وزیرِ اعظم کو کوئی بتائے کہ جمہوریت کی حفاظت صرف عوام کر سکتے ہیں ۔ عوام کا پیٹ نعروں اور وعدوں سے نہیں بھرتا۔وقت بدل چکا۔ حکمرانوں کا اعتبار ختم ہوا ۔قوم اب عمل کی گواہی مانگتی ہے ۔ خوابوں کا خریدار اب کوئی نہیں ۔
نئے دستور کی نہیں مگر ایک نئے آغاز کی بہرحال ضرورت ہے ۔ چیخنے والے چیختے رہے کہ یہ نظام فرسودہ ہو چکا۔ پولیس، پٹوار ، نوکر شاہی، طرزِ سیاست۔ طاقتوروں نے سن کرنہ دیا ۔ اب ایسی دلدل ہے کہ آسانی سے وہ باہر نکل نہ سکیں گے ۔
سندھ کی صوبائی حکومت کے تحت اصلاحِ احوال کا کوئی امکان نہیں ۔ اپنی غلطی تسلیم ہی نہیں کرتی تو اصلاح کیا خاک کرے گی ؟ سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ کراچی کی چار سیاسی جماعتیں بھتہ خوری میں ملوّث ہیں ۔ افراد نہیں ، پارٹیاں ۔ تاویل وہ یہ کرتے رہے کہ جو لوگ قصور وار ہیں ، ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ طریقِ کار جب طے ہو چکا۔ پولیس کی بجائے رینجرز کو جب اختیارات دے دیے گئے ۔ عسکری قیادت نے جب مداخلت کی او راپیکس کمیٹی وجو د میں آچکی تو بار بار صوبائی حکومت کو جتلایا گیا‘ یہ کہ خود اس کے اعضا و جوارح شریکِ جرم ہیں ، اس کی ممتاز شخصیات ۔
جناب الطاف حسین نے خود متحدہ کے لیڈروں پر الزام لگایا کہ وہ گلیاں او رگرائونڈ بیچ کر کھا گئے ۔ ''چائنا کٹنگ‘‘ کی اصطلاح انہی کے خطاب سے عام ہوئی ۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے خود اپنے ان رہنمائوں کے خلاف کیوں اقدام نہ کیا، دن دہاڑے جو غنڈہ گردی کے مرتکب تھے ؟
انکشاف ہولناک ہے کہ بد امنی کے مہ و سال میں 52000 ایکڑ رہائشی او رکمرشل زمین پر قبضہ کر لیا گیا۔ 230ارب روپے سالانہ کاالزام مبالغہ آمیز تھا؟اب تو یہ لگتاہے کہ ڈاکہ زنی اس سے بھی زیادہ ہے ۔ صرف سمندر سے حاصل کی جانے والی 530 ایکڑ زمین کی مالیت دو سے تین سو ارب روپے بتائی جا رہی ہے ۔ صرف ایک قضیے میں الزام یہ ہے کہ اوسطاً دس کروڑ روپے روزانہ بلاول ہائوس پہنچائے جاتے رہے ۔
الطاف حسین نے علاج یہ تجویز کیا کہ نون لیگ ، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم متحدہ محاذ بنا لیں ۔اس سے پہلے وہ فوجی انقلاب کے وکیل بھی رہے۔ زرداری صاحب کا نسخہ یہ ہے کہ متحدہ او رپیپلز پارٹی سندھ میں غیر معینہ مدّت کی ہڑتال کریں اور ممکن ہو تو ملک بھر میں ۔ الطاف حسین سے انہوں نے بات کی ہی مگر ایک اطلاع یہ ہے کہ عمران خان کو رام کرنے کا ارادہ بھی کیا۔ پچھلی بار زرداری صاحب سے فون پر ان کی بات ہوئی تو بحث چھڑ گئی کہ فون کیا کس نے تھا۔ کپتان نے فیصلہ کیا کہ چوہا لنڈورا ہی بھلا۔
زرداری صاحب میاں صاحب سے بھی تھوڑی سی امید رکھتے تھے ۔ الیکشن مہم کے دوران شہباز شریف چیخ چیخ کر کہا کرتے : اِس سڑک پر گھسیٹوں گا، اس کھمبے سے لٹکا دوں گا۔ خیر وہ تو لوڈ شیڈنگ کے باب میں بہت کچھ ارشاد کیا کرتے تھے ۔ دعوے پہ دعویٰ ، اشتہار پہ اشتہار ، وعدے پہ وعدہ ۔ نئی حکومت وجو دمیں آئی تو معلوم ہوا کہ دونوں پارٹیوں میں سمجھوتہ ہے ۔ جس طرح الیکشن کمیشن کی تشکیل پر جو اب تک قوم کے گلے میں اٹکا ہو اہے ۔
میاں صاحب نامقبول اور کمزور ہو چکے ۔ فرمایا انہوں نے یہ تھاکہ ملک کو پٹڑی پر ڈالنے کی تیاری وہ مکمل کر چکے ۔ حال یہ ہے کہ گڈانی میں 6000میگاواٹ کا منصوبہ دو سال بعد ترک کرنے کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے یہ کیا تھا کہ منتخب ہونے کے قابل ہر شخص کو اپنے ساتھ ملالیا۔ ملک بھرمیں رازداری سے سروے کرائے ۔ عمران خان کی کمزوریوں کو سمجھا، لیپ ٹاپ بانٹے ، عرب ممالک اور مغربیوں سے مراسم مضبوط کیے ۔ کاروباری طبقے کوہموار کیااور اس میں رکاوٹ کیا تھی ؟ اسے یقین تھاکہ نون لیگ اس کے مفادات کاتحفظ کرے گی ۔ وہ بجلی چوری کریں یا ٹیکس اور منافع خوری ان کا بال بھی بیکا نہ ہوگا۔
میاں شہبا ز شریف اعلان کرتے رہے : تین ماہ میں ، چھ ماہ ، دو سال ، زیادہ سے زیادہ تین سال میںلوڈ شیڈنگ ختم کر دوں گا۔ دو برس میں صرف چار سو میگاواٹ کا اضافہ ہوا۔ شریف حکومت کی تمام امیدیں چینی سرمایہ کاری سے وابستہ ہیں ۔ کل شب فیصل آباد میں رات بھر ایک ورکشاپ دھڑا دھڑ جلتی رہی ۔ آتشزدگی پاگل پن ہے ۔ قومی اثاثوں کو آگ لگانے کی حمایت نہیں کی جا سکتی ۔ اس سے بڑا المیہ یہ کہ حکومت ایک عمارت میں لگی آگ بجھانے کے قابل بھی نہیں ۔ کیا ایسی پارٹی کو 20کروڑ انسانوں کی تقدیر بدلنے کا دعویٰ کرتے ہوئے ایک ذرا سی شرم نہ آنی چاہیے؟
مطالبہ یہ نہیں کہ بگڑا ہوا نظام راتوں رات کارگر ہو جائے۔ اصلاح کا مگر آغاز توہو ، جس طرح کہ ریلوے میں ہوا۔ ناچیز سعد رفیق کا سب سے بڑا نقاد تھامگر ریاضت کبھی رائگاں نہیں ہوتی ۔ مسئلہ خود فریبی ہے ۔ حکمران خود کو دھوکہ دیتے ہیں اور قوم کو بھی۔ ریلوے میں اگر اصلاح کا آغاز ہو سکتاہے (جی ہاں آغاز ہی ) تو پی آئی اے ، بجلی کمپنیوں اور سٹیل مل میں کیوں نہیں ؟
