تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     21-06-2015

سرخیاں ‘متن اور اشتہار

یہ نہیں دیکھتے کس کی حکومت ہے
جمہوری استحکام چاہتے ہیں... زرداری
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''ہم یہ نہیں دیکھتے ‘ کس کی حکومت ہے‘ جمہوری استحکام چاہتے ہیں‘‘ اور خاص طور پر وہ استحکام جو صوبائی سندھ حکومت کو حاصل ہے اور جس میں رخنہ اندازی کی کوشش کی جا رہی ہے اور وزراء اور دیگر شرفاء کی خوشحالی کسی کو راس نہیں آ رہی۔ انہوں نے کہا کہ ''آئین کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں‘‘ جس میں روزی روٹی کے حصول پر کوئی قدغن نہیں لگائی گئی اور ہمارے سابقہ دور میں جملہ معززین اسی کار خیر میں مصروف رہے کیونکہ اپنے بچوں کو پالنا بھی ایک نیکی ہے اور اسی لیے بعض عمائدین یہ کار خیر بیوی بچوں سمیت سرانجام دیا کرتے تھے اور مختلف القابات سے بھی سر فراز ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ''سیاسی مفاہمت کی پالیسی جاری رہے گی‘‘ کیونکہ اگر میاں صاحب نے میرا ساتھ نہیں دیا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں بھی ان کاساتھ نہ دوں۔ انہوں نے کہا کہ ''پارلیمنٹ کی بالادستی مطمح نظر ہے‘‘ کیونکہ اپنی بالادستی کی کوشش میں تو بری طرح ناکام ہوا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ مجھے دھکا کس نے دیا تھا۔ آپ اگلے روز اپنے افطار ڈنر میں خطاب کر رہے تھے۔
اشیائے ضروریہ کی قیمتوں اور کوالٹی پر
کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا... شہباز شریف
وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''اشیائے ضروریہ کی قیمتوں اور کوالٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا‘‘ اور شرفاء کو اس سلسلے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں جبکہ عام لوگوں کے لیے تو اشیائے ضروریہ ہوتی ہی نہیں جو اتنے صابر و شاکر ہیں کہ ان کے بغیر بھی پوری ڈھٹائی سے جیے چلے جا رہے ہیں‘ علاوہ ازیں انہیں لوڈشیڈنگ کے خلاف مظاہروں سے ہی فرصت نہیں ملتی اس لیے اشیائے ضروریہ وغیرہ اگر ان کی ضرورت ہو بھی تو اس کے لیے انہیں وقت ہی کہاں ملتا ہے اور سمجھوتہ نہ کرنے کی بات ہر بیان میں اس لیے کی جاتی ہے کہ پہلے ہی مختلف معاملات پر اتنے سمجھوتے ہو چکے ہیں کہ لوگوں کو یقین ہی نہیں آ رہا کہ سمجھوتوں کے بغیر بھی حکومت کی گاڑی چل سکتی ہے جس کے لیے زرداری صاحب کے بیان کے بعد پہلے ہی کافی مسائل پیدا ہو چکے ہیں‘ اس لیے وہ گومگو کی حالت میں ہے اور زور دار طریقے سے فوج کی حمایت کر سکتی ہے اور نہ ہی زرداری کے بیان کی مذمت کیونکہ کوئی پتہ نہیں کہ کس وقت کیا ہو جائے جبکہ پہلے ہی ملک عزیز میں وہ کچھ ہو رہا ہے جو اس انداز اور شدت سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا‘ جس کی وجہ شاید یہ ہو کہ حکومت ہی اتنے طویل عرصہ کے بعد ملی ہے کہ اس کھیر کو ٹھنڈی کر کے کھانے کی بھی فرصت نہیں ہے جو اب ایسا لگتا ہے کہ کہیں ٹیڑھی کھیر ہی ثابت نہ ہو۔ آپ اگلے روز رمضان بازار کا غیر اعلانیہ دورہ کر رہے تھے۔
زرداری احتیاط برتیں‘ فوج کی دلآزاری
اچھی نہیں... پرویزرشید
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ''زرداری احتیاط برتیں‘ فوج کی دلآزاری اچھی نہیں‘‘ کیونکہ فی الحال ایسا ہی بیان دیا جا سکتا تھا جبکہ فوج اپنی دلآزاری کا قلع قمع کرنے کے لیے خود ہی کافی ہے‘ ہمیں اس میں ٹانگ اڑانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ایسے کسی موقع پر ہم زرداری صاحب سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں حالانکہ ہم ایسی دلآزاری کا تصور تک نہیں کر سکتے البتہ آرمی چیف کی چھٹی کروانا اور بات ہے جس کا نتیجہ کچھ اچھا نہیں نکلا تھا اس لیے افسوس کہ اب وہ آپشن بھی موجود نہیں ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس سے پہلے ہماری دلآزاری والا کام بھی شروع ہو جائے اور لینے کے دینے پڑ جائیں جبکہ حالات روز بروز ہم سب کے لیے مخدوش ہوتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''محاذ آرائی بڑھی تو حکومت اپنا کردار ادا کرے گی‘‘ کیونکہ فی الحال حکومت کی ساری توجہ اسی کردار پر ہے جو وہ روز اول سے ادا کر رہی ہے بشرطیکہ کوئی سارے رنگ میں بھنگ نہ ڈال دے کیونکہ کچھ عرصے سے ملک عزیز میں بھنگ کی پیداوار کچھ ضرورت سے زیادہ ہی ہو رہی ہے ۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کر رہے تھے۔
پیپلز پارٹی اداروں پر چڑھائی کی بجائے
اپنے زوال پر غور کرے... خواجہ سعد رفیق
وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''پیپلز پارٹی اداروں پر چڑھائی کی بجائے اپنے زوال پر غور کرے‘‘ جیسا کہ ہم نے شروع کر دیا ہے کیونکہ زرداری صاحب کے بیان اور کراچی میں دہشت گرد اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی اسی زور و شور سے جاری ہے اور موصوف کے بیان کے بعد اس میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آ رہی بلکہ قدرے تیزی ہی آ گئی ہے اور متعدد شرفاء و وزراء نے قبل از گرفتاری ضمانتیں بھی کروانا شروع کر دی ہیں اور اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو اس کی آنچ یہاں تک بھی آ سکتی ہے اور ہمارے زوال میں بھی ایسا لگتا ہے کہ کچھ زیادہ عرصہ باقی نہیں رہ گیا جس پر وزیر اعظم صاحب نے سوچ بچار شروع کر دی ہے کیونکہ غور و خوض کا سارا کام وہی سرانجام دیتے ہیں جو کہ نیم خوابی اور غنودگی میں ان کا دماغ زیادہ کام کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم چاہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی سیاسی افق پر موجود رہے‘‘ کیونکہ ہمارا سیاسی افق پر موجود رہنا بھی اس سے مشروط ہے جیسا کہ انہوں نے اپنے معذرتی بیان میں کہا ہے کہ وہ مفاہمتی پالیسی جاری رکھیں گے ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سیاسی افق ویسے ہی دھندلانا شروع کر دے‘ جبکہ رمضان اور عید کا چاند ویسے بھی بڑی مشکل سے نظر آتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ''پیپلز پارٹی تدبر اوربردباری کا مظاہرہ کرے‘‘ اور ہماری طرح خاموش رہ کر ہی ساری کارروائی ڈالنے کی کوشش کرے‘ اگرچہ اس خاموشی کے باوجود سارا کچھ کھل کر سامنے بھی آ رہا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اپیل
ہر گاہ بذریعہ اشتہار ہذا ہر خاص و عام کو مطلع کیا جاتا ہے کہ ہم نے آرمی چیف کے دیرینہ مطالبے کی بناء پر شہدا کے بچوں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں زخمی ہونے والے جوانوں کے لیے محکمہ جنگلات کی 9000ایکڑ زمین دینے کا فیصلہ کر دیا ہے اور اب امید ہے کہ ہمارے معاملات اور معمولات میں مداخلت سے اجتناب کی پالیسی اختیار کی جائے گی جس سے بے شمار شرفاء کی روزی پر لات مارے جانے کا سلسلہ شروع ہونے والا تھا‘ بلکہ کئی سیاسی معززین نے بھی پریشان ہونا اور قبل از گرفتاری ضمانتیں کروانا شروع کر دی تھیں‘ بلکہ اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ ہم سے یہ درخواست اتنی سنجیدگی سے کی گئی ہے تو ہم بہت پہلے ہی اس پر عملدرآمد کر دیتے کیونکہ ویسے بھی ان زمینوں پر کچھ دیگر ضرورتمندوں ہی نے قبضہ کر لینا تھا اور حکومت نے حیران و پریشان دیکھتے رہ جانا تھا۔ بلکہ اگر یہ زمین کم ہو تو مزید کے لیے حکم فرمایا جائے‘ نیز کوئی اور خدمت ہمارے لائق ہو تو براہ کرم مطلع فرمایا جائے۔
المشتہر: حکومت سندھ عنی عنہ
آج کا مطلع
اب اس سے کیا کہیں کہ محبت میں ہیں‘ ظفرؔ
ملتا رہا تو خود ہی کبھی جان جائے گا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved