تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     23-06-2015

یہاں تو سارے ادارے بیچنے پڑ جائیں گے

اللہ تعالیٰ نے انسان کو تنوع میں بنایا ہے۔ الگ الگ سوچ، الگ الگ مزاج اور الگ الگ نقطہ نظر، ایک دوسرے کی سوچ سے، نظریے سے اور نقطہ نظر سے اختلاف کا خدانخواستہ یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دوسرا فریق جان بوجھ کر ایسا کر رہا ہے۔ سوچ کا زاویہ مختلف ہو تو نتیجہ مختلف اخذ کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً میرا نقطہ نظر ہے کہ ملک میں ادارے تنزلی کی طرف رواں ہیں۔ حکمرانوں اور سرکار کو ان اداروں کی مرمت کرنی چاہیے۔ تنزلی کو ترقی میں تبدیل کرنا چاہیے کہ حکومتوں کا یہی کام ہوتا ہے۔ حکمران کو منتظم ہونا چاہیے۔ اس کا کام بہتری پیدا کرناہے، خرابیوں پر قابو پانا ہے، چیزوں کو درست سمت لے کر جانا ہے۔ میرے ایک قاری کا نقطہ نظر مجھ سے بالکل مختلف ہے اس کا خیال ہے کہ جو ادارہ کام نہ کر رہا ہو اسے ٹھکانے لگا دینا چاہیے۔ جو شعبہ تنزلی کی طرف جا رہا ہو اس کی ''منجی ٹھوک‘‘ دی جائے، جس کھیت سے پیداوار کم ہو رہی ہو اس کو ہائوسنگ سکیم میں بدل دینا چاہیے۔ اگر میرے دوست کی اس تجویز پر عمل شروع کر دیا جائے تو ملک عزیز میں باقی نام صرف اللہ ہی بچے گا۔
میں نے گزشتہ دو کالموں میں لکھا تھا کہ ایک نہایت ہی مفید اور کار آمد ادارے این اے آر سی کی تیرہ سو ایکڑ کے لگ بھگ زمین کو جو اس وقت زرعی تحقیق کے لیے استعمال ہو رہی ہے اور اس کے طفیل ملک کی زراعت میں کافی بہتری بھی آئی ہے، سرکار ایک خاص منصوبے کے تحت، جسے سمجھنا رتی بھر مشکل نہیں، ہائوسنگ سکیم میں بدلنا چاہتی ہے۔ اس رقبے پر زرعی تحقیق بند کر کے چھ ہزار قیمتی پلاٹ نکالنا چاہتی ہے۔ ملکی ترقی کی بنیادیں کمزور کر کے بیک وقت ایک سو پچاس ارب روپے سمیٹنا چاہتی ہے؛ تاکہ حکمران اپنے اللے تللے پورے کر سکیں۔ وزیراعظم اینڈ کمپنی کے لوگ زیادہ سے زیادہ غیر ملکی دورے لگا سکیں۔ اسمبلی کے ارکان کی تنخواہیں دگنی کی جا سکیں اور کمیشن، کک بیکس کی رقم باہر منتقل کی جا سکے۔ زرعی تحقیقاتی ادارے سے حکمرانوں کو تو کچھ حاصل وصول ہونے کی توقع نہیں ہے ہاں البتہ ہائوسنگ پراجیکٹ میں حصہ داری کی جا سکتی ہے اور منافع میں حصہ ڈالا جا سکتا ہے۔
میرے ایک پرانے قاری کا خیال ہے کہ یہ ادارہ کچھ نہیں کر رہا؛ لہٰذا اسے بند کرنا جائز ہے، اس کی زمین کے پلاٹ بنانا واجب ہیں اور اس رقبے کو بیچ کر پیسے کھرے کرنا فرض عین ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ پی اے آر سی یعنی پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل جو این اے آر سی کا انتظامی کنٹرول چلاتی ہے اپنے مینڈیٹ سے ہٹ کر کام کر رہی ہے لہٰذا این اے آر سی کا بند کرنا منطقی طور پر درست ہے۔ اس حوالے سے اگر پی ٹی اے آر سی کے مینڈیٹ سے ہٹ کر چلنے کو این اے آر سی کی بندش یا فروخت کا جواز بنایا جائے تو پاکستان کے تقریباً سارے تحقیقاتی ادارے بند یا فروخت کرنا پڑیں گے۔ نیب کا کام کرپشن روکنا اور کرپٹ لوگوں کو پکڑ کر سزا دینا ہے۔ نیب پہلی بار گین کا ادارہ بن گیا ہے۔ چار کروڑ کا غبن کرو، دو کروڑ واپس کرو اور باقی دو کروڑ سے موج میلہ کرو۔ دس کروڑ کی کرپشن کرو، بچ گئے تو واہ واہ، اگر پکڑے گئے تو چار کروڑ بھی بارگین میں واپس کرو بقیہ چھ کروڑ سے مزے اڑائو۔ بھلا کون سا ادارہ ہے جو مینڈیٹ پر چل رہا ہے؟
