اپنی دانست میںپاکستان کے انتہائی ذہین اور سارے سیاستدانوں سے زیادہ سمجھدار جناب آصف علی زرداری نے اب تک ثابت کیا کہ ''اک زرداری۔ سب پر بھاری۔‘‘ بھاری تو وہ بہت ثابت ہوئے۔ مگر اپنے ہی وزن سے زمین میں ایسے دھنسے کہ اب اوپر اٹھنے کے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں۔پہلے تو اس زعم میں افطار ڈنر دے ڈالا کہ اس میں ساری اپوزیشن کو جمع کر کے‘ وزیراعظم کی خدمت میں پیش کر دیں گے اور خیرسگالی کے لئے وہ افطار ڈنر میں رونق افروز ہو جائیں گے۔ مگر وزیراعظم کو تو کیا آنا تھا؟ اپوزیشن بھی پوری نہیں آئی۔ حتیٰ کہ ہر موقع پر کام آنے والے اسفندیار ولی خان بھی مولانا بھاشانی کی طرح عین وقت پر علیل ہو گئے۔ دوسری طرف وزیراعظم اتنے کٹھور نکلے کہ کسی تکلف کے بغیرافطار ڈنر میں شریک ہونے سے انکار کر دیا۔غالباً یہ ان کی حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی کو پہلا جھٹکا تھا۔ جس سے انہیں اندازہ ہوا کہ وہ خود کو جتنا بھاری بھرکم اور عقل مند سمجھ رہے تھے‘ وزیراعظم اور اسفند یار ولی خان نے ان کی رائے سے اتفاق نہیں کیا۔وہ تو سمجھ رہے تھے کہ ایک تقریر کر کے وہ نشان حیدر کے امین کو ڈرا دیں گے۔ مگر جلد ہی انہیں اندازہ ہو گیا کہ ڈرنے کی ذمہ داری ایک کی بجائے دو پر آن پڑی ہے۔ ایک وزیراعظم اور دوسرے خود جناب زرداری پر۔ زرداری صاحب خود اپنی جگہ جو کمر تک زمین میں دھنسے ہوئے تھے‘ باہر نکلنے کے جتن کر رہے تھے۔پچھلے دنوں وزیراعظم کو زرداری صاحب کی تقریر نے اچانک آ لیا تھا اور وہ کسی طرح نشان حیدر کے امین کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ زرداری صاحب کی اس تقریر میں ان کی کوئی مشاورت شامل نہیں ہے۔ انہوں نے بغیر کسی تاخیر کے فوراً ماسکو میں ٹیلیفون کیا اور جو کچھ کہا وہ سب نے سمجھ لیا ہو گا۔ قریبی حلقوں کا تاثر یہ تھا کہ ایک ٹیلی فون کال کے بعد زرداری صاحب کی لگائی ہوئی چوٹ کا اثر زائل ہو گیا ہو گا۔ لیکن واقعات نے کچھ اور ہی ثابت کیا۔ چیف آف آرمی سٹاف ماسکو کے دورے سے واپس آئے۔ وزیراعظم اسلام آباد میں موجود رہے۔ لیکن سپہ سالار واپس آتے ہی محاذجنگ کی طرف جا نکلے۔ ہفتہ اتوار ‘وزیراعظم لاہور میں گزارتے ہیں۔ سنا ہے کہ چیف ہفتے اتوار کو دارالحکومت آ گئے لیکن ان کی وزیراعظم سے ملاقات نہیں ہوئی۔ حالانکہ وہ لاہور کا دورہ ملتوی کر کے‘ بغیر کسی مصروفیت کے اسلام آباد میں ہی رہے۔ اسے محض اتفاق کہہ سکتے ہیں کہ تادم تحریر وزیراعظم اور چیف کے درمیان ملاقات نہیں ہوئی۔
