تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     20-06-2015

پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی

حال ہی میں پاکستان اور بھارت کے سیاست دان ایک دوسرے کی طرف دھمکیوں اور الزامات کی بوچھاڑ اس طرح جاری رکھے ہوئے تھے جیسے فیڈرر اور رافیل نڈال بیس لائن سے سٹروکس کا تبادلہ کررہے ہوں۔ اگرچہ ہمارے سیاست دان ٹینس کے سٹار کھلاڑیوں جیسی گریس (Grace)اور چستی سے محروم ہیں لیکن وہ میڈیا کے ذریعے ایک دوسرے پر الزامات برسانے میں پوری طرح مستعدد رہتے ہیں۔ یہ کھیل کئی عشروںسے جاری ہے۔ اس سنجیدہ کھیل میں کچھ مزاحیہ موڑ بھی آجاتے ہیں، جیسے بھارت میں سرحد کے قریب محو ِ پرواز کبوتر کوپابند ِ سلاسل کرکے جیل میں بند کردیا گیا کیونکہ اُس پر مبینہ طور پر پاکستان کے لیے جاسوسی کرنے کا الزام تھا۔یہ مضحکہ خیز کارروائی یہ یاددلانے کے لیے کافی ہے کہ کس طرح پرانی دشمنی کی پختہ زنجیریں تعلقات کو جکڑے ہوئے ہیں۔ کشمیر اور دہشت گردی جیسے الفاظ اسلام آباد اور نئی دہلی کے ورد ِ زبان بن کر دلدل سے ہمہ وقت اٹھنے والی ناخوشگوار بو کی طرح حواس پر اس طرح چھائے رہتے ہیں کہ کچھ اور سجھائی نہیں دیتا۔
کئی برسوںسے میں اس اخبار اور بہت سے دیگر جرائد کے لیے لکھ رہاہوں اور میرے قاری جانتے ہیں کہ میں نے کسی بھی اور موضوع سے زیادہ ان دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان معمول کے تعلقات قائم کرنے کی ضرورت پر لکھا ہے، لیکن اب تک احساس گہرا ہوچکا ہے کہ ایسا میری زندگی میں ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ ایک ایسا وقت بھی تھا جب میں انڈیا سے زیادہ پاکستان کو مورد ِ الزام ٹھہراتا کہ وہ تعلقات کو معمول کی سطح پر لانے میں پس وپیش سے کام لے رہا ہے، لیکن اب میں دیکھتا ہوں کہ اس میں بھارتی پالیسیوں اور رویے کا زیادہ عمل دخل ہے۔ یواین فارمولے سے ہٹ کر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مشرف کے آئوٹ آف دی باکس فارمولے، جسے بھارت نے مستردکردیا، کے بعد سے اس ضمن میں کوئی نئی پیش رفت دکھائی نہیںدی؛ چنانچہ یہ معاملہ جمود کا شکار ہے۔
بھارت کی طرف سے یہ مبہم مطالبہ کہ مذاکرات شروع کرنے سے پہلے پاکستان اپنی سرزمین پر موجود دہشت گرد گروہوںکے خلاف کارروائی کرے،ناقابل فہم ہے اور اس سے مسائل حل ہونے کی طرف مطلق پیش رفت نہیں ہوگی۔یہ مانا کہ ممبئی حملوں نے کروڑوں بھارتیوںکو لرزا کررکھ دیاتھا لیکن یہ بات بھارتی پالیسی ساز اور میڈیا اور اس کے ذریعے عام بھارتی بھی جانتے ہیں کہ پاکستان ان گروہوں کے خلاف زندگی موت کی جنگ لڑتے ہوئے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔
اصل اور بنیادی بات یہ ہے کہ انڈیا موجودہ صورت ِحال سے مطمئن ہے اور اگر نئی دہلی کے لیے کوئی چیز تشویش ناک ہے تو یہ کہ وہ زمینی راستے سے افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوںکے ساتھ تجارت کرنے کے قابل نہیں ہے۔ دوسری طرف پاکستان نے یہ بات واضح الفاظ میں بتارکھی ہے کہ اس کے بارڈر بھارتی ٹرکوں کے لیے صرف اُسی وقت کھلیں گے جب بھارت تمام تنازعات کے مربوط تصفیے پر رضا مند ہوگا۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ تجارت دونوں ممالک کے لیے معاشی طورپر فائدہ مند ہے اور اس سے سرحدپار لاکھوں افراد کی زندگیوں میں آسانی آسکتی ہے مگر ایسے امکانات حکمرانوں کی ترجیح کبھی نہیں رہے۔ دونوں طرف کے شہریوں کے لیے دوسرے ملک کا سفراختیار کرنا آج بھی اتناہی دشوار ہے جتنا پہلے تھا۔ درحقیقت دونوںممالک پہلے سے زیادہ ایک دوسرے سے دور ہوچکے ہیں۔
ایک وقت تھا جب پاکستانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو اپنے بھاری بھرکم بجٹ کے لیے بھارتی خطرے کا جواز فراہم کرنا پڑتاتھا، لیکن اب جہادی گروہ بھارت کی جگہ ہمارے دشمن نمبر ون بن چکے ہیں‘ لہٰذا ہمیں بھارتی جارحیت کا ہوّا کھڑا کرنے کی ضرورت نہیں۔ سرحد پار، بھارت کے پاس بھی بھاری بھرکم فوجی اخراجات کے لیے چین کا بہانہ موجود ہے۔ اب چونکہ دونوں ممالک کے پاس فوجی اخراجات کے لیے اپنے اپنے معقول جواز موجود ہیں، اس لیے کم از کم اسی نکتے کو دیکھتے ہوئے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اسلام آباد اور نئی دہلی باہمی تعلقات کو معمول کی سطح پر لانے میں کوئی قباحت نہیں سمجھیں گے۔ لیکن یہ بھی اپنی جگہ پر حقیقت ہے کہ عشروںسے پروان چڑھنے والی ذہنیت آسانی سے تبدیل نہیں ہوتی۔ چند سال پہلے ایک حاضر سروس جنرل سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ اس بات کا تصور بھی مشکل ہے کہ بھارت کسی اشتعال کے بغیر ہم پر حملہ آور ہوجائے گا۔ اُن کا جواب تھا کہ فوج نے دشمن کی حملہ کرنے کی صلاحیت پر نظر رکھنی ہوتی ہے، نیت اور ارادوں پر نہیں۔مجھے یقین ہے کہ اگر کسی بھارتی فوجی افسر سے چین کے حوالے سے یہ سوال کیا جاتا تو اُس کا جواب بھی یہی ہوتا۔
اس عرصے میں ایک تبدیلی ضرور آئی‘ وہ یہ کہ بھارتی رائے عامہ پاکستان کے حوالے سے سخت لب ولہجہ اختیار کرچکی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ انتہائی قوم پرست بھارتی میڈیا کی جلتی پر تیل گرانے کی پالیسی ہے۔ یہی ''میڈیا ہاک‘‘ سرحد کے دونوں طرف موجود ہیں اور پنجہ آزمائی کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ان حقائق کا جائزہ لینے کے لیے کہ حالیہ برسوں میں نفرت کا توازن کس حدتبدیل ہوا ہے، پاکستان کے 2013ء کے انتخابات کو ایک مثال کے طور پر لے لیں۔ یہاں نواز شریف صاحب نے اپنا انتخابی وعدہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا قراردیا اور کامیاب ٹھہرے۔ تاہم بھارتی انتخابات میںآج ایسا منشور کسی بھی رہنما کویقینی طور پر ووٹوںسے محروم کردے گا۔ حال ہی میں اسلام آباد میں ہونے والی ایک کانفرنس میں شریک ایک بھارتی خاتون نے لکھا کہ جب وہ پاکستان آئی اور لوگوں کو پتہ
چلا کہ اُن کا تعلق بھارت سے ہے تو اُنھوں نے اُسے بے پناہ اپنائیت دی۔ اُن کے ساتھ بہت دوستانہ انداز میں برتائو کیا گیا۔ اپنے آرٹیکل کے اختتام پر وہ لکھتی ہیں کہ پاکستان سے بھارت آنے والے سیاح کو یہاں اُس اپنائیت اور گرم جوشی کاعشر عشیر بھی نہیں ملے گا۔ اگر مسئلہ یہیں تک ہی محدود ہوتا تو کوئی بات نہ تھی، کیونکہ پاکستانیوں اور بھارتیوں کی نئی نسل مشترکہ تاریخ اور ثقافت سے لاعلم ہے‘ اس لیے گرم جوشی کی کمی کونظر انداز کیا جاسکتا تھا، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سرحد کے دونوں طرف خوفناک اسلحے کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک کے اسلحہ خانوں میں ایٹمی ہتھیاروں کے اضافے نے پوری دنیا کو تشویش میں مبتلا کررکھا ہے۔ پاکستان نے حال ہی میں ایٹمی ہتھیارلے جانے کی صلاحیت رکھنے والے شارٹ رینج میزائل (صر ف 35 میل تک) فوج کے حوالے کیے ہیں۔ صرف 35 میل کے فاصلے پر ایٹم بم پھینکنا بظاہر خودکشی کے مترادف معلوم ہوتا ہے، لیکن اس سے پاکستان کا ارادہ بہت واضح دکھائی دیتا ہے۔ ایسے ہتھیاروں کے استعمال سے نہ صرف دشمن کی بڑھتے ہوئے فوجی دستوں کو تباہ کیا جائے گا بلکہ بھاری شہری ہلاکتیں بھی ہوں گی۔ ہلاکتوں کے بعد عشروں تک زمین تابکاری سے آلودہ رہے گی۔ ان حالات میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جہاںتک ممکن ہوسکے امن کوموقع ملنا چاہیے، لیکن امن کے لیے ووٹ دینے والوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔ سرحد کے دونوں طرف سرگرمِ عمل جنگجو میڈیا اورانتہائی جوشیلے سیاست دانوں کے ہوتے ہوئے امن کی خواہش کا پورا ہونا ممکن نہیں، بس یہی امید کی جانے چاہیے کہ لفظی تصادم کی جگہ ہتھیار نہیں لے لیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved