ہمارے ہاں اکثر لوگ کرکٹ کے کھیل سے دیوانوں کی طرح محبت کرتے ہیں ۔ اس بات کا ثبوت حال ہی میں اس وقت ملا جب زمبابوے جیسی کمزور ٹیم کے ساتھ قومی ٹیم کے میچ دیکھنے ہزاروں کی تعداد میں شائقین قذافی سٹیڈیم پہنچتے رہے۔ اگرچہ اس میں ایک پہلو یہ بھی تھا کہ چھ برسوں بعد ہماری قومی ٹیم کو اپنے ملک کی گرائونڈ پر ایک بین الاقوامی میچ کھیلنے کا موقع ملا تھا تاہم کرکٹ کے ساتھ دیوانگی کی حد تک پیار بھی کسی سے چھپا نہیں تھا۔ چھ چھ مقامات پر سکیورٹی چیکنگ ہو رہی تھی مگر شائقین خوشی خوشی سب کچھ برداشت کر رہے تھے۔
اگر آپ یہ سمجھیں کہ ہم شروع ہی سے کرکٹ کے دیوانے تھے تو یہ بات درست نہیں ہے۔ ہم نے کرکٹ کے بڑے بڑے کھلاڑی دنیائے کرکٹ میں پیش کئے‘ یہ بات بہت اہم ہے مگر کرکٹ پر رننگ کمنٹری وہ اہم ترین پہلو ہے جس نے پاکستانیوں کو کرکٹ کا دیوانہ بنایا۔ بالکل شروع میں کرکٹ میچ پر رننگ کمنٹری صرف انگریزی زبان میں ہوتی تھی اور صرف ریڈیو پر ہوتی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب عوام کی کرکٹ میں دلچسپی بڑھنا شروع ہوئی۔
عمر قریشی اور جمشید مارکر انگریزی کے دو کمنٹیٹر ہوتے تھے اور پندرہ پندرہ منٹ تک باری باری رواں تبصرہ پیش کرتے تھے۔ عام آدمیوں کو اس کمنٹری کے ذریعے ایک تو سکور کا پتہ چلتا تھا اور دوسرا ان کو یہ جملہ یاد رہتا تھا کہ Over to Omer Qurashiیا Over to Jamshaid Marker
اس ابتدائی زمانے کے بعد افتخار احمد اور چشتی مجاہد جیسے نام انگریزی کمنٹری کی دنیا میں داخل ہوئے‘ مگر کرکٹ کی صورتحال جوں کی توں رہی یعنی لوگوں کی دلچسپی میچوں میں سکور تک ‘ ہار جیت تک یا پھر چوکوں چھکوں تک ہی محدود ہوتی تھی۔
چونکہ کرکٹ پر رننگ کمنٹری ریڈیو پر ہوتی تھی لہٰذا ساٹھ کے عشرے میں کوشش کی گئی کہ اردو میں بھی رواں تبصرہ نشر کیا جائے۔ اس میں جو کچھ تجربات ہوئے وہ کافی مزاحیہ نوعیت کے تھے کیونکہ اردو کمنٹیٹر کوشش کرتے تھے کہ عمر قریشی وغیرہ کی انگریزی کمنٹری کا اردو ترجمہ سامعین تک پیش کر دیں۔ سب جانتے ہیں کہ ہر زبان کا اپنا مزاج ہوتا ہے لہٰذا ترجمے سے بات نہیں بنتی تھی۔ پھر جن شخصیات کا انتخاب کیا گیا وہ ترجمے کے علاوہ کچھ ایسی جدتیں پیش کرتے تھے کہ معاملات مزید مزاحیہ ہو جاتے تھے۔
معروف اردو شاعر قیوم نظر مرحوم نے بھی اس دور میں ریڈیو پر اردو زبان میں کرکٹ کمنٹری کی۔ ان کا ایک جملہ مجھے یاد ہے جو ان دنوں زبان زد عام تھا۔ بائولر کی گیند پھینکنے سے پہلے کی حالت بیان کرتے ہوئے موصوف نے فرمایا تھا'' اب وہ گیند اپنی ران پر سہلا رہے ہیں‘‘
اس دور میں اردو میں کمنٹری کرنے کے ساتھ ساتھ مسئلہ یہ ہوتا تھا کہ بنگالی زبان میں بھی کمنٹری کا اہتمام کرنا پڑتا تھا۔ مشرقی پاکستان آدھے سے زیادہ پاکستان تھا اور وہاں سامعین کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔
بہرحال ان تجربات کے دور میں آخر ریڈیو والوں نے یہ طے کیا کہ کرکٹ پر رننگ کمنٹری تو انگریزی میں ہوا کرے گی مگر ہر سیشن (Session)کے بعد پانچ منٹ کا تبصرہ اردو میں اور پھر پانچ منٹ کا تبصرہ بنگلہ زبان میں ہوا کرے گا۔
اس دور میں بھی کرکٹ سے عوام کی وابستگی کا عالم والہانہ نہیں تھا۔ توجہ بس ہار جیت ‘ سکور یا چوکوں چھکوں تک محدود رہتی تھی۔ پھر آیا اردو کمنٹری کا دور۔ ایک تو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے سانحے کے بعد اردو کے ساتھ ساتھ بنگلہ زبان کی کمنٹری کی ضرورت نہیں رہی تھی اور دوسرے بھارت میں ہندی زبان میں جو رننگ کمنٹری ہوتی تھی اس کو دیکھ کر ہمارے ہاں کئی لوگ اس بات پر زور دینے لگتے کہ کمنٹری لازماً اردو میں بھی ہونا چاہیے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اردو کمنٹیٹروں کی ایک کھیپ تیار ہو گئی۔ یہ لوگ کس طرح کمنٹیٹر بنے‘ اس بارے میں‘ میں صرف اتنا کہوں گا کہ یہ سب لو گ محض اپنی اور اپنی ہی کوشش سے کمنٹیٹر بنے۔ان کمنٹیٹروں نے انگریزی کمنٹیٹروں کے رواں تبصر ے کو بھی سامنے رکھا‘ اردو زبان کے مزاج کو بھی سامنے رکھا‘ بھارت میں ہندی رواں تبصرے کے تجربات سے ان باتوں کا انتخاب کیا جو اردو رواں تبصرے میں رچ بس سکتی تھیں۔ یوں اردو کمنٹری کو عروج حاصل ہوا۔
میری نظر میں یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے پاکستانی عوام کو کرکٹ کے اس قدر قریب کیا کہ عام لوگ اس کھیل کی باریکیاں سمجھنے لگے۔ آج اگر آپ کو پکوڑوں کی دکان پر لوگ ایسے ماہرانہ تبصرے کرتے دکھائی دیتے ہیں تو یہ کرشمہ ہمارے اردو کمنٹیٹروں کا ہے۔ ہمارے عام آدمی نے اگر کرکٹ کو سمجھا ہے اور اس کھیل کے دیوانے بنے ہیں تو وہ اردو میں رواں تبصرہ کی وجہ سے بھلے وہ ٹی وی پر ہوں یا ریڈیو پر ہوں۔
میرا ایمان ہے کہ اگر ہم اردو کو صحیح معنوں میں سرکاری زبان کے طور پر اپنا لیں تو ایسا ہی معجزہ ہماری قومی زندگی میں بھی ہو سکتا ہے۔ بہرحال بات کرکٹ کمنٹری کی ہو رہی تھی۔ میں نے قصداً کسی اردو کمنٹیٹر کا نام نہیں لیا۔ وجہ اس کی یہ ہے جتنے بھی اردو زبان میں رواں تبصرے کرنے والے ہو گزرے ہیں وہ سب ہی قابل احترام ہیں کہ انہوں نے اپنے ذاتی شوق کی وجہ سے اتنی بڑی خدمت انجام دی ہے۔ اپنے تعلق کے حوالے سے میں صرف ایک اردو کمنٹیٹر کا ذکر کروں گا جن کی اردو کمنٹری کے لیے خدمات کا میں عینی شاہد رہا ہوں۔میں ذکر کر رہا ہوں اردو کمنٹیٹر محمد ادریس کا۔
ادریس صاحب پرانے وقتوں میں احمد فراز مرحوم کے ہمراہ ریڈیو پاکستان پشاور پر ملازم ہوتے تھے‘ اور غالباً اسی زمانے سے کرکٹ کے شیدائی تھے۔ بعدازاں انہوں نے ریڈیو کی نوکری تو چھوڑ دی مگر کرکٹ کے محبت قائم رہی۔
میں عرصہ دراز تک لاہور ریڈیو پر سپورٹس پروگراموں اور کرکٹ کمنٹری وغیرہ کا انچارج رہا ہوں۔ ادریس صاحب فیصل آباد میں ہوتے تھے مگر کرکٹ کا معاملہ ہو تو لاہور اس طرح آ جاتے تھے جیسے لاہور میں رہتے ہوں۔ ہر وقت موصوف کو لگنا ہوتی تھی کہ جو میچ ہونے جا رہا ہے اس میں کون کون سے ریکارڈ بن سکتے ہیں یا ٹوٹ سکتے ہیں۔
یہ وہ دور تھا کہ کمپیوٹر وغیرہ نہیں ہوتے تھے۔ اس کے لیے Wisden‘ جس کو کرکٹ کی بائبل کہا جاتا ہے ‘کا بہت گہرا مطالعہ کرنا پڑتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ادریس صاحب سکورر(Scorer)حضرات سے مسلسل رابطے میں رہتے تھے۔ خالد عثمان صاحب ہمارے سکورر ہوتے تھے جو پی آئی اے میں افسر تھے مگر شوقیہ سکورننگ کیا کرتے تھے۔
جب کرکٹ کمنٹری ہوتی تھی تو کمنٹیٹر باری باری آتے تھے۔ انگریزی اور اردو ساتھ ساتھ چلتی تھی‘ مگر عوامی سطح پر اردو کمنٹری ہی سنی اور سمجھی جاتی تھی۔ ادریس صاحب کا کمال یہ تھا کہ بھلے ان کی باری نہ ہو‘ جو بھی کمنٹیٹر آن ایئر ہو‘ اگر کوئی ریکارڈ بنے یا ٹوٹے‘ یہ فوراً کمنٹیٹر کو مطلع کر دیتے تھے۔ ادریس صاحب کا اپنا کمنٹری کا مخصوص انداز تھا۔ معروف صحافی خالد حسن کہا کرتے تھے کہ میں ریڈیو کمنٹری سنتا ہی ادریس صاحب کی کمنٹری سننے کے لیے ہوں۔ ادریس صاحب اکثر کمنٹری میں ایسا جملہ بول جاتے تھے کہ وہ عوام الناس کے دلوں کی آواز ہوتا تھا۔
بنگلور میں بھارت کے خلاف ایک میچ میں ہمارے اوپننگ بیٹسمین سعید انور نے خوبصور ت چوکا لگایا۔ اس پر ادریس صاحب نے ایک جملے میں یہ تبصرہ کیا۔''اور گیند بائونڈری لائن کے پار۔ بیس ہزار شائقین سے بھرے سٹیڈیم میں Pin drop Silence‘‘۔
فیصل آباد کے اقبال سٹیڈیم کی تعمیر میں ادریس مسلسل ارباب حل و عقد سے رابطے میں رہے۔ قذافی سٹیڈیم میں جب ریڈیو اور ٹی وی کے بوتھ تعمیر ہو رہے تھے تو کئی مرتبہ میرے ہمراہ وہاں اجلاسوں میں گئے۔ وہاں ایک غلام مصطفی خان ہوتے تھے۔ وہ ادریس صاحب سے ناراض بھی رہتے تھے۔ ان کا خیال ہوگا کہ بلا وجہ کی مداخلت کرتے ہیں‘ حالانکہ ادریس صاحب تو محض کرکٹ کے لیے ایسا کرتے تھے۔
آج کل تو نیا دور ہے۔ اردو رننگ کمنٹری پاکستانی عوام کے دلوں میں کرکٹ جاگزیں کر کے اب ایک کونے میں جا بیٹھی ہے۔ کارپوریٹ کلچر حاوی آ چکا ہے اور اس کی زبان انگریزی ہے لیکن آج بھی ادریس صاحب کسی نہ کسی ایف ایم چینل پر تبصرہ کرتے سنائی دے جاتے ہیں۔ محمد ادریس اور ان جیسے دیگر اردو کمنٹیٹر ہمارے وہ فراموش کردہ ہیروز ہیں جن کی وجہ سے ہمارے عوام آج کرکٹ کے گرویدہ ہیں۔ حکومت کا تمغۂ افتخارِ فن دینے کا طریقہ چونکہ مختلف ہے لہٰذا ہمارے ان ہیروز کو اپنی کارکردگی ہی کو اپنا اعزاز سمجھ لینا چاہیے۔