ادھر زرداری صاحب‘ وزیراعظم کے براہ راست ردعمل کے منتظر تھے۔ نہ تو وہ افطارڈنر میں تشریف لائے‘ حتیٰ کہ عدم شرکت کی معذرت تک نہ کی اور نہ ہی انہیں کسی ذریعے سے پتہ چلا کہ ماسکو میں ان کی کیا بات ہوئی؟ تشویش اضطراب میں بدلی اور انہیں اچانک سندھ کے مرتے‘ تڑپتے اور گرمی میں جھلستے عوام کے دکھوں کا احساس ہوا اور انہیں پتہ چلا کہ سندھ میں بجلی کے سارے قحط کے ذمہ دار تو جناب وزیراعظم ہیں۔ انہیں خط لکھا گیا۔ جس میں سندھ میں ساری لوڈشیڈنگ کی ذمہ داری وزیراعظم پر ڈال دی اور بڑے طریقے سے ان کی غیرذمہ داری اور سندھی عوام سے بے اعتنائی کا گلہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ سندھی عوام کو لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات دلائیں۔ عجیب تقریر تھی جس سے تینوں مصیبت میں پڑ گئے۔ جناب زرداری بھی۔ جناب وزیراعظم بھی اور تیسرے کو تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔ ایک تیر سے کئی نشانے تو لگتے دیکھے ہیں‘ لیکن خود تیر انداز کو نشانہ بنتے بہت کم دیکھنے میں آیا ہے۔ زرداری صاحب کی تقریر اتنے کمال کی تھی کہ اس میںباقی تو پتہ نہیں کس کس کو نشانہ بنایا‘ ساتھ ہی خود بھی ڈھیر ہو گئے۔اب اس کوشش میں ہیں کہ خود کو لگے ہوئے زخم پر مرہم رکھنے کے لئے کس کس سے مدد لیں؟ آج ہی کی خبر ہے کہ اس سلسلے میں انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کو ٹاسک دیا ہے کہ وہ تقریر کے زخم کا مرہم تلاش کریں۔ انہوں نے لاڑکانہ میں پیپلزپارٹی کے بڑوں کا ایک اہم اجلاس بلایا‘ جس میں فیصلہ کیا گیا کہ عسکری قیادت کا اعتماد بحال کرنے کے لئے چھوٹے سائیں ‘ کورکمانڈر کراچی اور ڈی جی رینجرز سے ملاقاتیں کر کے‘ تقریر کی وضاحت کریں۔ زرداری صاحب کی مردم شناسی کی داد دینا پڑتی ہے کہ جو کام فرحت اللہ بابر صاحب‘ کائرہ صاحب اور شیری رحمن صاحبہ سے نہ ہو سکا‘ وہ قائم علی شاہ صاحب کر گزریں گے۔ میں شاہ صاحب کو سندھ کی سیاست کا شناور سمجھتا ہوں‘ لیکن جن پانیوں کے وہ شناور ہیں‘ ان کی اونچی لہر تک تو وہ کبھی ابھرے ہی نہیں۔ چھوٹی چھوٹی لہروں میں قسمت آزمائی کرتے رہے۔ جن کمانڈروں سے مذاکرات کرنے کی ڈیوٹی ان کے ذمے لگائی گئی ہے‘ ان کے سامنے شاہ صاحب کے بولنے کی کوئی رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی۔ جن میٹنگوں میں شاہ صاحب سائیں‘ کمانڈروں کے ساتھ بیٹھتے رہے‘ وہاں وہ کیا بولے؟ کب بولے ؟اور کتنا بولے؟ یہ حاضرین میں سے شاید ہی کسی نے سنا ہو۔ ایک طرف زرداری صاحب سب پہ بھاری ہیں اور اپنی امیدوں کا آشیانہ جس شاخ نازک پہ انہوں نے بنایا ہے‘ وہ تو اس کے وزن سے خود ہی لٹک جائے گی۔ ایسا نہ ہو کہ سب پر بھاری‘ اپنے ہی شاہ جی پر بھاری پڑ جائے۔
