ایک کے بعد تکبّر کا دوسرا ہولناک مظاہرہ ،حیرت ہوتی ہے ۔وہ سب جانتے ہیں او روہ سب بھول جاتے ہیں کہ کبریائی اس کی چادر ہے۔
سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمّتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آذری
نیو یارک ٹائمز کے خوفناک انکشافات سے چار دن قبل، گوجرانوالہ کے نواح میں ایک گاڑی دیکھی ''پاکستان کا سب سے بڑا میڈیا گروپ‘‘ سوچا ''یارب تو بڑا بے نیاز ہے‘‘۔ چند روز میں خاک اڑتی تھی ۔ تنی ہوئی گردنیں جھک گئی تھیں ۔
چوہدری نثار نے تو ایک اور پیرائے میں کہا کہ حکمران پارٹی کا مقابلہ لوڈشیڈنگ کے ساتھ ہے ۔ اس میں جو اضافہ چوہدری پرویز الٰہی کی گاڑی کے سامنے دھمال ڈالنے والے نے کیا، وہ ششدر کر دینے والا ہے ۔ فرمایا: اگر بجلی کے بحران پر ہم نے قابو پا لیا تو یہ (ہمارے سیاسی حریف ) دکھائی تک نہ دیں گے ۔با انداز دگر وہی تکبّر جو زرداری صاحب کو لے ڈوبا۔
دیکھا میں، قصر فریدوں کے در اوپر اک شخص
حلقہ زن ہو کے پکارا ''کوئی یاں ہے کہ نہیں‘‘
نون لیگ کا مقابلہ فقط لوڈشیڈنگ کے ساتھ نہیں ، مہنگائی اور بے روزگاری سے ہے ۔ بد انتظامی اور دہشت گردی کے ساتھ ۔ پولیس برباد ہو چکی۔ پٹوار ایک رستا ہو ازخم ہے ، جس کے اندمال کی کوئی تدبیر نہیں ۔ لاہور میں خواتین کے ہسپتالوں میں ایک ایک بستر پر تین تین عورتیں پڑی ہیں ۔ 1122کے لیے چندے کی اپیل کی گئی ۔ سرکاری شفا خانوں میں ،ہر دس میں سے کم از کم چھ سات ہیپا ٹائٹس کے مریض ہیں ۔ ملک بھر میں یرقان کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے کہ دنیا میں کوئی دوسری مثال نہ ہوگی ۔ شایدپوری انسانی تاریخ میں نہیں ۔ ایک چوتھائی بچے سکول نہیں جاتے ۔ ڈگریاں لے کر جو نکلتے ہیں ،وہ نیم خواندہ ۔ مدارس کے طالب علموں کی تعداد بیس لاکھ سے زیادہ ہے اور وہ معاشرے کا حصہ بننے پر آمادہ نہیں ۔ یہی عالم انگریزی میڈیم سکولوں کا ۔ انگریزی سکولوں سے وہ مخلوق نکل رہی ہے ، جس کااپنی قوم سے کوئی واسطہ ہی نہیں ۔ اس کی تاریخ، اس کے تمدّن اور اس کی روایات سے ۔
جہاں تک حکمران جماعت کی مقبولیت کا تعلق ہے ، اس کا حال گوجرانوالہ کے قصبے گکھڑ منڈی میں دیکھ لیا۔ نون لیگ کا امیدوار 29ہزار ووٹ لے کر جیتا تھا۔ 119میں سے صرف 33پولنگ سٹیشنوں پر دوبارہ پولنگ کا حکم ہوا۔ ضمنی الیکشن میں حکومت نہیں ہارتی مگر یہاں کیا ہوا؟ حمزہ شہباز نے گوجرانوالہ میں پڑائو ڈال دیا۔ وزیرِ تجارت خرم دستگیر اور ضلع بھر سے نون لیگ کے ارکانِ اسمبلی نے چھوٹے سے قصبے پر یلغار کر دی ۔ 