تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     19-06-2015

ایک ہار کے لیے!

یہ ایک ہار کی کہانی ہے برسوں پرانی۔ یقینا آپ نے بھی سنی ہو گی۔ ایک قصبے میں دو ہمسائیاں رہتی تھیں۔ ایک امیر اور دوسری غریب۔ غریب عورت نے کسی شادی پر جانا تھا۔ ہر عورت کی طرح اس کی خواہش بھی یہی تھی کہ وہ اس شادی پر بہت خوبصورت جوڑا پہنے، خوبصورت زیور پہنے اور سب سے حسین دکھائی دے۔ مگر اصل مسئلہ یہ تھا کہ وہ غریب تھی اور یہ سب کچھ خریدنے کی سکت نہیں رکھتی تھی۔ پھر اسے خیال آیا کہ اس کی امیر ہمسائی کے پاس جو ایک بے حد دلکش ہار ہے اگر وہ اسے مستعار دے دے تو، پرانے کپڑوں کے ساتھ بھی، وہ ہار ایسی چھب دکھلائے گا کہ نظریں خیرہ ہو جائیں گی۔ خیر اس نے وہ ہار مانگ کر شادی پر پہنا۔ وہ بے حد خوش تھی مگر اسی کی خوشی کو جیسے نظر لگ گئی۔ اس کا وہ مستعار ہار کھو گیا۔ اب غریب ہمسائی کی جان پہ بن آئی کہ اتنا قیمتی ہار گم ہو گیا ہے، وہ اپنی ہمسائی کو کیا جواب دے۔ پھر اس نے فیصلہ کیا کہ وہ محنت کر کے پیسے کمائے گی، پیسے جوڑے گی اور سونے کا ایسا ہی قیمتی ہار خرید کر اپنی ہمسائی کو واپس کرے گی۔ اس دن سے غریب ہمسائی کے لیے ایک آزمائش کا دور شروع ہوا۔ وہ دن رات محنت کرتی، لوگوں کے کام کرتی، اسے کھانے پینے کا ہوش نہ تھا، وہ ایک ایک پائی جمع کر رہی تھی تاکہ جلد از جلد وہ قیمتی ہار خریدنے کے قابل ہو سکے۔ پھر ایک روز اس کے پاس اتنی رقم جمع ہو گئی کہ وہ ہار خرید لے، مگر تب تک وہ خود بیمار، کمزور اور بدتر حال کو پہنچ چکی تھی۔ بہرحال وہ جوہری کے پاس گئی اور ویسا ہی قیمتی ہار خرید
کر اپنی امیر ہمسائی کے پاس گئی ۔وہ اسے اتنے عرصے کے بعد بدحال دیکھ کر حیران تھی مگر اس کے ہاتھ میں ایک قیمتی سونے کا ہار پکڑا ہوا تھا۔ غریب ہمسائی نے کہا، اتنے عرصہ محنت مزدوری کر کے پیسے جمع کرتی رہی کیونکہ مجھ سے تمہار قیمتی ہار کھو گیا تھا۔ مگر آج میں تمہارے لیے ویسا ہی ہار لے کر آئی ہوں۔ امیر ہمسائی کے چہرے پر حیرانی کی پرچھائیاں ابھریں اور ساتھ ہی تاسف بھری مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ وہ بولی ''بہن تمہیں کس نے کہا وہ ہار قیمتی ہے۔ وہ تو نقلی ہار تھا جس کی قیمت چند روپے سے زیادہ نہ تھی‘‘۔
ہار کی ہی ایک اور کہانی آج کل ہمارے میڈیا میں چل رہی ہے۔ ہار کی چمک دمک صرف غریب ہمسائی کے حواس ہی گم کر نے کی صلاحیت نہیں رکھتی بلکہ ہار اگر اصلی اور قیمتی ہو تو پھر بڑے بڑوں کی عقل گم ہو جاتی ہے۔ انہیں اپنے مرتبے، عہدے کا لحاظ بھول جاتا ہے۔ جس طرح ایک ہار کے لیے غریب ہمسائی کی زندگی چین، سکون، عزت و آرام سب سے عاری ہو جاتی ہے اسی طرح ایک ہار کی خواہش میں، لوگ عزتِ سادات بھی بھلا دیتے ہیں یعنی اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی۔ جی ہاں بات ہو رہی ہے پاکستان کے سابق وزیراعظم جناب یوسف رضا گیلانی کی جو ایک بار پھر سے خبروں میں
ہیں اور اس کی وجہ ایک ہار ہے جو ایک معمہ بن چکا ہے کہ سیلاب زدگان کی امداد کے لیے ترکی کے صدر کی ہمدرد اور حساس دل اہلیہ نے اپنا قیمتی ہار پاکستان کے سیلاب زدگان کو دیا، تو وہ ہار سابق وزیراعظم کی اہلیہ محترمہ کے گلے کی زینت کیسے بنا۔ امداد کے ہار کو انہوں نے تحفہ کیسے سمجھ لیا۔ یوں بھی قانون اور ضابطے کے مطابق سربراہان مملکت کے درمیان، سرکاری حیثیت سے تحفے تحائف کا جو بھی تبادلہ ہوتاہے وہ ذاتی ملکیت نہیں بنتا بلکہ ملکی خزانے کا حصہ ہوتا ہے۔