کچھ لوگ میں نے ڈھونڈ نکالے۔ ملک بھر میں دو تین سوآدمی ہیں ۔ کاروباری لوگ او رماہرین۔ ہر قومی مسئلے پر انہوں نے تحقیق کی ہے ۔ طویل مباحثوں کے بعد آخر یہ طے پایا کہ ایک نئی سیاسی جماعت بنائی جائے۔ ان میں سے بعض کپتان سے جا ملے تھے مگر دھتکارے گئے ۔ خان کے گرد خوشامدیوں اور ابن الوقتوںکا جھمگٹا تھا۔ یہ وہ لوگ ہیں ، جو کم از کم ہر مسئلے کا قابلِ عمل حل تو قوم کے سامنے پیش کر ہی دیں گے۔ ایک نئی پارٹی بنانا اور چلانا خواہ ننگے پائوں صحرا عبور کرنے کے مترادف ہو مگر اس کے سو اچارہ ہی کیا ہے ۔پرانی پارٹیاں گل سڑ چکیں ۔ خود کپتان کے کارکن مایوس ہوتے جا رہے ہیں کہ تنظیم پر نہیں ، ان کی ساری توجہ حریفوں کو رسوا کرنے پر ہے ۔
دو تین برس لگیں یا دس پندرہ سال، ایک جدید اور منظم جمہوری جماعت ہی واحد حل ہے ۔ عصرِ حاضر میں جینے والے حقیقت پسند لوگ۔ قائدِ اعظم اور اقبال کا پاکستان تعمیر کرنے کے آرزومند۔ ابھی موسم غضبناک ہے ۔میرا خیال ہے کہ اکتوبر کے اوائل میں وہ بروئے کار آئیں گے ۔ اصلاح تبھی ممکن ہے ، اقتدار اگر اہل اور مخلص لوگوں کے ہاتھ میں ہو۔ اس میں وقت لگے گا مگر کم از کم راستہ وہ دکھا دیں گے ۔ شاہ محمودوںسے تو یہ امید نہیں کی جا سکتی ۔گروہ در گروہ ، تحریکِ انصاف بٹتی جا رہی ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ کسی کو احساس ہی نہیں ۔
شہر شہر آگ بھڑکی تولوڈ شیڈنگ کا وزیرِ اعظم نے نوٹس لیا ۔ گرانی کاکس طرح لیں گے ؟ بے روزگاری اور بھوک نے خلقِ خدا کومار ڈالا۔ اس پہ تاجروں کی سفاکی اور یہ کھیل وہ افسروں کے ساتھ مل کر کھیلتے ہیں ۔ سستے بازا رمہنگائی کا علاج نہیں ۔ مارکیٹ کو ہموار رکھنا ہوتاہے ۔ سپلائی میں اضافہ۔ مارکیٹ کی نگرانی ،ذخیرہ اندوزوں کا سدّباب۔ یہ پولیس ، یہ عدالتیں اور یہ افسر شاہی اس قابل ہی نہیں ۔ حکمران قوم کو بہلانا چاہتے ہیں ، کنفیوژن پھیلا کر ۔ کارندے ان کے بہت ہیں او رجہالت چہار سو۔
اللہ اپنی مخلوق سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔کھیل شروع ہو چکا۔ احتساب کا عمل اب رکے گا نہیں ۔ عسکری قیادت پیمان کر چکی اور منحرف ہوئی تو بھگتے گی بہت ۔ میڈیا اس کے ساتھ ہے ۔ قوم اس کے ساتھ ہے ۔ اگر وہ مخلص ہوئے تو اللہ ان کے ساتھ ہوگا۔ پھرکسی اورکی ضرورت نہیں ہوتی ۔
کیا یہ ممکن ہے کہ موجودہ حکومت ہی موثر ہو جائے؟ جی ہاں ، جیسا کہ بارہا عرض کیا: توبہ کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتاہے ، چوپٹ کھلا۔
وزیرِ اعظم کو کوئی بتائے کہ جمہوریت کی حفاظت صرف عوام کر سکتے ہیں ۔ عوام کا پیٹ نعروں اور وعدوں سے نہیں بھرتا۔وقت بدل چکا۔ حکمرانوں کا اعتبار ختم ہوا ۔قوم اب عمل کی گواہی مانگتی ہے ۔خوابوں کا خریدار اب کوئی نہیں ۔