26ہزار ووٹ لینے والا آزاد امیدوار سرکاری نمائندے کے حق میں بیٹھ گیا۔ اس کے باوجود قاف لیگ سے پی ٹی آئی میں آنے والا امیدوار جیت گیا۔ حکمران پارٹی کی حکمتِ عملی یہ تھی کہ دس دس کے گروہ بناکرپولنگ سٹیشنوں کا رخ کیاجائے۔ کہا جاتاہے کہ اسلحہ سے لیس ہو کر ۔ پی ٹی آئی کے امیدوارنے مقابلہ کرنے کا تہیہ کر لیا۔ تحریکِ انصاف کے جواں سال کارکن میدان میں اترے۔ رکشوں ، موٹر سائیکلوں ، حتیٰ کہ سائیکلوں پر ووٹروں کو وہ پولنگ سٹیشنوں پر لے گئے۔ نون لیگ کی پذیرائی اگر برقرار ہوتی تو سرکاری امیدوار کو
کم از کم آٹھ ہزارکی برتری حاصل ہوتی ۔ پھر وہ ہار کیوں گیا؟ اس لیے کہ دھاندلی کی کوشش ناکام بنا دی گئی ۔ (اور گلو بٹ ایسا ایک کردار تماں بٹ نون لیگ کی مزید نیک نامی کا باعث بنا)۔ اس لیے کہ پہلی بار گوجرانوالہ میں تحریکِ انصاف کے رہنما متحد ہو گئے۔ ایس اے حمید، بلال اعجاز ، نعیم الرحمن او رعلی اشرف۔ سب کے سب انتخابی مہم میں شریک ہوئے۔ اس کے باوجود وہ ظفر مند رہے کہ شاہ محمود قریشی کے مبارک قدموں نے اس سرزمین کو سرفراز کیا۔ جہاں کہیں وہ تشریف لے جاتے ہیں، شکست پارٹی کا مقدر ہوتی ہے ۔ ان کی بجائے چوہدری سرور ایسا ڈھنگ کا کوئی رابطہ کار ہوتا تو اپوزیشن امیدوار کا پرچم کچھ اور بھی بلند ہوتا۔
نون لیگ سے لوگ ناراض ہیں ۔ ایسے علاقے بھی گوجرانوالہ میں ہیں، جہاں جون کے مہینے میں بھی گیس مہیا نہیں ۔ بجلی کا حال سب کے سامنے ہے ۔ پیپلز پارٹی اگر تحلیل ہو رہی ہے اور تحریکِ انصاف اگر نالائقی پر تلی رہتی ہے تو اس کامطلب یہ کیسے ہو گیاکہ میاں صاحبان کی مقبولیت بڑھ گئی ۔ زندگی اپنی خوبیوں پر بسر کی جاتی ہے ، دوسروں کی خامیوں پر نہیں ۔ اگر آج کوئی انّا ہزارے اٹھ کھڑا ہو تو سرکاریوں کو آٹے دال کا بھائو معلوم ہو جائے ۔کوئی دن جاتاہے کہ ایسا ہو کر رہے گا۔عوامی ناراضی بہرحال متشکّل ہوا کرتی ہے ۔ دو باتیں درباری نظر ا نداز کر رہے ہیں ۔ اوّل یہ کہ خلا کبھی باقی نہیں رہتا۔ زرداری صاحب پٹ گئے اور تحریکِ انصاف خودشکنی کا شکار ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ شریف خاندان چین کی بنسری بجاتا رہے گا۔ پولیٹکل سائنس کا اصول یہ ہے کہ بیس فیصد لوگوں کو مشتعل کر کے حکمرانی ممکن ہی نہیں ہوتی۔ ملک بھرمیں لوڈشیڈنگ کے خلا ف ایسا آتش گیر احتجاج برپا ہے اور اس پر یہ تکبّر؟
موزوں تو یہ ہے کہ سروے گیلپ ایسا کوئی ادارہ کرے ورنہ کوئی چینل یا اخبار۔ کتنے فیصد لوگ عسکری قیادت کو سول لیڈر شپ پرترجیح دیتے ہیں ؟ نتائج حیران کن ہوں گے ۔مراد یہ نہیں کہ فوج شب خون مارے ۔ اس طرح کے پچھلے تجربوں سے کیا حاصل ہوا کہ ایک بارپھر وہی غلطی دہرائی جائے ۔ نون لیگ والوں سے درخواست یہ ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں‘ پیپلزپاٹی کی پامالی اور تحریکِ انصاف کے بچگانہ پن سے یہ نتیجہ اخذنہ کریں کہ دائم اب وہ اقتدار میں رہیں گے ۔ 1990ء میں میاں نواز شریف نے دعویٰ کیاتھا کہ پچیس سال تک وہ حکومت فرمائیں گے ۔ اڑھائی سال پورے نہ کر سکے ۔ دوسری بار دو تہائی اکثریت حاصل کی ۔ تین سال کے بعد جلا وطن کر دیے گئے۔ گیلپ نے سروے کیاتو معلوم یہ ہوا کہ صرف بیس فیصد فوجی مداخلت پہ ناخوش ہیں ۔ 70فیصد نے خیر مقدم کیا۔ یہ الگ بات کہ آٹھ برس میں جنر ل پرویز مشرف اسی زعم کا شکار ہوئے اور اسی انجام کا۔ سروے کرا لیجیے ، آج ایک قابلِ ذکر تعداد میاں محمد نواز شریف پر انہیں ترجیح دے گی۔
تاویل ایک مرض ہے ۔ دوسروں کو نہیں ، اس کا مریض خود کو دھوکہ دیتاہے ۔ بیس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے لیکن تاریں بوجھ نہیں اٹھا سکتیں ۔ دوسال میں ٹرانسمیشن لائنز کو بہتر بنانے کے لیے کتنا کام ہوا؟ بعض اعتبار سے حالات سازگار بھی تھے ۔ قوم مہلت دینے پر آمادہ تھی۔ دھرنوں کو اس نے مسترد کر دیا۔ تیل کی درآمد میں دو بلین ڈالر کی بچت ہوئی ۔ (عالمی ماہرین کا اندازہ ہے کہ آئندہ پانچ برس بھی صورتِ حال مثبت رہے گی)۔ سمندر پار پاکستانیوں نے پیسہ زیادہ بھیجا۔ اس کے باوجود ملک کی تاریخ میں پہلی بار شرحِ خواندگی کم ہوگئی ۔ زراعت اس طرح برباد ہوئی کہ کسانوں کی آمدن آدھی رہ گئی ۔ ز یادہ تر پیسہ میٹرو ایسے غیر ضروری منصوبوں پر لگا۔ بڑھتے بڑھتے زرِ اعانت جس میں بیس تیس ارب سالانہ تک جا پہنچے گا ۔ تعلیم ا ورصحت پر ذرا سی توجہ بھی نہیں ۔ 45کروڑ روپے سے شہباز شریف ہسپتال ایک سال میں مکمل ہو گیا۔ وزیرِ آباد میں دل کا ہسپتال ویران پڑا ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی کا نام نہ ہو ۔ میو ہسپتال لاہو رمیں سرجیکل ٹاورکااسی فیصد کام مکمل ہو چکا ہے مگر وہیں رکا پڑا ہے کہ اس پر شریف خاندان کی تحسین کا امکان نہیں ۔ اس پر یہ دعوے اور یہ تکبّر۔ اٹھارہ کروڑ انسانوں کو کیا احمق سمجھ رکھا ہے؟ چلیے ہم ہونق ہی سہی ، مگر اللہ تو دیکھ رہا ہے ۔
ایک کے بعد تکبّر کا دوسرا ہولناک مظاہرہ ،حیرت ہوتی ہے ۔وہ سب جانتے ہیں او روہ سب بھول جاتے ہیں کہ کبریائی اس کی چادر ہے۔
سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمّتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آذری