یہ بات درست، کہ این اے آر سی اس سطح کی زرعی تحقیق نہیں کر رہا جس سطح کی تحقیق دنیا بھر میں ان کاموں کے لیے مخصوص ادارے کر رہے ہیں۔ آج بھی پاکستان سبزیوں کے تمام بیج امپورٹ کرتا ہے۔ بی ٹی بیج باہر سے منگوایا جا رہا ہے لیکن یہ بالکل الگ موضوع ہے اور ایک علیحدہ کالم کا متقاضی بھی۔ فی الوقت این اے آر سی کی بات ہو رہی تھی۔ تمام تر کوتاہیوں اور خامیوں کے باوجود ابھی بھی یہ ادارہ ان معدودے چند سرکاری اداروں میں شامل ہے جن کی کارکردگی بہرحال بے شمار سرکاری اداروں سے بدرجہا بہتر ہے۔ 1980ء میں پاکستان میں گندم کی فصل میں RUST کی بیماری آ گئی اور گندم کی فصل برباد ہو گئی۔ صرف 1980ء سے 2015ء تک رسٹ کی بیماری سے گندم کی مختلف اقسام کے بیج کی تیاری سے ملک کو ہر سال اربوں روپے کا فائدہ پہنچا۔ ملک کو اس حوالے سے تقریباً دو ہزار ارب روپے کا فائدہ ہو چکا ہے۔ پولٹری کی بیماریوں سے بچائو کے ذریعے تقریباً 73 ارب روپے، شہد کی صنعت اور زرمبادلہ کے حوالے سے ملک پچاس ارب روپے کما چکا ہے۔ چین بینک میں موجود Germ Plasm کے حوالے سے دنیا کے سترہ سو اداروں میں این اے آر سی اٹھارہویں نمبر پر ہے۔ کینولا، سرسوں، انگور، زیتون اور دیگر کئی بیج متعارف کروائے گئے جن سے اربوں روپے کا فائدہ ہوا لیکن اس کے باوجود اس کی زمین کے پلاٹ بنا کر فروخت کرنے کی تجویز وزیراعظم کی میز پر پڑی ہے۔
اگر صرف خراب کارکردگی اور نالائقی کی بنیاد پر ادارے بند کرنے ہیں تو میرے پاس بے شمار مناسب تجاویز ہیں۔ وزیراعظم کی کارکردگی آپ کے سامنے ہے اگر خراب کارکردگی کی بنیاد پر ان سے وزیراعظم ہائوس اور سیکرٹریٹ ہی واپس لے لئے جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہو گا۔ اس سیکرٹریٹ کو بزنس سنٹر بنایا جا سکتا ہے۔ اگر برطانوی وزیراعظم بارہ پندرہ کمروں کے دفتر اور چار بیڈ روم کے گھر میں رہ کر دنیا کی چوتھی بڑی طاقت ہے تو پاکستان کس شمار قطار میں ہے۔ صدر مملکت کے پاس سال میں ایک بار پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب اور آرڈی نینسوں پر دستخط کرنے کے سوا کوئی کام نہیں۔ یہ کام وہ کسی چھوٹے سے دفتر میں مناسب سائز کی میز اور کرسی پر بیٹھ کر بھی سرانجام دے سکتے ہیں۔ شنید ہے کہ ایوان صدر کا روزانہ خرچہ سات لاکھ اسی ہزار روپے ہے۔ یعنی اس حساب سے تقریباً چھبیس کروڑ روپے سالانہ۔ کیا اتنا معمولی کام اور اتنا زیادہ خرچہ عقل مندی ہے؟ اگر انہیں چھوٹے سے گھر میں منتقل کر دیا جائے اور چار چھ سالانہ دستخط کرنے کے لیے انہیں ایک نہایت اعلیٰ ساگوان کی لکڑی کی میز اور صندل کی لکڑی کی کرسی بنوا کر اور ایوان صدر کو سیون سٹار ہوٹل میں تبدیل کر دیا جائے تو نہ صرف ساڑھے چھبیس کروڑ روپے کی بچت ہو گی بلکہ ہوٹل سے کروڑوں روپے کمائے جا سکتے ہیں۔ یہ عاجز اس ہوٹل کو لیز پر لینے کے لیے تیار ہے۔ گورنروں کے پاس پہلے ہی کوئی کام نہیں تھا، اٹھارویں ترمیم کے بعد وہ مزید فارغ البال ہو گئے ہیں، لہٰذا اگر چاروں گورنر ہائوس بند کر دیئے جائیں تو تقریباً چالیس کروڑ روپے سالانہ کی بچت ہو گی۔ ان گورنر ہائوسز کو لگژری گیسٹ ہائوسز بنا دیا جائے تو خرچہ ختم اور آمدنی شروع ہو جائے گی۔ ایف بی آر، ٹیکس اکٹھا کرنے کے کام میں بری طرح ناکام ہے، ہر سال خسارے کا بجٹ کم وصولی کے باعث مزید خسارے کا بن جاتا ہے۔ ایف بی آر کو کسی اچھے صنعتکار کو ٹھیکے پر دے دیا جائے اور یہ محکمہ بند کر کے چونگیوں کی طرح ٹیکس وصولی، نیلامی کے ذریعے کی جائے۔ جامعات میں تعلیم و تحقیق کا کام تنزلی کا شکار ہے، یونیورسٹیوں کی سینکڑوں ایکڑ اراضی کو اچھی سی ہائوسنگ سکیموں میں تبدیل کر دیا جائے تو ہر سال تنخواہوں کی مد میں خرچ ہونے والے اربوں روپے کی بھی بچت ہو گی اور آمدنی علیحدہ ہو گی اور ہاں یاد آیا قومی اسمبلی کی کارکردگی بھی نہایت خراب ہے۔ عرصہ ہوا کوئی کام کی قانون سازی نہیں ہوئی۔ دو چار ترامیم کے علاوہ اس نے کوئی کام نہیں کیا اور یہ ترامیم بھی دراصل عوام کی فلاح کے لیے نہیں بلکہ حکمرانوں نے اپنے ذاتی فوائد کے لیے کیں۔ کسی نے طاقت سمیٹنے کے لیے اور کسی نے وہ طاقت واپس لینے کے لیے، کسی نے تیسری بار وزیراعظم بننے کے لیے اور کسی نے مقدمات سے جان چھڑوانے کے لیے، غرض گزشتہ کئی عشروں میں قومی اسمبلی میں ارکان نے اپنے مشاہرے اور مراعات میں اضافے کے علاوہ عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کچھ نہیں کیا۔ اس کی کارکردگی صفر جمع صفر کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اس لیے نہایت ہی مناسب ہے کہ قومی اسمبلی کو بزنس سنٹر میں اور پارلیمنٹ لاجز کو ہوسٹل میں تبدیل کر دیا جائے تاکہ کام نہ کرنے پر سزا کا تصور رائج ہو اور ملک عزیز میں جزا اور سزا کا تصور پروان چڑھ سکے۔
قارئین ! ایک کالم میں صرف اتنے اداروں اور افراد کا ہی جائزہ لیا جا سکتا تھا پورے نظام پر روشنی ڈالنے کے لیے ایک کتاب کی ضرورت ہے، جس کا فی الحال میرے پاس وقت نہیں ہے، تاہم یہ بات طے ہے کہ اگر کام نہ کرنے یا مناسب طریقے سے نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ادارے کو بند کر دیا جائے، زمین فروخت کر دی جائے یا وہاں ہائوسنگ سکیم بنا دی جائے تو ملک عزیز کے تقریباً سارے عہدے فارغ اور سارے ادارے بند کرنے پڑیں گے۔ شاید دو چار ادارے بچ جائیں وہ بھی رعایتی نمبروں پر پاس ہونے کی بنیاد پر۔
حکومت کا کام ادارے بند کرنا، زمینیں بیچنا، ہائوسنگ سکیمیں بنانا نہیں۔ اداروں کی بہتری اور خرابیوں کی درستی حکومتوں کے کام ہیں جو حکومت یہ کام نہیں کر سکتی اسے حکمرانی کا حق حاصل نہیں۔ ایسے حکمران دوسروں پر کیا انگلی اٹھا سکتے ہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved