر ان سے ایک سو ارب روپے کھرے کرنے کا منصوبہ بنانے والوں کو ایک لمحہ کے لیے کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہوئی کہ ایک وہ تھے جو این اے آر سی جیسے قومی ادارے اور منصوبے بنا کر اس قوم کو دے گئے اور ایک ہم ہیں کہ ان کو بیچ کر نوٹ کھرے کرنے کی تجاویز دے رہے ہیں۔ تب ملکی معیشت ماہرین معاشیات کے ہاتھ میں تھی اب فنانس منیجرز کے ہاتھ میں ہے۔ ماہرین معاشیات غربت کم کرنے کے منصوبے بناتے تھے اور فنانس منیجرز‘ بینکار اور اکائونٹنٹ ٹائپ ماہرین معاشیات غریب کو کم کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور انہی لائنوں پر کام کرتے ہیں۔ اس ملک میں گزشتہ دو عشروں میں سوائے انسانی جان کے‘ ہر چیز کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے مگر پراپرٹی کی قیمتوں میں جو اضافہ ہوا ہے وہ انسانی خیال سے بھی باہر ہے اور اس کا بظاہر کوئی جواز بھی سمجھ نہیں آتا کہ بیٹھے بیٹھے بغیر کسی معاشی ہل جل کے آخر ایک پلاٹ ہر سال دو گنا قیمت کا کیسے ہو جاتا ہے۔ میرا مکان ہر روز مزید پرانا ہونے کے باوجود صرف سات آٹھ سال میں چار گنا مالیت کا کیسے ہو گیا ہے؟
لوگوں کے پاس کالادھن ہے اور بے انداز ہے۔ اب ان کالے دھن والوں کے سامنے صرف ایک میدان رہ گیا ہے کہ وہ اس ناجائز دولت سے پراپرٹی خریدیں۔ مکان لیں‘ پلاٹ خریدیں‘ پلازے بنائیں۔ مال مفت دل بے رحم کے مطابق حرام کی کمائی اور ناجائز دولت کو خرچ کرتے ہوئے دل میں وہ درد کہاں محسوس ہوتا ہے جو محنت سے کمائی ہوئی دولت خرچ کرنے میں ہوتا ہے۔ جس ملک میں مائیں بچوں کو بھوک سے نجات دلانے کے لیے گلا گھونٹ کر مار دیں‘ جہاں بے روزگار باپ بھوک سے بلکتے بچوں کو دیکھ کر ٹرین کے آگے لیٹ جائے۔ جہاں ماں اپنے بھوکے بچوں سمیت نہر میں کود جائے اور باپ گھر کی بنیادی ضروریات تک دسترس نہ رکھنے کے دکھ میں زہریلی دوائی پی لے وہاں حکمرانوں کو ڈیڑھ ڈیڑھ کروڑ روپے مالیت کے چھ ہزار پلاٹ بیچتے ہوئے شرم آنی چاہیے۔ یہ سارا منصوبہ ملی بھگت ہے اور معاملات پہلے سے طے ہو چکے ہیں۔ معاملات وہ نہیں جو بظاہر نظر آ رہے ہیں۔ متعلقہ ادارہ تو صرف آلۂ کار ہے۔ یا یوں سمجھیں ٹشو پیپر ہے جسے استعمال کیا جا رہا ہے۔ سمری وغیرہ سارا فراڈ ہے۔ جس کو نوازنا ہے وہ طے شدہ ہے اور کس نے کتنا کتنا حصہ وصول کرنا ہے یہ بھی طے شدہ ہے۔ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ہے۔ تھوڑے وقت میں بہت سے کام اور منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچانے ہیں۔ کل کس نے دیکھا ہے۔
اس ملک میں گزشتہ دو دہائیوں سے صرف اور صرف کالونیاں بن رہی ہیں‘ پلازے بن رہے ہیں‘ انویسٹر پراپرٹی میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ بڑے بڑے رہائشی منصوبے بن رہے ہیں‘ اگر نہیں بن رہے تو ادارے نہیں بن رہے۔ قومی سطح کے منصوبے نہیں بن رہے۔ لے دے کر چند بجلی گھر بن رہے ہیں مگر جہاں بننے چاہئیں وہاں نہیں بن رہے اور جیسے بننے چاہئیں ویسے نہیں بن رہے۔ اس پر جلد ہی کچھ لکھوں گا مگر فی الحال معاملہ پلاٹوں کا آن پڑا ہے۔
حضور! اس ملک کو پلاٹ دینے کے لیے اور کافی لوگ موجود ہیں۔ براہ مہربانی آپ وہ کام کریں جو حکمرانوں کو زیب دیتے ہیں اور جس کے لیے آپ کو عوام نے منتخب کیا ہے۔ شہروں کے آس پاس کوئی جگہ فروخت کیے بغیر چھوڑ دیں۔ اس صورتحال میں ایک غزل کے دو شعر ؎
کبھی تو محیط حواس تھا‘ سو نہیں رہا
میں تیرے بغیر اداس تھا‘ سو نہیں رہا
میری وسعتوں کی ہوس کا خانہ خراب ہو
میرا گائوں شہر کے پاس تھا‘ سو نہیں رہا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved