میڈیا جمہوریت کے استحکام اور ملکی فلاح و بہبود کے لیے کام کرے... نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''میڈیا جمہوریت کے استحکام اور ملکی فلاح و بہبود کے لیے کام کرے‘‘ کیونکہ ہم دیگر مفید اور ضروری کاموں میں مصروف ہیں اور سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں ہے جس کے لیے الگ سے آدمی تعینات کرنا پڑے ہیں اس لیے میڈیا‘ جسے سوائے مکھیاں مارنے کے اور کوئی کام نہیں ہے‘ یہ فرض بخوبی ادا کر سکتا ہے‘ البتہ مکھیوں کے بارے میں وضاحت کر دوں کہ یہ کراچی کی مکھیاں نہیں ہیں بلکہ ناک پر بیٹھنے والی مکھیاں ہیں جنہیں بیٹھنے کے لیے شاید اور کوئی جگہ دستیاب نہیں آتی‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے‘‘ جبکہ باقی تینوں ستون ماشاء اللہ ہم خود ہی ہیں اور اسی لیے سارا خانوادہ اس کارِ خیر میں شریک ہے‘ اور بہت اچھے نتائج برآمد ہو رہے ہیں‘ کم از کم اخباری اشتہارات سے یہی ظاہر ہوتا ہے‘ ویسے صحافت کو بھی چوتھا ستون تکلفاً ہی کہا گیا ہے ورنہ ہم چوتھے ستون کا کام بھی خود ہی اور بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''حکومت پریس کی آزادی کو بڑی اہمیت دیتی ہے‘‘ جس سے حکومت کی فیاضیوں کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہمارے پرنٹ میڈیا کے کردار میں پختگی آ گئی ہے‘‘ جسے مزید پختگی سے سرفراز کرنے کے لیے بعض حضرات کا خصوصی تعاون بھی ہمیں حاصل ہے جبکہ خاکسار کے صوابدیدی فنڈ میں بھی کافی گنجائش رکھی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''صحافیوں کے مسائل مختصر مدت میں حل کر دیئے جائیں گے‘‘ بس ذرا بجلی کے معاملات سے فراغت حاصل ہونے کی دیر ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں اے پی این ایس کے وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔
زمینوں کے محکموں پر چھاپے مار کر رینجرز اپنے دائرۂ اختیار سے باہر نہ نکلیں... قائم علی شاہ
وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ ''زمینوں کے محکموں پر چھاپے مار کر رینجرز اپنے دائرۂ اختیار سے باہر نہ نکلیں‘‘ کیونکہ یہ سارا ہمیں بے روزگار کرنے کا پروگرام ہے تاکہ ہمیں دو وقت کی روٹی سے بھی محروم کردیا جائے کیونکہ ہم لوگوں کی ساری گاڑی انہی محکموں کے بل بوتے پر ہی تو چل رہی ہے اور اس فہرست میں جن جن شرفاء کے نام شامل ہیں وہ کچھ کم قابلِ احترام ہستیاں نہیں ہیں‘ اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اس سے زیادہ قابلِ احترام ہستیوں کے نام بھی آ سکتے ہیں اور زرداری صاحب کی فکرمندی بے جا نہیں ہے جس کی وجہ سے انہیں فوج کو خبردار کرنا پڑا اور پارٹی نے ابھی سے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی مشق شروع کردی ہے بشرطیکہ اس سے پہلے خدانخواستہ ہماری ہی اینٹ نہ بجا دی جائے جس کا خطرہ ہر وقت موجود ہے بلکہ خاکسار کی تو ویسے بھی چھٹی ہونے والی ہے اور میری جگہ خورشید شاہ صاحب کو لایا جا رہا ہے جو مذکورہ محکموں کے حوالے سے زیادہ اور بہتر خدمت سرانجام دینے کی کوشش کریں گے تاکہ پارٹی قیادت کا روزگار بھی قائم رہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ٹیررازم ایکٹ کے تحت رینجرز کو دہشت گردی اور سنگین جرائم کی روک تھام کے اختیارات دیئے گئے ہیں‘‘ جبکہ لینڈ مافیا جیسے معصوم لوگوں کی ہلکی پھلکی کارروائیاں سنگین جرائم کی زد میں نہیں آتیں اور اگر ان وسائل کو دہشت گردی کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے تو دہشت گردوں کو اس سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ ان کے ذرائع آمدنی اس کے علاوہ بھی بہت سے ہیں۔ آپ اگلے روز کراچی سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
متوقع فیصلہ؟
آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے جن کے بارے میں درخواست دہندگان کا دعویٰ ہے کہ یہ بنیادی آئینی ڈھانچے ہی کے خلاف ہیں جبکہ پچھلے دنوں حکومت نے فوجی عدالتوں میں توسیع کی قرارداد بھی منظور کر لی ہے اور پارلیمنٹ میں جس پر ایم کیو ایم نے شدید اعتراضات کیے اور وزیر دفاع کے ساتھ گرمی سردی بھی رہی۔ ان درخواستوں کی سماعت کے دوران عدالت کے جو ریمارکس سامنے آ رہے ہیں‘ ان سے تو لگتا ہے کہ یہ منظور کر لی جائیں گی جبکہ آج کی عدالتی آبزرویشن بھی یہی تھی کہ فوجی عدالتوں میں ملزم کو آزادانہ دفاع کا حق حاصل نہیں؛ چنانچہ اگر یہ فیصلہ حکومت کے خلاف آ جاتا ہے تو حکومت اور دہشت گردی کا سر کچلنے میں مصروف سکیورٹی اداروں کے لیے حقیقی مشکلات پیدا ہونے کا پورا پورا خدشہ موجود ہے اور یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ حکومت اس صورتِ حال سے بچنے یا اس سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے کیا کرتی ہے‘ اور اگر نہیں کرتی تو دہشت گردی کے خاتمے کے کام کو زک پہنچنے کا خطرہ موجود رہے گا جبکہ اس ضمن میں کراچی کی صورت حال پہلے ہی کافی حد تک سیال ہو چکی ہے ع
دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اُچھلتا ہے کیا!
اور‘ اب خانہ پُری کے لیے یہ تازہ غزل:
شمار ہونا ہے یا بے شمار ہونا ہے
یہی ہمارا نہ ہونا ہزار ہونا ہے
لگی ہوئی ہے جو آنکھوں میں تیری آمدورفت
ابھی تو دل نے ترا رہگزار ہونا ہے
جہاں جہاں نہیں امکان تیرے آنے کا
وہاں وہاں بھی ترا انتظار ہونا ہے
ابھی تو اور بھی کرنا ہے خواہشوں نے ہجوم
ابھی تو اور بھی بے اختیار ہونا ہے
رُکیں گے کیا ترے دریا کے درمیان میں اب
کہ آر ہونا ہے یا ہم نے پار ہونا ہے
ابھی تو ہم نے اٹھانا ہے اور بھی نقصان
ابھی تو اور بہت کاروبار ہونا ہے
ہمارے خواب نے چلنا ہے کارواں بن کر
ہماری خاک نے آخر غُبار ہونا ہے
کبھی تو کرنا پڑے گا ہمارے ساتھ انصاف
کبھی تو آپ نے ایماندار ہونا ہے
ظفرؔ کے ہاتھ بھی خالی ہیں اور دل بھی، مگر
اسی نے آپ کا اُمیدوار ہونا ہے
آج کا مطلع
کسی طور سر سے اتاری ہے یہ
کہ گٹھڑی محبت کی بھاری ہے یہ