فضا کی وسعتوںسے یا ہزاروں میل دوربیٹھے ہوئے افراد ، جن کی انگلیاں ڈرون طیاروںسے فائر کیے جانے والے میزائل کے بٹن پر ہوتی ہیں، کے لیے یہ جاننا دشوار ہوتا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں واقع کچے گھروں ، جن کو ہیل فائر میزائل چشم زدن میں ملبے کا ڈھیر بنادیتے ہیں، میںکون تھا، کیا مرنے والے دہشت گرد تھے یا عام افراد، معصوم بچے یا عورتیں۔ مقامی آ بادی، جس کے گزشتہ ایک عشرے کے دوران آدمیوں، عورتوں اور بچوں سمیت بہت سے افراد ہلاک ہوگئے، کی طرف سے کیے جانے والے احتجاج کو القاعدہ یا طالبان کے اہم مطلوبہ دہشت گردوں کو نہایت کامیابی سے نشانہ بنانے کے دعوے خاموش کرادیتے تھے۔ ان افراد کی عالمی سطح پر کوئی شنوائی نہیں۔
یقینا دو ہزار سے زائد انسانوں کو ''اجتماعی نقصان‘‘ کے جواز کی بنا پر صفحۂ ہستی سے غائب نہیں ہوجانا چاہیے تھا۔ یہ بات بھی درست ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں انسانی المیے کو وقوع پذیرہونے سے نہیں روکا جاسکتا تھا، لیکن غلط نشانے یا غلط اطلاع کی بنا پر ہونے والی شہری ہلاکتوں کی ذمہ داری بھی تو کسی نے اٹھانی تھی۔ دویرغمالی، وارن وینسٹین(Warren Weinsteain) اور جیوانی لو پارٹو(Giovanni Lo Porto) کی القاعدہ کے دہشت گردوں کے ہاتھوں ہلاکت پر معافی مانگتے ہوئے صدربارک اوباما نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کی زد میں آکرہلاک ہونے والے ہزاروں شہریوںکے صدمے کو اجاگر کردیا ہے۔ یقینا یہ پاکستان کی بطور ریاست ایک بہت بڑی ناکامی تھی کہ وہ ان دوافراد کی حفاظت نہ کرسکی جو انسان دوستی کے جذبے کے تحت ہماری مدد کرنے آئے تھے ۔ اسی طرح امریکی حکومت بھی ان ہزاروںبے گناہ افراد کی ہلاکت کی ذمہ داری سے نہیں بچ سکتی۔ ڈرون حملوں کی زد میں آکر ہلاک ہونے والے ان بے گناہ شہریوں کو تو اب اس دنیا میں واپس نہیں لایا جاسکتا لیکن معذرت کرتے ہوئے صدراوباما کچھ اخلاقی بوجھ ہلکا ضرور کرسکتے تھے۔ یہ سوال کہ کیا ان شہری ہلاکتوں پر کوئی مطالبہ سامنے لانا چاہیے ، تو اس کا جواب اثبات میں ہے۔ ان لاچار خاندانوں کی مدد کرنے اور ان کی ڈھارس بندھانے کا کوئی نہ کوئی طریقہ وضع کیا جانا چاہیے۔
ڈرون طیاروں،جن کا بٹن ہزاروں میل دور کسی اور شخص کے پاس ہوتا ہے ، سے تباہی پھیلانے والے اُس انسانی المیے کا اندازہ نہیں لگاسکتے جو ان کی وجہ سے بپاہوتا ہے۔ اُس افسران کو ملبے میں کسی کا کھوج لگانے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی۔ بس مشینی انداز میں غیر انسانی جذبات کے تحت بٹن دبادیا اور آگے بڑھ گئے ۔ میزائل گرنے کے بعد پھر قرب وجوار کے قبائلی آکر ہلاک ہونے والوں کی تدفین کرتے جبکہ حملہ آور کسی اور ہدف کی تلاش میں سرگرداں۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ایسے حملے جاری ہیں۔ہلاک ہونے والوں کے ساتھ کسی کوہمدردی نہیںہوتی۔ مقامی افراد کے تحفظات کو یہ کہہ کر جھٹک دیا جاتا ہے۔۔۔''یہ لوگ خطرناک دہشت گردوں کو پناہ کیوں دیتے ہیں‘‘۔ اس طرح ڈرون حملوں میں شکار ہونے والے عام شہری بھی الزام کی زد میں آجاتے ہیں۔
پاکستان کایہ علاقہ گزشتہ تین دہائیوں سے عالمی طاقتوں کی طالع آزمائی کی آگ میں جل رہا ہے۔ پاک افغان بارڈر کے قرب وجوار کا علاقہ، جو ڈرون حملوں کا بنیادی ہدف رہا ہے، اس جنگ میں انتہائی متاثرہ علاقہ ہے۔ چونکہ اس علاقے میں پاکستانی ریاست کی عملداری کمزور تھی، اس لیے یہاں ہر قسم کے دہشت گردوں نے پناہ لے لی۔ افغان طالبان کے علاوہ وسطی ایشیائی ریاستوں اور چین کے کچھ علاقوںسے تعلق رکھنے والے انتہاپسندوں نے بھی دشوار گزار علاقے کو اپنا ٹھکانہ بنا لیا۔ ان کی موجودگی نے یہاں جدید اسلحے اور نقدی کی بہتات کردی۔ اس کی وجہ سے یہاں کا سماجی توازن بگڑ گیا۔ اب یہاں کی مقامی آبادی، جو بہت ہی پرامن ہے، کوجنگجو سرداروں، امریکی ڈرون حملوں اور طالبان دہشت گردوں کے علاوہ کیے جانے والے آپریشن سے بھی خطرہ رہتا ہے۔یہ لوگ انتہائی اذیت ناک زندگی بسر کررہے ہیں۔ سکیورٹی فورسز کی طرف سے کیے جانے والے پے درپے آپریشنز کی وجہ سے ان علاقوں میں دہشت گرد اپنی مرکزیت ختم کرکے دوسرے علاقوں، خاص طور پر افغان سرحد کے قریب، پھیل رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ پاکستانی معاشرے میں بھی ضم ہونے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس دوران مقامی آبادی بھی بے گھر ہے اور اُنہیں عالمی برادری کی توجہ کی سخت ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے گھروں میں دوبارہ آباد ہوسکیں۔
اس وقت تک یہاں ہونے والا نقصان عالمی ضمیر کی نظروںسے اوجھل ہے۔ جب ایک مرتبہ افغان جنگ ختم ہوجائے اور پاکستانی علاقوں میں موجود انتہا پسندوں کو کیفر کردار تک پہنچا لیا جائے تو ہی یہاں ہونے والے حقیقی نقصان کا اندازہ ہوپائے گا۔ ہو سکتا ہے کہ جنگ کی فتح کا معیار کچھ اور ہو، لیکن میرا خیال ہے کہ اب تک افغان جنگوں کا کوئی بھی فاتح بن کر سامنے نہیں آیا ہے۔ یہ دیکھا جاتا ہے کہ نقصان کس کاکم ہوا۔ آج تین عشروں کی جنگ کے بعد میرا خیال ہے کہ وقت آگیا ہے جب ان علاقوں میں موجود آبادی کی مشکلات اور نقصانات کا حقیقی اندازہ لگایا جائے۔ یہ آبادی ایسی عالمی جنگوں کا ہدف بنتی رہی ہے جن کا نہ تو یہ حصہ تھی اور نہ ہی اسے اُن سے کوئی سروکار تھا۔ تاہم یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اس جنگ کی سب سے زیادہ تمازت برداشت کی۔ ہو سکتاہے کہ ابھی جنگ کے خاتمے کی بات قبل ازوقت ہو اور امریکی ڈرون کئی نسلوں تک برستے دکھائی دیں۔ چنانچہ یہ خطہ خوف اور عدم تحفظ کی ایک سلگتی ہوئی بھٹی بنا رہے گا۔ اس میں جلنے والے نہایت معصوم بچے بھی ہیں اور تنومند جوان بھی۔ کیا امریکہ اوردیگر ممالک کے پاس ان افراد کے لیے سوچنے کے لیے بھی وقت نہیں ؟ کیا مزید انسانی ہلاکتوں کے بغیر دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں لڑی جاسکتی؟ڈرون میزائل کے ملبے سے ابھی کتنی انسانی لاشیں ملنا باقی ہے؟