ہمارے نوجوان لڑکے کو جبراً مسلمان بنالیا اور قید میں رکھا ہوا ہے۔گمشدگی کے اگلے دن ایک مقامی ٹی وی چینل پر یہ خبر چلی کہ پون کمار ولد گوپال داس نے اپنی رضا و خوشی سے اسلام قبول کرلیا ہے۔یہ دعویٰ سندھ کے علاقے ٹنڈو الہ یار میں ایک ہندو خاندان کا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے ایک نوعمر لڑکے کو علاقے کی خانقاہ کے نگران نے اغوا کرنے کے بعد جبراً مسلمان بنالیا ہے اور اسے اپنی قید میں رکھا ہوا ہے جبکہ ٹنڈوالہ یار پولیس کہتی ہے کہ خانقاہ کے نگران کے بقول پندرہ سالہ پون کمار‘ مقامی عدالت کے سامنے تبدیلیِ مذہب کی تصدیق کرچکا ہے اور یہ کہ وہ اس کی بازیابی کے لیے کوششیں کررہے ہیں۔پون کے دادا کے چھوٹے بھائی 63 سالہ رتن لال لالوانی ‘ٹنڈوالہ یار کی ہندو پنچایت کے صدر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پون 15 جون کو کرکٹ کھیلنے گیا تھا اور جب وہ شام تک واپس نہیں لوٹا‘ تو گھر والوں نے اْسے کال کی مگر اس کا موبائل فون رات دس ساڑھے دس بجے تک بند مل رہا تھا۔رات پونے گیارہ بجے اس کے نمبر سے کال آئی اور بولا کہ کچھ لوگ ہیں جو مجھے چھوڑتے نہیں ہیں۔ یہ کہہ کے اس نے کال بند کردی۔رتن لال لالوانی نے کہا کہ انہوں نے اسی رات پولیس کو رپورٹ کی‘ جس کے بعد پولیس نے کال کو ٹریس کرکے پتہ چلایا کہ پون‘ ضلع عمرکوٹ کے علاقے سامارو کی ایک خانقاہ کے سجادہ نشین پیر ایوب جان سرہندی کی حویلی میں ہے۔انہوں نے کہا کہ گمشدگی کے اگلے دن ایک مقامی ٹی وی چینل پر یہ خبر چلی کہ پون کمار ولد گوپال داس نے اپنی رضا و خوشی سے اسلام قبول کرلیا ہے۔لالوانی نے کہا کہ اصل میں تو اغوا کی واردات ہوئی ہے‘ جسے چھپانے کے لیے انہوں نے اسلام کا حوالہ دے کر‘ اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کی ہے کیونکہ مدرسے تو ہمارے ٹنڈوالہ یار میں بہت ہیں۔ اگر اسے مسلمان ہونا تھا تو اپنے علاقے میں ہی ہوجاتا‘ وہ 70 سے 80 کلومیٹر دور جاکے مسلمان ہوگیا۔ یہ کیسے ممکن ہے؟پون کے خاندان کا کہنا ہے کہ انہوں نے واقعے کی ایف آئی آر درج کرانے کے لیے پولیس کو درخواست دے رکھی ہے‘ مگر اب تک مقدمہ درج نہیں ہوا جبکہ خانقاہ کے سجادہ نشین‘ بچے سے ان کی ملاقات کرانے کے بجائے مسلسل ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں۔رتن لال لالوانی نے کہا کہ ملاقات کرادو۔ اگر آپ نے مسلمان کرلیا ہے تو اسے آزاد کرو‘ تاکہ وہ جہاں چاہے چلا جائے۔ مسلمان کرنے کے بعد آپ کو قید کرکے رکھنے کا اختیار ہے کیا؟ تو اس پر کہتے ہیں کہ بھئی ہم اس کے محافظ ہیں۔ چلو آپ محافظ بھی ہو تب بھی اس کے گھر والوں سے ملاقات تو کرائو۔پون نے حال ہی میں میٹرک پاس کرنے کے بعد علاقے کے ایک نجی سکول میں گیارہویں جماعت میں داخلہ لیا تھا۔
پیر ایوب جان سرہندی نے پون کو اغوا کرکے قید میں رکھنے اور جبراً اسلام قبول کرانے کے الزامات کی تردید کی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ پون اْن کے پاس آنے سے پہلے ہی مسلمان ہوچکا تھا اور انہوں نے تو اسے محض مسلمان ہونے کی سند جاری کی تھی اور اب انہیں نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہے؟پیر ایوب جان سرہندی کہتے ہیں کہ ٹنڈوالہ یار میں میرے مدارس ہیں اور میرے مرید ہیں۔ میں وہاں جلسوں میں آتا جاتا رہتا ہوں تو تقریباً پانچ چھ مہینوں سے ایک باریش نوجوان مسلسل میرے پاس آتا تھا اور کہتا تھا کہ میں مسلمان ہوچکا ہوں اور مجھے مہربانی کرکے آپ اپنے پاس رکھیں اور مجھے دینی تربیت دیں۔جبکہ لال رتن لالوانی کا کہنا ہے کہ اصل میں تو اغوا کی واردات ہوئی ہے جسے چھپانے کے لیے انہوں نے اسلام کا حوالہ دے کر اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کی ہے۔ٹنڈوالہ یار پولیس کے سربراہ جاوید بلوچ نے اس بات کی تصدیق کی کہ یہ معاملہ ان کے علم میں ہے اور وہ فریقین سے رابطے میں ہیں۔ میں نے یہ معاملہ ایک ڈی ایس پی کے سپرد کردیا ہے جو خود جاکے معاملے کو دیکھیں گے۔ ہماری طرف سے جتنی مدد ہوگی‘ ہم کریں گے۔انہوں نے کہا کہ سرہندی کا کہنا ہے کہ پون نے عمرکوٹ کی عدالت کے سامنے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 164 کے تحت بیان ریکارڈ کرایا ہے کہ اب وہ مسلمان ہوچکا ہے‘ مگر انہوں نے کہا کہ پاکستانی قانون کے تحت اٹھارہ برس سے کم عمر بچے کا دفعہ 164 کے تحت بیان ریکارڈ کیا ہی نہیں جاسکتا۔تو میں نے اْن سے کہا کہ یہ تو 15 سال کا بچہ ہے‘ اس میں اتنا سینس تھوڑی ہے کہ وہ اس طرح کا بیان دے۔انہوں نے کہا کہ سرہندی نے خود ان کے ساتھ گفتگو میں اعتراف کیا ہے کہ پون ان کے پاس ہے اور اگر وہ جلد ہی لڑکے کو سامنے نہیں لائے تو پولیس ان کے خلاف مقدمہ درج کرکے قانون کے مطابق کارروائی کرے گی۔
یہ سارا واقعہ ہی پر اسرار لگتا ہے۔ ملکی قانون خواہ کچھ ہو لیکن شرع میں عمر کی کوئی پابندی نہیں۔ جس عمر میں چاہے‘بچہ رضا مندی سے مسلمان ہو سکتا ہے اور جب اس نے خود کہا کہ میں مسلمان ہو چکا ہوں اور مجھے دین کی تعلیم دیں اور وہ ہیں بھی مدرسے چلانے والے عالم دین تو اس میں کوئی چیز بھی غلط نہیں۔البتہ یہ بات واضح نہیں کہ پیر ایوب جان سرہندی نے اسے زبردستی رکھا ہوا ہے یا وہ بہ رضا و رغبت ان کے پاس مقیم ہے کیونکہ لڑکے کے والدین کے بیان سے یہ لگتا ہے کہ اسے گھر والوں کے پاس نہیں جانے دیا جا رہا۔اس میں قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ مگر خرابی یہ ہے کہ پولیس‘لڑکے کا بیان ہی ریکارڈ نہیں کر رہی۔ ان دو باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ سرہندی صاحب‘ اثرو رسوخ والے آدمی ہیں اور پولیس قانون کے مطابق ایف آئی آر لکھنے کو تیار نہیں اور نہ ہی یہ پتہ چلتا ہے کہ والدین‘ اس معاملے کی پیروی کر رہے ہیں یا نہیں۔بتائے گئے واقعات کے مطابق‘ ایک بار ٹیلی فون پر پون کمار سے رابطہ ہوا۔ اس نے صرف یہ کہہ کر فون بند کر دیا کہ کچھ لوگ ہیں‘ جو مجھے چھوڑتے نہیں۔اس سے تو ظاہر ہوا کہ اسے زبردستی رکھا گیا ہے اور اسے آنے جانے کی آزادی حاصل نہیں۔یہ بھی واضح نہیں کہ لڑکے کا باپ‘ خود شکایت لے کر پولیس کے پاس گیا ہے یا نہیں؟ بیان کردہ واقعات کے مطابق‘ اس کہانی میں کئی سوالوں کے جواب نہیں ملتے۔اسی وجہ سے یہ کہانی پراسرار ہو گئی ہے۔یہ انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔یہ واقعہ اخبار میں آنے کے بعد‘ ضرور عوام کے علم میں آئے گا۔مناسب یہ ہوگا کہ چند علمائے کرام‘ اس معاملے کو اپنے ہاتھ میں لیں۔ اگر لڑکا خود یہ کہتا ہے کہ اسے زبردستی مسلمان بنا کر رکھا گیا ہے تو اس کی شرعی حیثیت نہیں رہ جائے گی۔ سرہندی صاحب کو چاہئے کہ اسے آزادی دیں‘ وہ اپنی مرضی کے ساتھ‘والدین کے پاس جانا چاہتا ہے تو اسے جانے دیا جائے اور اگر وہ‘ دینی تعلیم حاصل کر نے کا خواہش مند ہے تو اسے یہ آزادی ملنی چاہئے۔ اسلام میں بچہ اس وقت بالغ ہو جاتا ہے جب اس کے زیر ناف بال آجائیں اور بچی اس وقت بالغ ہو جاتی ہے جب اسے پہلی مرتبہ حیض آجائے۔عمر کی کوئی شرط نہیں۔ اس معاملے میں بچے کی آزادی ضروری ہے۔ اس پر آمدورفت کی کوئی پابندی‘ جبر ہے تو دین میں جبر کی اجازت نہیں۔یہ بات سرہندی صاحب بھی یقینا جانتے ہوں گے۔ مناسب یہی ہے کہ بچے کو آزاد کریں اور اگر وہ آزاد ہونے کے بعد اصرار کرتا ہے کہ وہ مسلمان ہو چکا ہے تو پھر یہ کسی کو حق نہیں کہ اسے قبول کیا ہوا دین چھوڑنے پر مجبور کیا جائے۔اسلام کی رو سے وہ مسلمان ہو چکا ہے۔