میرا بیان مشرف کے حوالے سے تھا
توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا...زرداری
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''میرا بیان مشرف کے حوالے سے تھا جسے توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا‘‘ کیونکہ مجھے کسی نے بتایا تھا کہ مشرف ہی کراچی میں رینجرز کے ذریعے ہمارے خلاف کارروائیاں کروا رہے ہیں جبکہ اینٹ سے اینٹ بھی مشرف ہی کی بجانا مقصود تھا جس کے لیے ہماری اینٹ تو تیار تھی لیکن موصوف نے مارے خوف کے اپنی اینٹ ادھر ادھر کر دی اور اسی لیے بجائی نہ جا سکی‘ علاوہ ازیں ‘ عوام کی اکثریت کی رائے یہ تھی کہ میں نے صرف بڑھک ماری ہے اور اپنے بیان پر قائم نہیں رہوں گا ۔
ہم چونکہ عوامی آدمی ہیں اس لیے عوام کی رائے کو غلط بھی قرار نہیں دے سکتے‘ نیز الطاف بھائی اگر اپنے بیانات کی اکثر اوقات تردید یا وضاحت کر دیتے ہیں بلکہ واپس بھی لے لیتے ہیں تو میں کیوں ایسا نہیں کر سکتا۔ جب تک شرفاء کے بیانات کو توڑ مروڑ کر شائع کرنے کی روایت ختم نہیں ہو جاتی ملک کبھی ترقی نہیں کر سکتا اور ترقی کے اسی مقام پر ٹکارہے گا جس پر ہم نے اسے اپنے پانچ سالہ دور میں پہنچا دیا تھا۔ آپ اگلے روز نوڈیرو میں بینظیر بھٹو کی سالگرہ پر خطاب کر رہے تھے۔
ڈی جی رینجر کو خط لکھنا اتنا بڑا معاملہ نہیں
تھا جتنا بنا دیا گیا...قائم علی شاہ
وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ ''ڈی جی رینجرز کو خط لکھنا اتنا بڑا معاملہ نہیں تھا جتنا میڈیا نے بنا دیا‘‘ کیونکہ اس میں زیادہ تر رینجرز کی خیریت ہی دریافت کی گئی تھی یا موسم کے بارے میں شکایت تھی کہ گرمی بہت پڑ رہی ہے وغیرہ وغیرہ ۔اور اسی طرح زرداری صاحب کا جرنیلوں کے خلاف بیان کبھی اتنا بڑا نہیں تھا اور جس کی انہوں نے وضاحت بھی کر دی ہے کہ جرنیلوں سے ان کی مراد صرف جنرل مشرف تھی اور احترام کی وجہ سے صیغہ جمع غائب استعمال کیا گیا تھا‘ نیز جتنی زمین فوج کو الاٹ کی جا رہی ہے‘ اگر مافیا اس پر اپنا قبضہ جما لیتا تو اس سے ہمیں اربوں کھربوں روپے حاصل ہو سکتے تھے؛ جن کی ماشاء اللہ پہلے بھی کمی نہیں ہے۔ ایک وزیر کے گھر سے دو ارب روپے برآمد ہونا اگر خوشحالی کی علامت نہیں تو اور کیا ہے؛ جبکہ اگر رینجرز نے یہ بے تکلفی جاری رکھی تو ایسی کئی اور مثالیں بھی سامنے آ سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''رینجرز کے ساتھ جو تھوڑی بہت شکر رنجی ہے ‘ بہت جلد دور ہو جائے گی‘‘ جبکہ فوج کے ساتھ زرداری صاحب کی شکر رنجی پہلے ہی دور ہونے والی ہے۔ آپ اگلے روز لاڑکانہ میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
مشورہ درکار ہے
ہر گاہ بذریعہ اشتہار ہذا ہر خاص و عام سے مشورہ درکار ہے کہ موجودہ صورتحال میں خاکسار کو کیا کرنا چاہیے یعنی بدستور خاموشی اختیار کیے رکھوں‘ فوج کی یا زرداری صاحب کی حمایت میں زوردار بیان جاری کر دوں جبکہ تینوں صورتوں میں نتیجہ کچھ اچھا نکلنے کا امکان نہیں ہے کیونکہ اگر فوج کی حمایت کرتا ہوں تو وہ اس حوصلہ افزائی سے کراچی میں جرائم پیشہ معززین کے خلاف مزید کھل کھلا کر کارروائی کرنا اور لوٹ کھسوٹ کا پیسہ واپس لینا شروع کر دے گی جس کا سلسلہ کافی دور تک پھیل سکتا ہے اور اگر زرداری صاحب کی حمایت کر دوں تو اس کے نتائج مزید خوفناک ہو سکتے ہیں جبکہ خاموش رہنا بھی خطر ے سے خالی نظر نہیں آتا۔ پہلے تو اہم اور بڑے بڑے مسائل اس کے ذریعے حل کر لیے جاتے تھے لیکن اس روز ٹاس کا فیصلہ الٹا گلے بھی پڑ سکتا ہے کیونکہ اسی دوران کڑے احتساب کی سنائونی بھی کانوں میں پڑ چکی ہے۔ اب تک تو خاکسار نے کابینہ چھوڑ‘ کبھی ارکان اسمبلی سے بھی مشورہ کرنے کا تکلف نہیں کیا تھا اور مشورہ لینے کا یہ چانس پہلی بار لیا جا رہا ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں رہنمائی مطلوب ہے جو جلدازجلد ارزانی کی جانی چاہیے کیونکہ اس پریشانی کی وجہ سے بھوک بھی کم لگتی ہے اور ہوش و حواس بھی اڑے اڑے سے رہتے ہیں۔المشتہر:نواز شریف عفی عنہ
مبارکباد
بذریعہ اشتہار ہذا ہر خاص و عام کو مبارک ہو کہ ایان علی نے جیل میں 100دن پورے کر لیے ہیں اور اگر وہ اسی طرح استقامت اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتی رہیں تو میری طرح انہیں بھی خاتون حُر کا خطاب مل سکتا ہے ۔ بلکہ دوسری قابل مبارک باد یہ ہے کہ موصوفہ نے جیل میں روزے بھی رکھنا شروع کر دیئے ہیں حالانکہ ایسی نیک روحوں کو مزید ثواب حاصل کرنے کی کوئی خاص ضرورت بھی نہیں ہوتی؛ چنانچہ پامردی سے جیل میں 100دن مکمل کرنے کی خوشی میں پارٹی کے اندر جشن منانے کی تیاریاں بھی کی جا رہی ہیں کیونکہ بینظیر بھٹو شہید کی سالگرہ سے فارغ ہو چکے ہیں اور مشرف کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر بھی واپس نہ لینے کا اعلان کر دیا گیا ہے‘ حالانکہ اس مرحلے پر اس کی چنداں ضرورت نہیں تھی لیکن اپنے بیان کو جرنیلوں کی بجائے مشرف کی طرف موڑ نا بھی ایک حکمت عملی تھی تاکہ اس بیان کی سختی کو نرم کیا جا سکے اور اگلے بیان میں انشاء اللہ سارے پاکستان کو بند کر دینے والی بات کا رشتہ بھی مشرف ہی کے ساتھ جوڑنے کی تدبیر کی جائے گی جبکہ اینٹ سے اینٹ بجا دینے والی بات بھی محاورتاً ہی کی گئی تھی۔ امید ہے کہ ایان علی بہت جلد ضمانت پر رہا یا بری ہو کر اپنی گرانقدر خدمات دوبارہ شروع کر دینگی!
المشتہر:احقر آصف علی زرداری عفی عنہ
آج کا مطلع
موسم ہے الگ‘ آب و ہوا اور ہی کچھ ہے
یک طرفہ محبت کا مزا اور ہی کچھ ہے