یہ رپورٹ 1980ء کی دہائی کے بعد ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے سامراجی مالیاتی اداروں کی جانب سے نافذ کی جانے والی نیو لبرل معاشی پالیسیوں پر سوالیہ نشان کھڑا کر رہی تھی لہٰذا ان اداروں کی ''ریپو ٹیشن‘‘ سخت خطرے میں پڑگئی۔ چنانچہ اس خبر کو دبا کر کچھ عرصے بعد نئی کہانی کچھ یوں پیش کی گئی کہ ''گزشتہ دو صدیوں سے اگرچہ غربت مسلسل بڑھ رہی تھی لیکن آزاد منڈی کی پالیسیوں کے نفاذ کے بعد 1981ء سے 2001ء تک غربت میں گھرے انسانوں کی تعداد میں 40کروڑ کی کمی ہوئی ہے‘‘۔ اس افسانے کو 'حقیقت‘کا روپ دینے کے لیے ورلڈ بینک نے غربت کا پیمانہ ہی تبدیل کر دیا۔ عالمی خطِ غربت کو 1985ء کے ایک ڈالر کی قوتِ خرید سے تبدیل کر کے 1993ء کے ایک ڈالر کی قوتِ خرید مقرر کر دیا گیا۔ افراطِ زر اور ڈالر کی قدر میں کمی کے پیش نظر نیا خطِ غربت اتنا نیچے گر گیا کہ کروڑوں انسان ویسے ہی اس سے بلند ہو گئے ۔ بعد ازاں یہی خطِ غربت MDGsکے لیے منتخب کیا گیا لیکن ''غربت میں مزید کمی‘‘ کے لیے 2008ء میں اسے پھر تبدیل کر کے 2005ء کے 1.25ڈالر کی قوت خرید پر منتقل کر دیا گیا اور راتوں رات 12کروڑ مزید افراد کو غربت سے نجات دلا دی گئی۔
آج بھی 2008ء میں مقرر کیا جانے والا یہی خط غربت استعمال کیا جاتا ہے جس کے مطابق 2005ء میں امریکہ میں 1.25ڈالر کے مساوی قوت خرید رکھنے والا انسان غریب نہیں ہے۔ امریکہ کا کوئی بھی شہری بتا سکتا ہے کہ اس آمدن پر انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔ 2005ء میں امریکی حکومت کی اپنی رپورٹ کے مطابق صرف خوراک کی بنیادی ضروریات کے لیے بھی 4.50 ڈالر یومیہ درکار تھے۔ اسی طرح ہندوستان میں اس خط غربت سے کچھ اوپر زندگی گزارنے والے 60 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ 1990ء میں سری لنکا کی حکومت کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کی 35 فیصد آبادی غربت میں زندگی گزار رہی تھی جبکہ اسی سال ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق سری لنکا میں غربت کی شرح صرف 4 فیصد تھی۔ پاکستان میں کچھ عرصہ قبل ایس ڈی پی آئی کی جانب سے شائع کی جانے والی رپورٹ کے مطابق آٹھ ہزار افراد یومیہ خط غربت سے نیچے گر رہے ہیں اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے خود تسلیم کیا ہے کہ 60 فیصد آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے‘ لیکن ورلڈ بینک کے خط غربت کے مطابق صرف 12فیصد آبادی غربت کا شکار ہے‘ یعنی اعداد و شمار میں ہر ممکنہ ہیر پھیر کے بعد ریاستیں جس حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں، ورلڈ بینک جیسے ادارے اس پر بھی پردہ ڈالنے میں مصروف ہیں۔
سرمایہ داری کے عالمی پولیس مین امریکہ کی بات کی جائے تو سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پانچ کروڑ افراد غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ 2008ء کے بعد سے یورپ میں بھی ''فلاحی ریاست‘‘ منہدم ہو رہی ہے، بیشتر یورپی ممالک میں وسیع بیروزگاری معمول ہے، ریاستی سہولیات چھینی جارہی ہیں، عوام کی آمدن سکڑ رہی ہے اور غربت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ دنیا کے ہر خطے میں کم و بیش یہی صورت حال ہے جبکہ سامراجی ادارے غربت میں بینظیر کمی پر شادیانے بجا رہے ہیں!
ورلڈ بینک کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کرنے والے 'ییل یونیورسٹی‘کے پروفیسر اور 'گلوبل جسٹس پروگرام‘ کے ڈائریکٹر تھامس پوگ کا کہنا ہے کہ ''(غربت میں کمی کا پروپیگنڈا) انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ یہ کس طرح سے ممکن ہے کہ غریبوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے لیکن بھوک بڑھتی جارہی ہے؟‘‘کچھ عرصہ قبل گلوبل پوسٹ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں ترقیاتی امور کے ماہر جول الیوٹ لکھتے ہیں کہ ''غربت کوئی قدرتی چیز نہیں۔ یہ پیدا کی جاتی ہے۔ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ڈبلیو ٹی او کا مقصد غربت کا خاتمہ نہیں بلکہ 'سٹیٹس کو‘ کو برقرار رکھنا ہے۔ انہیں چاہیے کہ یہ ڈھونگ اب بند کریں‘‘۔ اسی مضمون میں جول الیوٹ نے جنوبی کوریا کے ایک معیشت دان کی کتاب ''اوپر پہنچ کر سیڑھی کھینچ لو‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ''آج ترقی یافتہ شمار ہونے والے تقریباً تمام ممالک اس مقام پر سخت قسم کی ریاستی مداخلت کے نتیجے میں پہنچے ہیں۔ ان ممالک کی ریاستوں نے اپنی نومولود صنعت کی بیرونی سرمایہ کاروں سے حفاظت کی اور ٹیکنالوجی کو پروان چڑھانے میں مدد فراہم کی۔ اب جبکہ یہ ممالک (صنعتی اور معاشی طور پر )اوپر پہنچ گئے ہیں تو ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ڈبلیو ٹی او جیسے اداروں کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کو 'آزاد عالمی تجارت‘ کا درس دے رہے ہیں‘‘۔
کئی سنجیدہ بورژوا معیشت دانوں کے مطابق کم تر معیار پر زندہ رہنے کے لیے بھی 2.5 ڈالر یومیہ (موجودہ خط غربت سے دو گنا) درکار ہیں۔ اگر 2.5 ڈالر کو خطِ غربت مقرر کیا جاتا ہے تو اس سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد 3.1 ارب ہو جائے گی۔ یہ تعداد ورلڈ بینک کے تخمینے سے تین گنا زیادہ ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر غربت کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہے۔ تاہم کچھ معیشت دان 2.50 ڈالر سے بھی بڑھ کر 5 یا 10ڈالر یومیہ کا خط غربت تجویز کرتے ہیں۔ اس معیار پر خط غربت سے نیچے زندہ رہنے والوں کی تعداد 5.1ارب (کل انسانی آبادی کا 80فیصد) بنتی ہے!
مارکس نے سرمایہ داری کو ''بہتات کے بیچوں بیچ غربت‘‘ کے نظام سے تعبیر کیا تھا۔ غربت سرمایہ داری کے خمیر میں موجود ہے۔ چند ہاتھوں میں دولت کا ارتکاز سرمایہ دارانہ نظام کے ارتقا کا ناگزیر نتیجہ ہے جس کا مطلب انسانوں کی اکثریت کے لیے محرومی اور ذلت ہے۔ 2008ء کے بعد سے دولت کا ارتکاز کم ہونے کی بجائے تیز تر ہی ہوا ہے۔ آکسفیم کے مطابق 2016ء میں ایک فیصد آبادی کی دولت، باقی کی 99 فیصد آبادی کی مجموعی دولت سے تجاوز کر جائے گی۔ یہ صورت حال غمازی کرتی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام خود اپنے کلاسیکی اصولوں پر بھی چلنے سے قاصر ہے اور اس کا بحران گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ انسان کی روح کو بھی غریب کر دینے والا یہ نظام غربت کا کبھی بھی خاتمہ نہیں کر سکتا بلکہ ہر روز اس میں اضافہ کرے گا۔ قلت اور مانگ سے پاک انسانی سماج کی ضمانت فراہم کرنے والے ذرائع پیداوار کو آج نجی ملکیت نے یرغمال بنا رکھا ہے۔
نسل انسان آج ایک فیصلہ کن دوراہے پر کھڑی ہے۔ یہ نظام زر اپنی اس نیم مردار مگر خونخوار حالت میں مسلط رہا تو غربت اور اس سے جنم لینے والے انتشار کی شدت اتنی بڑھ جائے گی کہ پورا معاشرہ بربریت اور خونریزی میں غرق ہو جائے گا۔ تہذیب کے خاتمے سے انسانی سماج کا وجود ہی مٹ جائے گا۔ نام نہاد آزاد منڈی کا مطلب لوٹ مار اور استحصال کی آزادی ہے۔ زندگی کو زندگانی دینے والی بنیادی ضروریات کی پیداوار جب منڈی کی منافع خوری کی بنیاد پر ہو تو قوت خرید میں کمی، قلت، محرومی اور وسیع معاشی ناہمواری ناگزیر نتائج ہوتے ہیں۔ نسل انسان کی ہزاروں سال کی محنت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی ٹیکنالوجی اور جدید ذرائع پیداوار کو آج نجی ملکیت کے شکنجوں سے آزاد کر کے پورے سماج کی ضروریات اورفلاح کے تحت بروئے کار لانا لازم ہو چکا ہے۔ تاریخ کی یہ عظیم ترین تبدیلی صرف سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ممکن ہے۔