تیسری طرف سے بھی خبر اچھی نہیں آئی۔ زرداری صاحب نے وزیراعظم کے نام جو شکوہ شکایت سے بھرا ہوا خط لکھا‘ اس کا مقصد تو شاید کچھ اور تھا۔ ہو سکتا ہے انہوں نے سندھی عوام کا دکھ درد وزیراعظم تک پہنچا کے سوچا ہو کہ صوبے کے عوام یہ پڑھ کر آسودگی محسوس کریں گے کہ ان کے لیڈر نے ان کے دکھ درد سے آگاہ کرتے ہوئے وزیراعظم سے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر آپ اس مسئلے کا نوٹس لے کر مسئلہ حل کرا دیں تو میں آپ کا شکر گزار ہوں گا۔ خط کا یہ انداز خالص درخواستیں لکھنے والے فدوی کا ہے۔وزیراعظم سے یہ تک کہنے کا حوصلہ نہیں کیا گیا کہ وہ یہ مسئلہ حل کریں۔ بلکہ صرف یہ جسارت کی گئی کہ وہ نوٹس لے لیں اور نوٹس تو وزیراعظم روزانہ ہی لیتے ہیں۔ ایک اور سہی۔ خط لکھتے وقت شاید زرداری صاحب کو اندازہ نہیں تھا کہ'' دونوں طرف ہے آگ برابر بجھی ہوئی‘‘۔ ادھر عابدشیر علی ماچس کی تیلی برابر ہی سہی‘ شعلہ تو بھڑکا سکتے ہیں۔ شاہ جی کیا بھڑکائیں گے؟ ان کے شعلے میں تو بھڑک ہی نہیں۔
تاریخ میں ایسے بہت سے لیڈر گزرے ہیں‘ جن کی تقریر ان پر بھاری پڑ گئی‘ لیکن اس معاملے میں بھی اک زرداری ‘سب پر بھاری۔شاید ہی کسی سیاستدان پر اپنی تقریر اتنی بھاری پڑی ہو‘ جتنی زرداری صاحب پر پڑ گئی ہے۔ اس تقریر کا بوجھ دونوں لیڈر یعنی وزیراعظم اور زرداری صاحب مل کر اٹھا لیں‘ تو بڑے خوش قسمت ہوں گے۔ مگر مجھے نہیں لگتا کہ یہ بوجھ وہ اٹھا سکیں۔ دوسری طرف شہباز برسوں سے جھپٹ کر پیٹ پھاڑنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ میری اطلاع کے مطابق جتنے کھانے وزیراعظم صاحب اور زرداری صاحب نے اکٹھے کھائے ہیں‘ ان میں شہباز شریف نے شرکت سے اکثر گریز کیا۔غالباً انہیں ڈر تھاکہ وہ بے قابو ہو کر کہیں پیٹ نہ پھاڑ بیٹھیں۔ ان دنوں وہ بھی لوڈشیڈنگ کے ہاتھوں تنگ ہیں۔ پیٹ کوپھاڑ کے انہوں نے بہت کچھ نکالنے کا عزم ظاہر کر رکھا ہے۔ جس دن ان کا دائو لگ گیا‘ پیٹ پھاڑ کے وہ سب کچھ نکال لیں گے‘ جو اطلاعات کے مطابق دبئی منتقل ہو چکا ہے۔ ذرا غور کیجئے کہ ایک تقریر کس کس پر بھاری ہو سکتی ہے؟ ان کے ورکروں نے واقعی درست نعرہ لگایا کہ ''اک زرداری۔ سب پر بھاری‘‘۔ پارٹی پر وہ بھاری۔ ساتھیوں پر وہ بھاری۔ دوستوں پر وہ بھاری۔ اپنے آپ پر وہ بھاری۔