بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ڈھاکہ یونیورسٹی کے بنگہ بندھو انٹرنیشنل کنونشن سینٹر میں جو کچھ کہا اور اس سے قبل بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر کی پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کی دھمکیاں اور بھارتی وزیراطلاعات کا پاکستان کو یہ بتانا کہ دیکھو کل ہم نے برما میں 20 ایسے دہشت گردوں کو بھارت سے جاکر فضائی اور زمینی ذرائع استعمال کرتے ہوئے ہلاک کر دیا ہے جنہوں نے ہمارے اٹھارہ فوجیوں کو ہلاک کیا تھا، اب ہم اسی طرح اپنے دشمنوں سے ان کی سر زمین پر جا کر بدلہ لیا کریں گے اور یاد رکھیں کہ بدلہ لینے کا یہ طریقہ اسرائیل اختیار کرتا ہے۔ ان تین بیانات پر پورا پاکستان سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ان بیانات کے خلاف با قاعدہ مذمتی قراردادیں منظور کی جا رہی ہیں۔ لیکن کیا کسی حکومتی عہدیدار نے، کسی قومی اور صوبائی اسمبلی کے رکن نے یا کسی سینیٹر نے پاکستان کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے سینمائوں میں اور گھر گھر بھارتی ایجنسیوں کے ثقافتی مراکز سے تیار کیے جانے والے ڈراموں اور فلموں کے ذریعے نوجوان نسل اور خواتین کے ذہنوں میں انڈیلے جانے والے خیالات و کردار سے بھی پاکستانی قوم کو خبردارکیا ہے جس سے ہم اپنی ثقافت، تاریخ اور مذہب سے آہستہ آہستہ دور کیے جا رہے ہیں؟ کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ بھارت کے ڈراموں اور فلموں میں ان کے فوجیوں کی بہادری کے جو منا ظر دکھائے جارہے ہیں ان سب کا مقصد کیا ہے؟ کیا کوئی یہ ماننے کے لیے تیار ہوگا کہ مختلف بھارتی ٹی وی چینلز سے دکھائے جانے والے ڈراموں میں منگنی اور شادی بیاہ سے لے کر کسی بھی گھریلو یا مذہبی تقریب جس طرح دکھائی جاتی ہے اس طرح بھارت میں کہیں بھی نہیں ہوتا، لیکن پاکستان میں دس پندرہ برسوں سے حالت یہ ہو چکی ہے کہ بحیثیت مسلمان ہم اپنے رسوم و رواج سے اس طرح دور ہو رہے ہیں جیسے یہ کوئی گھنائونی حرکت ہو۔
بھارتی فلموں میں بڑے خوب صورت اور مزاحیہ انداز میں نظریہ پاکستان کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ وہ اپنی فلموں میں تو یہ کہتے ہیں کہ فن اور موسیقی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی لیکن اپنے ملک کی ہندو آبادیوں میں مسلمان فن کاروں کو نہ تو کرائے پرگھر دیا جاتا ہے اور نہ ہی انہیں مکان خریدنے کی اجا زت ہے۔ رئیل اسٹیٹ کا کاروبار کرنے والوں کو مسلمانوں کو گھر دینے سے منع کر دیا گیا ہے۔ بھارتی ڈراموں اور فلموں میں پاکستان اور بھارت کے فوجیوں کا ایک دوسرے سے موازنہ کرتے ہوئے ذہنوں میں یہ تاثر بٹھایا جا رہا ہے کہ بھارت کا ایک ایک سورما پاکستان کے دس فوجیوں پر بھاری ہے اور اس سے بھی بڑھ کر اپنے دیوی دیوتائوں کا ایسا تصور باندھا جاتا ہے کہ جو بھارتی فوجی یا جنگی جہاز کا پائلٹ ان کے آگے جھک کر پاکستان پر حملہ کرتا ہے تو اسے سب کچھ مل جاتا ہے۔ بھارتی فوجیوں اور ان کے افسروں کو جنگ میں جانے سے پہلے مورتیوں کے سامنے جھکتے ہوئے، ان کی پوجا کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے اور پھر وہ پاکستان کے خلاف بہادری سے لڑتے اور فتح کی خوشیاں مناتے دکھائے جاتے ہیں۔ اس طرح ثابت کیا جاتا ہے کہ یہ فتح اس مورتی کی وجہ سے ہوئی ۔ پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں تو کچھ عرصہ بعد زائل ہونا شروع ہو جاتی ہیں لیکن معصوم ذہنوں میں ٹھونسی ہوئی یہ کہانیاں اور فقرے بازیاں سیلاب سے بھی کئی گنا زیادہ تباہی و بربادی پھیلا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ ڈراموں میں پہنے ہوئے لباس کی چکا چوند سے کمزور اور معصوم ذہن بہکنا شروع ہو جاتے ہیں۔
ستمبر 1965ء کی سترہ روزہ پاک بھارت جنگ کے بعد مجاہد کبیر مفتی اعظم فلسطین سید امین الحسینی مرحوم لاہور تشریف لائے تو انہوں نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: '' بھارت سے اس جنگ کے بعد دنیائے اسلام کی نظریں اہل پاکستان کی جانب متوجہ ہو گئی ہیں۔ پاکستانی فوج اور عوام کی بہادری کے کارناموں کی داستانیں سن کر مسلمانانِ عالم نئے ولولے سے سرشار ہو گئے ہیں اور انہیں یقین ہوگیا ہے کہ ان کے اسلاف کی شجاعت
کے کارناموں کو آج بھی دہرانے والے پاکستان میں موجود ہیں، لیکن آپ کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ اس شجاعت اور بہادری کے عظیم کارنامے کے بعد دشمنان اسلام کی نظریں بھی آپ پر لگ چکی ہیں۔ ان سب کی اب ہر دم ایک ہی کوشش ہو گی، ایک ہی مشن ہو گا کہ کسی نہ کسی طرح آپ کی ناموری کو خاک میں ملا دیا جائے، ایسے طریقے اختیار کیے جائیں، ایسا زہر آپ کی بنیادوں میں پھینکا جائے جس سے آپ کی شجاعت ، بلند حوصلگی اور یک جہتی کو ختم کر تے ہوئے آپ کو نیچا دکھا کر شکست فاش سے ہم کنار کرتے ہوئے ہم مسلمانوں کے دشمنوں کے حوصلوں کو ایک بار پھر سے بحال کیا جائے‘‘۔ اور پھر ہم سب نے دیکھا کہ مفتی اعظم فلسطین کا ظاہر کیا جانے والا خدشہ سچ ثابت ہوا۔1971ء میں سب دشمنوں نے در پردہ مل کر ہمارے ملک کو دو لخت کرایا۔ سب نے دیکھا کہ اس سانحے کے 45 سال بعد ڈھاکہ میں جنرل نیازی کے ہتھیار ڈالتے ہوئے اتاری گئی تصویرایوارڈ کی شکل میں حسینہ واجد کی جانب سے نریندر مودی کو پیش کی گئی۔1971ء کے حوالے سے بھارتی فلمیں دنیا بھر میں دکھائی گئیں جن سے ہمارا1965 ء کا وقار سخت مجروح ہوا۔
آج بھارتی وزیر اعظم کے ڈھاکہ میں دیے گئے بیان پر پوری قوم سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے اور مذمتی بیانات اور قراردادیں پیش کی جا رہی ہیں، سب غصے میں آ گئے ہیں، لیکن کیا قوم کی یادداشت اتنی کمزور ہو گئی ہے کہ اسے سقوط ڈھاکہ کے وقت اندرا گاندھی کی وہ ہرزہ سرائی بھول گئی کہ'' آج میں نے دو قومی نظریے کو بحیرہ ہند میں غرق کر دیا ہے‘‘ ۔ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ بھارت 1965ء کی ہزیمت کا نقش بھارت کی نئی نسل کے ذہنوں سے کھرچنے کے لیے آج پچاس سال بعد چھ ستمبر کو یوم فتح کے طور پر منا رہا ہے اور ایک ہم ہیں کہ ہماری حکومتوں نے مبینہ طور پر واجپائی کے دبائو پر نہ صرف 6 ستمبر کی تعطیل ختم کی بلکہ اس دن بہادری اور جنگی ترانے بھی ریڈیو اور ٹی وی پرپیش کرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے 45 سال قبل دیے گئے بیان کو آج نریندر مودی کی زبان سے سن کر مذمتی بیانات شروع ہو گئے ہیں، لیکن بھارتی فلموں اور ڈراموں کے ذریعے گھر گھر پھیلایا جانے والا زہر پارلیمنٹ کے کسی رکن کو نظر نہیں آ رہا؟
نریندر مودی کو حسینہ واجد کی جانب سے جو تصویر ڈھاکہ یونیورسٹی کی تقریب میں پیش کی گئی یہ وہی تصویر ہے جس میں جنرل نیازی بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال رہے ہیں۔ کیا کبھی ہم نے اس تصویر سے عبرت حاصل کی؟کبھی اس شکست کو فتح میں بدلنے کا ارادہ کیا؟ مت بھولیے کہ پاکستانی اداروں کو رگڑا دینے والوں کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ آئندہ کبھی کسی فوجی کے ذہن میں1971ء کی شکست کو فتح میں بدلنے کا خیال تک نہ آ سکے۔ لیکن ہمیں اس تاثر کو ہر قیمت پر تبدیل کرنا ہوگا۔