تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     24-06-2015

دو ای میلز پر لکھا گیا ایک کالم

آج کا کالم دو ای میلز کے باعث لکھنا پڑ رہا ہے۔ میں اپنے تئیں معاملہ سمیٹ چکا تھا۔ باوجود اس کے کہ ابھی لکھنے کو بہت کچھ موجود تھا؛ تاہم پھر سوچا کہ اگر سرکار کے کان پر چار کالموں سے جوں نہیں رینگ رہی تھی پانچویں یا چھٹے کا کیا جواز بنتا ہے؟ کہیں کوئی یہ نہ سمجھے کہ مجھے رئیس جامعہ ڈاکٹر خواجہ علقمہ یا فاصلاتی تعلیم کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اسحاق فانی سے کوئی ذاتی پرخاش ہے۔ اس مبارک اور متبرک مہینے میں جھوٹ بولنے والے پر لعنت ہو۔ مجھے ہر دو اشخاص سے نہ کوئی ذاتی گلہ ہے اور نہ کوئی شکوہ۔ میرا موقف تو صرف اتنا ہے کہ یہ یونیورسٹی میری مادر علمی ہے‘ میرے وسیب کا تشخص ہے اور میری آئندہ نسلوں کے لیے علم کا مرکز۔ اسے بہتر حالت میں رکھنا اور دیکھنا میری خواہش ہی نہیں فرض ہے۔
ایک ای میل جناب حامد علی نے جرمنی کے شہر Kleve سے بھیجی ہے جس کے ساتھ میرے ایک محترم کالم نویس دوست کا کالم اٹیچ کر کے سوال کیا ہے کہ کون سچا ہے؟ کس پر یقین کریں اور کون سی بات درست تسلیم کریں۔ اس بھیجے گئے کالم میں میرے دوست نے ڈاکٹر خواجہ علقمہ اور ڈاکٹر اسحاق فانی کی بڑی تعریف و توصیف کی ہے۔ جامعہ کی مجموعی حالت کو عمومی اور فاصلاتی تعلیم کو خصوصی طور پر شاندار قرار دیا ہے۔ فاصلاتی تعلیم سے ایک ارب روپے کا ریونیو جنریٹ کرنے کا ذکر کیا ہے اور لائبریری کی تعریف کی ہے۔ عمارت کی توصیف کی ہے اور اچھے کاموں کی مخالفت کے رویے کا ذکر کیا ہے۔ اگر میں حالات سے ذاتی طور پر آگاہ نہ ہوتا تو اس شاندار اور متاثر کن کالم پڑھنے کے بعد اپنے تمام کالموں سے لاتعلقی کا اعلان کر دیتا مگر معاملہ یہ آن پڑا ہے کہ میں اس شہر کا باسی ہوں اور سب کچھ خود بھی دیکھ رہا ہوں اور اس سلسلے میں براہ راست متعلق لوگوں کے حوالے سے بہت سی باتوں سے آگاہ بھی ہوں۔ چار چھ گھنٹوں کے ایسے دورے میں جس میں مہمان گرامی رئیس جامعہ ڈاکٹر خواجہ علقمہ اور ڈاکٹر اسحاق فانی کی معیت میں جامعہ کا دورہ کر رہے ہوں اور ہر دو اشخاص انہیں اس معاملے میں بریف کر رہے ہوں‘ خاص طور پر ایسے حالات میں جب کہ میں خود جانتا ہوں کہ میرے عزیز دوست رئیس جامعہ ڈاکٹر خواجہ علقمہ ایک نہایت ہی پڑھے لکھے‘ بات کرنے کے فن سے مکمل واقف‘ عالمی حالات سے کماحقہ آگاہ اور اپنے موقف کو شاندار طریقے سے پیش کرنے کے فن میں طاق ہیں اور رہ گئے ڈاکٹر اسحاق فانی تو ان کے اس فن پر تو کتاب لکھی جا سکتی ہے کہ وہ کس عمدہ طریقے سے کسی کو بھی شیشے میں اتار سکتے ہیں۔ ڈاکٹر خواجہ علقمہ میرے بڑے پرانے اور عزیز دوست ہیں۔ ان کی علمی خوبیوں کا میں خود بھی معترف ہوں مگر معاملہ علمی خوبیوں کا نہیں انتظامی خوبیوں کا ہے اور بدقسمتی سے وہ اس معاملے میں بالکل کورے ثابت ہوئے ہیں اور اپنے دور اقتدار میں یونیورسٹی کا ہر معاملے میں بھٹہ بٹھا دیا ہے۔
چار چھ گھنٹوں کے دورے میں‘ خاص طور پر جب آپ کو وہی کچھ دکھایا اور بتایا جا رہا ہو جو دکھانا یا سمجھانا مطلوب ہے‘ تو آپ ہزار چاہنے کے باوجود حقائق کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتے۔ یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسے مجھے کراچی ایئرپورٹ سے جناب حیدر حسنین رضوی‘ جناب فاروق ستار اور جناب وسیم اختر پورے پروٹوکول کے ساتھ بحفاظت نائن زیرو لے جائیں۔ خاطر مدارت کریں اور چار چھ گھنٹوں بعد واپس ایئرپورٹ پر چھوڑ دیں اور میں یہ لکھوں کہ کراچی میں مکمل امن ہے‘ کہیں بھتہ نہیں لیا جا رہا۔ ٹارگٹ کلرز کا نام و نشان نہیں پایا جاتا اور قبضہ گروپ کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ کالم میں لائبریری کی تعریف کی گئی ہے۔ ظاہر ہے مبلغ چودہ کروڑ روپے کی مالیت سے لائبریری بنے گی تو شاندار تو نظر آئے گی مگر اس لائبریری کو محض دیکھ لینے سے تو کسی کو اندازہ نہیں ہو سکتا کہ اس چودہ کروڑ روپے کے ساتھ کیا سلوک ہوا ہے؟ یونیورسٹی میں یونیورسٹی ایکٹ کے تحت بنی ہوئی ایک لائبریری کمیٹی موجود ہے۔ یہ کمیٹی یونیورسٹی کے کلینڈر میں دی گئی ہدایات کے تحت بنائی گئی تھی۔ یہ کمیٹی جامعہ میں لائبریری کے تمام معاملات چلانے‘ کتابیں خریدنے اور منظور کرنے کی مجاز ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی کمیٹی یہ اختیارات استعمال نہیں کر سکتی۔ وائس چانسلر محترم نے اس قانونی کمیٹی کی موجودگی میں ایک اپنی صوابدیدی سولہ رکنی کمیٹی بنائی جس کا چیئرمین
ڈاکٹر اسحاق فانی تھا۔ یہ کمیٹی مورخہ 26 جون 2014ء کو بنائی گئی؛ تاہم مزے کی بات یہ ہے کہ یہ کمیٹی اپنی تخلیق سے پہلے ہی مبلغ چودہ کروڑ روپے کی کتابیں خرید چکی تھی اور اس رقم کا کافی حصہ مورخہ 26 جون 2014ء سے پہلے سپلائر کو ادا بھی کیا جا چکا تھا۔ مزید یہ کہ ان کتابوں کا سپلائرز ایک ہی تھا؛ تاہم کئی ناموں سے جعلی فرمیں بنائی گئیں جن کا کہیں کوئی وجود نہ تھا اور ان سپلائزر کا پاکستان میں نہ کبھی پہلے کوئی ذکر سنا اور نہ ہی بعد میں۔ لائبریری شاندار ہے مگر ساری خریداری دو نمبر ہے۔ ثبوت موجود ہیں۔ ہر چیز روز روشن کی طرح عیاں ہے۔
دوسری ای میل شاید سارے فاصلاتی نظام تعلیم کا مکمل احاطہ کرتی ہے۔ کینیڈا کے شہر Vernon سے رفعت سعید نے لکھا ہے کہ وہ گزشتہ دس سال سے تعلیم کے شعبہ سے متعلق ہیں اور چار چیزوں کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے بتایا ہے کہ :
1۔ فاصلاتی تعلیم اور ریگولر تعلیم کے داخلے کی شرائط ایک ہونی چاہئیں۔ ان داخلوں کا معیار‘ میرٹ اور وقت ایک ہونا چاہیے۔ اب یہ طالب علم کی مرضی ہے کہ وہ ان میں سے کون سا ذریعہ تعلیم اختیار کرتا ہے۔ حتیٰ کہ ایک طالب علم ایسا بھی کر سکتا ہے کہ وہ ایک سمسٹر میں دو کورس آن لائن پڑھے اور تین ریگولر۔ یعنی دونوں میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔
٭ یہاں یہ عالم ہے کہ آپ یونیورسٹی میں ایم کام میں داخلہ لینا چاہیں تو آپ کے لیے ضروری ہے کہ آپ بی کام ہوں مگر فاصلاتی تعلیم میں موج یہ ہے کہ آپ صرف گریجوایٹ ہوں۔ خواہ آرٹس میں ہوں یا سائنس میں۔ بی کام کی پابندی صرف ریگولر داخلے کے لیے ہے۔ فاصلاتی تعلیم میں ایم کام کرنے کے لیے کوئی معیار نہیں۔ سوائے گریجوایشن کے۔
2۔ کورس کا مادہ یعنی Course contents ایک ہونے چاہئیں۔ ریگولر اور فاصلاتی تعلیم کے مضامین اور مندرجات میں فرق نہیں ہونا چاہیے۔
٭ زکریا یونیورسٹی میں انجینئرنگ کالج ہے جس میں سول‘ مکینیکل‘ کمپیوٹر سائنس اور آرکیٹیکچرل انجینئرنگ میں بی ایس سی انجینئرنگ کی ڈگری کروائی جاتی ہے۔ یہ ڈگری پاکستان انجینئرنگ کونسل سے منظور شدہ ہے اور درج بالا تمام شعبہ جات پی ای سی (پاکستان انجینئرنگ کونسل) سے Accreditation یافتہ ہیں۔ فاصلاتی تعلیم میں انہوں نے چکر دیتے ہوئے ایک نئی ڈگری کا اجراء کیا ہے اور اس کا نام بی ایس ٹیکنالوجی رکھ کر ڈگریاں بانٹنی شروع کردی ہیں۔ یہ ڈگری پاکستان انجینئرنگ کونسل سے نہ تو منظور شدہ ہے اور نہ ہی پی ای سی سے Accredited ہے۔ دونوں ڈگریاں اور ان کا کورس بالکل مختلف ہے۔
3۔ فاصلاتی اور ریگولر تعلیم میں طالب علم کو بالکل ایک جیسے معیار اور میرٹ پر رکھا جائے۔
٭ ایک جیسے معیار کا کوئی موازنہ ہی نہیں۔ یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات ڈاکٹر فاروق نے ایک جیسے معیار کی کوشش کی تھی اس کی چھٹی کروا دی گئی۔ کنٹرولر معاملات کو قاعدے اور ضابطے کے مطابق چلانا چاہتا تھا۔
4۔ چوتھی اور آخری شرط یہ ہے کہ فاصلاتی تعلیم کی فیکلٹی یعنی تعلیم دینے والے اساتذہ ایک ہی ہونے چاہئیں۔
٭ ادھر صورتحال یہ ہے کہ انجینئرنگ میں چند ریگولر اساتذہ کے علاوہ زیادہ تعداد وزٹنگ فیکلٹی پر مشتمل ہے۔ دیگر شعبہ جات میں بھی یہی حال ہے مگر انجینئرنگ چونکہ پروفیشنل تعلیم ہے اس لیے زیادہ توجہ اور احتیاط کی متقاضی ہے لہٰذا اس کا ذکر کیا ہے۔ ویسے عالم یہ ہے کہ ڈاکٹر اسحاق فانی کی زوجہ محترمہ تعلیم دینے والوں میں شامل ہیں۔ خوا ہر نسبتی ایجوکیشن کوارڈی نیٹر ہے اور برادر نسبتی جوشنید ہے فارغ شدہ پولیس کانسٹیبل ہے‘ ساہیوال کیمپس کا انچارج ہے۔ اس کے علاوہ بھی آٹھ دس رشتہ دار عزیز و اقارب اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔
کالم کے اختتام سے قبل صرف ایک مثال لکھنا چاہتا ہوں جس سے ساری حقیقت واضح ہو جائے گی کہ بہائوالدین زکریا یونیورسٹی میں دی جانے والی فاصلاتی تعلیم اور فیکلٹی کا کیا معیار ہے۔ شعبہ ماس کمیونیکیشن (صحافت) کے تحت جب فاصلاتی تعلیم کا آغاز کیا گیا تو طے پایا کہ داخلے‘ امتحانات‘ فیکلٹی اور معیار تعلیم ریگولر تعلیم کے برابر ہوگا۔ چیزیں طے پا گئیں اور تعلیم شروع ہو گئی۔ پہلے سمسٹر کے دوران ہی اختلافات ابھر کر سامنے آ گئے۔ شعبہ کے اساتذہ میرٹ پر بضد تھے اور فاصلاتی تعلیم والے مادرپدر آزادی چاہتے تھے۔ داخلے بند ہو گئے مگر پیسے کے حصول کی خاطر فاصلاتی تعلیم والے بضد تھے کہ داخلے جاری رکھے جائیں۔ شعبہ والے معیاری تعلیم کے علمبردار تھے اور اپنے شعبہ کی طرح فاصلاتی تعلیم والے طلبہ کو بھی میرٹ سے ہٹ کر پاس کرنے پر تیار نہ تھے۔ جبکہ فاصلاتی تعلیم کے مدار المہام کسی کو فیل نہیں کرنا چاہتے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دو سمیسٹر کے بعد شعبہ ماس کمیونیکیشن کے چیئرمین نے فاصلاتی تعلیم سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے ناطہ توڑ لیا۔ اب فاصلاتی تعلیم میں یونیورسٹی کے ریگولر اساتذہ کے بجائے شعبہ سے فارغ التحصیل طالب علم پڑھا رہے ہیں۔ جب چاہیں داخلہ لے لیں آپ آزاد ہیں۔ پاس ہونے کی گارنٹی ہے بشرطیکہ آپ خود فیل ہونے پر نہ تل جائیں۔
یہ دو ای میلز کے جواب میں ایک کالم تھا وگرنہ میں یہ باب بند کر چکا تھا۔ اس کالم کے جواب اور پھر اس کے جواب کا میں قائل ہی نہیں۔ میری کوئی ذاتی لڑائی ہے نہ کوئی پرخاش۔ تعلیم کی بربادی پر صدائے احتجاج ہے اور اس سے میرے ڈاکٹر علقمہ سے اچھے بھلے تعلقات برباد ہوئے ہیں۔ قسم نہیں کھائی جا سکتی مگر کوشش کروں گا کہ اب کم از کم اس موضوع پر مجھے اور کچھ نہ لکھنا پڑے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved