بھارتی وزیردفاع منوہرپاریکر کے اس بیان نے کہ ''عسکریت کے خاتمے کے لیے جنگجوئوں کا استعمال کیا جائے گا اور ٹارگٹ کلنگ کی جائے گی‘‘ جموں کشمیر میںتشویش اور فکرمندی کی لہر تو دوڑا ہی دی تھی ۔مگر اب لگتا ہے کہ اس پالیسی پر عملی کارروائی بھی شروع ہوچکی ہے اور اس کی زد میں فی الحال شمالی کشمیر کا معروف قصبہ سوپور ہے۔پچھلے کئی ہفتوں سے اس شہر میںٹارگٹ کلنگ نے خوف و دہشت کی فضا پیدا کردی ہے۔ نہ ہی ہلاک ہونے والوں کو اپنا قصور معلوم ہے اورنہ ہی قاتل کے مقصد کا پتہ ہے۔ ا س وقت ٹارگٹ کلنگ، عوامی حلقوں سمیت سیاسی پارٹیوں، مذہبی تنظیموں اور چوک چوراہے میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔چونکہ اکثر مقتول حریت کانفرنس بالخصوص سید علی گیلانی کے ہمدرد یا حمائتیوں میں شمار کئے جاتے ہیں؛ لہٰذا قیاس لگائے جارہے ہیں کہ قاتلوں کا مقصدآزادی پسند لیڈرشپ کے اندر خوف و دہشت کی فضا قائم کرنا یا براہ راست گیلانی کی قیادت کو چیلنج کرنا ہے۔ کیونکہ خاص طور پر 2008ء کے بعد گیلانی ہی تحریک آزادی کی معتبراور موثرآوا ز کے طور پر کشمیر کی سیاسی بساط پر ابھرے اور پھر چاہے عسکریت پسند بھارت کے ہوں یا پاکستان، ان کی آواز یا فیصلہ کو نظر انداز کرنے کا اب حوصلہ کسی کے پاس نہیں۔ 1989ء میں جب تحریک آزادی کے خدوخال سامنے آئے، تو لگتا تھا کہ شیخ عبداللہ کی غداری سے سبق حاصل کرکے اس کے خالقوں نے یہ تہیہ کر رکھا تھا ، کہ اس کی لیڈرشپ مشترکہ ہو؛ تاکہ یہ کسی ایک شخصیت کے حصار میں مرکوز نہ ہونے پائے اور بالخصوص سیاسی لیڈرشپ کو بے وزن کرکے سبھی مہرے نئی نویلی عسکری لیڈرشپ کے پانسے میں ڈالے جائیں۔ اس نقشے میں رنگ بھرنے کا کام بلا واسطہ اس وقت کے بھارتی گورنر جگ موہن نے کیا،جب اس نے پوری سیاسی قیادت کو گرفتار کرواکے بھارت کے دور دراز کے علاقوں کی جیلوں میں ڈال دیا، جہاں سالوں تک انہیں اخباروں یا کسی اور ذرائع ابلاغ تک رسائی نہیں تھی؛ حتیٰ کہ ملاقاتوں پر بھی پابندی عائد تھی۔ اس کا نتیجہ ظاہر ہے، طوائف الملوکی شروع ہوگئی۔ ایک وقت میں کشمیر میں
100 سے بھی زائد عسکری تنظیمیں وجود میں آچکی تھیں۔جو بھارتی فوج کا مقابلہ توکیا کرتیں، آزادی اور الحاق پاکستان کی بحث میں الجھ کر ایک دوسرے کا گلا کاٹنے لگیں۔ علاقائی برتری قائم رکھنے کے مقابلہ کیلئے پاکستان نواز گرپوں نے بھی ایک دوسرے کو شدید نقصان پہنچایا۔ برطانوی مصنفین اینڈرین لیوی اور کیتھی اسکارٹ نے اپنی مشترکہ تصنیفThe Meadows میں لکھا ہے کہ کس طرح جنوبی کشمیر سے حزب المجاہدین کا صفایا کروانے کیلئے بھارتی سیکورٹی فورسز نے ایک اور عسکری گروپ حرکت الانصار کی مدد کی۔ حیرت کی بات تو یہ ہے،کہ اس وقت حرکت کے سیکرٹری جنرل مولانا مسعود اظہر تھے، جو بھارت سرکار کو انتہائی مطلوب تھے۔ دیگر علاقوں کا بھی یہی حال تھا۔ شمالی کشمیر میں مسلم مجاہدین نامی تنظیم نے بھی اسی طرح کا قہر برپا کئے رکھا، اس کا مالی اور سیاسی کنٹرول آزاد کشمیر کے رہنما سردار عبدالقیوم کے پاس تھا، کسی نے انہیں یہ پٹی پڑھائی تھی، کہ وہ بھی لائن آف کنٹرو ل کے اس طرف قدم جما کر کشمیر کے مقبول لیڈر بن سکتے ہیں۔ اس قتل و غارت کا انجام بہر حال محمد یوسف پرے عرف ککہ پرے عرف جمشیدشیرازی کی روپ میں سامنے آیا۔ جس نے سکیورٹی ایجنسیوں کی ایما پر ایک ملیشیا اخوان المسلمون کی بنیاد ڈالی۔ اس نے پہلے جماعت اسلامی اور بعد میں سبھی تنظیموں چن چن کر ہدف بنایا، جو کل تک ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے تھے۔ اخوان نے اس خطے میں قتل و غارت گری کی ایسی داستان رقم کی، کہ کلیجہ دہل جاتا ہے۔چونکہ کشمیر کی تحریک آزادی کی بنیاد بنگلہ دیش کی مکتی باہنی کی طرز پر رکھی گئی تھی۔ اس لیے سیاسی قیادت کو نظر انداز کرنا یا مخلص لیڈران کو بے وزن کرنا کسی بھی طور پر دانشمندی نہیں تھی۔ کشمیر کا موازنہ جنگ افغانستان سے کسی بھی طور پر نہیں کیا جاسکتا۔ 1989ء میں عوامی بغاوت اور عسکریت نے نہ صرف
انتظامیہ کو مفلوج کردیا تھا، بلکہ 1989ء سے 1995ء تک کشمیر میں برسرپیکار فوج اور خفیہ محکموں کے افسران کا بھی ماننا تھا کہ عام طور پر سمجھا گیا کہ کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل چکا، بس سفارتی یا فوجی سطح پر ایک دھکے کی دیر ہے۔ عسکری جدوجہد نے تو ابتدائی دور میں ہی اپنے اہداف حاصل کر لیے تھے، مگر ویسا دھکا جو مشرقی پاکستان میں بھارتی فوجی مداخلت کی صورت میں آیا، کشمیر میں نہیں آسکا۔ انہی دنوں عراقی آمر صدام حسین نے کویت پر فوج کشی کرکے دنیا کی سفارتی توجہ کشمیر سے ہٹا کر مغربی ایشیا کی طرف موڑ لی۔
2008ء میں کشمیر کی آزادی کی تحریک نے ایک نئی کروٹ لی، جب امر ناتھ لینڈ ایجی ٹیشن کی آڑ میں سیاسی قیادت نے عسکری لیڈرشپ کو پس پشت ڈال کر پہلی بار کمان اپنے ہاتھوں میں لی۔ اب ایسا لگتا ہے کہ سوپور میں ہوئی ہلاکتوں کے ذریعے اس سیاسی قیادت کو کوئی پیغام دینے کی کوشش ہورہی ہے۔ چونکہ یہ ہلاکتیں بھارتی وزیر دفاع کے بیان کے فورا بعد ہوئیں، اس لئے لگتا ہے کہ حریت پسند قیادت کے اندر خوف و دہشت قائم کرنے کے لیے انہوں نے اْس پالیسی کو رو بہ عمل لانا شروع کر دیاہے۔یا بصورت دیگر کوئی نادیدہ شخصیت سیاسی قیادت سے تحریک کی لگام دوبارہ عسکری لیڈران کے سپرد کروانا چاہتی ہے۔لیکن سوال ہے کہ آخر سوپور کو ہی کیوں ٹارگٹ کلنگ کیلئے چنا گیا۔ اس سے قبل اس علاقہ میں موبائل ٹاور مالکان کو نشانہ بنایا گیا اور اس کے بعد سماج کے دیگر طبقوں کو یکے بعد دیگرے نشانہ بنا کر دہشت پھیلائی گئی۔ تحریک مزاحمت کے حوالے سے سوپور کو ایک طرح سے مرکزیت حاصل ہے۔ 90 کی دہائیوں میں بھی جب اخوان یا ککہ پرے کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا، یہ قصبہ ان کے شر سے محفوظ رہاشاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ یہاں کے عوام نے گروہی تصادموں کو اس علاقہ کی طرف رخ نہیں کرنے دیا۔ 880ء میں راجہ اونتی ورمن کی ایما پر ایک انجینئر حکیم سویہ کے ذریعے دریائے جہلم کے کنارے بسے اس شہر کو یہ امتیاز حاصل ہے، کہ کشمیر کی تاریخ میں اس نے اکثر ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کی۔ ڈوگرہ راج کے خلاف جدوجہد ہو یا حق خود ارادیت کی تحریک، اس شہر نے شیخ محمد عبداللہ کو تب تک پذیرائی بخشی ، جب انہوں نے 1975ء میں وزیر اعظم اندراگاندھی کے ساتھ سمجھوتے پر دستخط کرکے حق خود ارادیت کی تحریک کو دفن کرکے ، وزار ت اعلیٰ کا منصب سنبھالا۔شیخ صاحب نے یہاں کے باشندوں کو زندہ دلان سوپور کا نام دیا تھا۔ مگر اسی قصبہ نے اس سمجھوتے کے خلاف بغاوت کرکے ایک نوجوان غلام محمد بلا کی صورت میں پہلا شہید پیش کیا۔ شیخ صاحب کے دست راست صوفی محمد اکبر ،جو اس معاہدے کے بعد ان سے الگ ہوئے اسی قصبہ سے تعلق رکھتے تھے۔اس قصبہ کی سیاسی افادیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے، کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ کا ٹیگ ہونے کے باوجود شیخ عبداللہ ہر سال یہاں ایک پبلک جلسہ ضرور کرتے؛ حتیٰ کہ آنجہانی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی بھی جب کشمیر کے دورہ پر ہوتی تھیں، تو یہاں پبلک جلسہ کا انعقاد کرتی تھیں، اس کی وجہ شاید یہ تھی، کہ یہ علاقہ شمالی کشمیر کی تجارتی گزرگاہ پر واقع ہے اور دو تین دہائی قبل تک شمالی کشمیر کا واحد اعلی ٰ تعلیمی ادارہ گورنمنٹ کالج سوپور اور ریاست کا واحد ایگریکلچر کالج یہاں ہی واقع تھا۔گورنمنٹ کالج تو اپنی سیاسی اور سماجی تحریکوں کا مرکز بھی رہا ہے۔ حریت رہنما پروفسر عبدالغنی بٹ، محمد اشرف صراف، ریاستی کانگریس کے سابق صد رپروفیسر سیف الدین سوز یہاں استاد رہے ہیں۔اس علاقے کے لوگ زرخیز زمینوں، سیبوں کے وسیع باغات اور تجارتی راہگذر پر ہونے کی وجہ سے لوگ عمومی طور پر آسودہ حال تھے۔ 1990ء میں گورنر جگ موہن نے اس علاقہ کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا تھا، کہ سوپور سے ہی بھارت مخالف تحریک کو مالی معاونت حاصل ہوتی ہے، جس کا سدباب ہونا چاہئے۔ گو کہ جگ موہن اس سد باب کو عملی جامہ تو نہیں پہنا سکے،مگر ان کے جانشینوں نے اس قصبہ کو اقتصادی طور پر کمزور کرنے میں کوئی دقیقہ فرگزاشت نہیں کیا۔ پچھلے 25 سالوں میں آٹھ بار اس شہر کے بارونق بازاروں اور بستیوں کو نذر آتش کیا گیا۔ کئی معززین شہر کے سیب کے باغات تباہ کئے گئے، تاکہ وہ نان شبینہ کے محتاج ہوجائیں۔اب لگتا ہے کہ زندہ دلوں کا یہ شہر ایک بار پھر نشانہ پر ہے۔ مطلب صاف ہے کہ اس قوم کو کسی نہ کسی طرح کے ظلم و ستم سے دبا ڈرا کر اورمجبور کر کے سکون ِقلب سے محروم کیا جائے۔ یہ المیوں کی سر زمین ہے جہاں کسی کا خون ناحق کر کے مقتول کو ہی'' دہشت گرد‘‘ اور کبھی'' شہید ‘‘بھی ثابت کیا جاسکتا ہے۔ نہ صرف آزادی پسند قیادت بلکہ کشمیر کی سبھی سیاسی اور سماجی تنظیموں کو ایک مشترکہ حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ بظاہر ان ہلاکتوں کا مقصد یہاں خانہ جنگی پیدا کرنا ہے۔ ایسے واقعات کو غیر سنجیدگی سے نہیں لیا جا سکتا بلکہ یہ دیکھنا ہو گا کہ اس حقیقت کے باوجود کہ حکومت کی جانب سے ان کی مذمت کی جا رہی ہے اور حکومت کا دعوی ہے کہ نہ صرف سیکورٹی انتظامات بلکہ احتیاطی اقدامات بھی کیے گئے ہیں، پھر یہ ہلاکتیں کیوں کر ہو رہی ہیں۔ معاملے کی تہہ تک جانے کی ضرورت ہے کہ کیوں بے گناہوں کو ٹارگٹ بنایا جا رہا ہے؟محسوس تو یہی ہو رہا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی خفیہ ایجنڈا ہے، کوئی پالیسی ہے جو کشمیر میں خانہ جنگی کا ماحول پیدا کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے، جسے بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