اس ملک میں جہاں خبروں کی زنبیل سے روزانہ ایک سے ایک دھماکے دار سکینڈل اور دھانسو قسم کی دھواں دار کرپشن سٹوری برآمد ہوتی ہو، جہاں عالمی شہرت یافتہ، ایگزیکٹ سکینڈل پر ہر روز انکشافات سے بھرپور خبریں آتی ہوں، جہاں منی لانڈرنگ کیس کی گلیمرس تصویریں اور اوپن سیکرٹ خبریں اخبار کی ویلیو بڑھاتی ہوں، شہر کراچی کے سیاست خانے سے خبروں اور سکینڈلز کی وہ وہ قسمیں منظر عام پر آتی ہوں، جن کی رپورٹ کرتے ہوئے، رپورٹر کے پر جلنے لگیں، وہاں ایک ہار کی معصوم سی کرپشن سے کوئی سنسنی پیدا نہیں ہوتی اور پھر اس معصوم سی کرپشن کا تعلق سابق وزیراعظم جناب یوسف رضا گیلانی سے ہو تو پھر اس انکشاف پر جو تھوڑی بہت حیرت ہوتی ہے وہ بھی جھاگ کی طرح بیٹھ جاتی ہے کہ موصوف اقتدار کے کوچے سے بس یہی ایک داغ ندامت لے کر نکلے تھے اور جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آنے والی روایت کو زندہ رکھا۔ اس کے بعد یہ خبریں بھی آتی رہیں کہ وزیراعظم پاکستان کی حیثیت سے غیر ملکی دوروں پر انہیں جو تحائف ملتے رہے ان میں جو انہیں اور اہلیہ کی حسِ جمالیات کو بھایا وہ بھی ہمراہ لے گئے۔ اس وقت بھی بس یہی ہوا کہ چند دن خبریں آئیں اور پھر گیلانی عہد حکومت کے ساتھ ساتھ یہ سب بھی قصۂ پارینہ بن گیا۔ ہار کی اس نئی خبر نے پرانی کہانیوں کو پھر سے تازہ کر دیا ہے۔
ہاں اس انکشاف سے کہ ترکی کے صدر کی حساس دل ہمدرد اہلیہ نے ایک جذبۂ انسانی کے تحت جو ہار سیلاب کے مصیبت زدگان کے لیے دیا تھا وہ ہمارے سابق وزیراعظم کی اہلیہ کے زیورات والے ڈبے میں موجود ہے، اگرچہ کوئی بڑی سنسنی خیزی تو پیدا نہیں ہوئی مگر سچی بات ہے کہ بحیثیت پاکستانی سرشرم سے جھک ضرور جاتا ہے، اس خواہش پر ندامت ہوتی ہے جس نے انہیں یہ حرکت کرنے پر مجبور کیا اور جب یہ سوچیں کہ طیب اردوان کی اہلیہ وہ ہمدرد دل خاتون اس افسوس ناک انکشاف پر پاکستان اور پاکستانیوں کے بارے میں کیا سوچتی ہوں گی؟اخلاقیات، اصول، روایت، انسانیت۔ کیا ہمارے حکمران ان سب سے بے نیاز ہیں؟
اس ہار کی وضاحت کے لیے سابق وزیراعظم کا بیان بھی آ چکا ہے اور آج پیپلز پارٹی کے ذرائع سے بھی ایک وضاحت چھپی ہے۔ یہ سب کچھ صرف آئیں بائیں شائیں سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ ایف آئی اے نے اس واقعے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے، اس پر احتساب ضرور ہونا چاہیے۔ ایک احتساب پیپلز پارٹی کو بھی اپنے سابق وزیراعظم کا کرنا چاہیے اور ایک احتساب ملتان کے سید زادے کو خود اپنا ہی کرنا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ قدرت نے تو انہیں زندگی کے سفر میں وہ کچھ دیا جس کے شاید وہ اہل بھی نہ تھے مگر وہ رتبہ، وہ عزت، وہ مقام ان سے سنبھالا کیوں نہ گیا۔ انگریزی کی یہ کہاوت یقینا انہوں نے سن رکھی ہو گی۔
If Wealth is gone, Nothing is gone,
If Health is gone something is gone,
If Character is gone, every thing gone.
ملتان کے سید زادے کو سوچنا تو چاہیے کہ اس ایک ہار کے لیے انہوں نے کیا کچھ ہار دیا ہے!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved