عمر شیخ مرزا کی ناگہانی موت کے بعد ظہیر الدین بابر بادشاہ بنا تو اس کی عمر بارہ برس تھی ۔ سرپرست رشتے داروں نے بے وفائی کی ۔ ایک کے بعد دوسری آفت سے واسطہ پڑا۔ اپنی خودنوشت میں وہ کہتاہے کہ ایک وقت ایسا آیا کہ وہ خود کو ایک ناکام ترین انسان سمجھتا رہا، جسے جینے کا کوئی حق نہیں تھا۔آخر تنگ آکر اپنے لشکر کے ہمراہ اس نے وسطی ایشیا اور افغانستان سے ہندوستان کا رخ کیا۔ اس دوران افغان سرداروں کو اس نے وہ سبق سکھایا کہ محاورتاً نہیں حقیقتاً وہ منہ میں گھا س کے تنکے لیے رحم کی بھیک مانگتے رہے ۔ برّصغیر میں اس نے عظیم الشان مغلیہ سلطنت تعمیر کی ۔غالبا ً ٹی بی کا شکار ہو کر وہ محض 49برس کی عمر میں مر گیا۔
اڑھائی ہزار سال قبل محض اٹھارہ برس کی عمر میں سکندرِ اعظم میدان میں اترچکا تھا۔اپنے باپ فلپ دوم کی موت کے بعد بیس برس کی عمر میں اس نے مکمل طور پر قیادت سنبھالی اور مخالفین کی سرکوبی کے بعد۔ اپنے دور کی عالمی طاقت پرشیا کو شکستِ فاش سے دوچار کیا۔ تیس برس کی عمر میں اس کی سلطنت مشرق میں انڈیا، مغرب میں لیبیا اور شمال میں یونان تک پھیلی ہوئی تھی ۔ 32برس کی عمر میں وہ بیمار ہو کر مر گیاوگرنہ اس عظیم الشان جنرل کی فتوحات جانے کہاں سے کہاں تک پھیلتی چلی جاتیں ۔
لیڈرشپ کی صلاحیت کا تعلق عمر سے نہیں ہوتا۔یہ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات والی بات ہے ۔ بے نظیر بھٹو کو قتل کیا گیا تو اس
وقت بلاول ''بھٹو‘‘ زرداری دودھ پیتا بچہ نہ تھا۔ اسے پارٹی کا چیئرمین بنا دیا گیا۔عملاً سارے اختیارات ''شریک‘‘ چیئرمین آصف علی زرداری کے ہاتھ میں تھے ۔ پیپلز پارٹی نے کرپشن اور نااہلی کے عالمی ریکارڈ قائم کیے ۔ بلاول صاحب کسی قابل ہوتے تو اس وقت وہ اپنا کردار ادا کرتے۔ معاملات اپنے ہاتھ میں لیتے ۔ اس دوران ان کی تقاریر دیکھیے ۔ یہ بات واضح ہے کہ سیاست کے لیے وہ ناموزوں ہیں ۔ اس سب کو دیکھتے ہوئے ان حضرات کے ساتھ میں ہمدردی ہی کرسکتاہوں ، جو بلاول صاحب کے اندر سے بہرصورت لیڈر برآمدکرنے کے آرزومند ہیں ۔
یہ تو ہو گئی ایک بات۔ فوجی قیادت نے اپنی صفوں سے احتساب کا آغاز کیا ہے ۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ٹھیکیدار بھائیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے مخالفین خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں ۔ میں ان کے ساتھ ہوں ۔ ان کے بھائیوں نے کرپشن کی ہے تو قانون کے دائرے میں انہیں الٹا لٹکا دینا چاہیے۔ یہاں کچھ سوالات جنم لیتے ہیں ، جن کا جواب لازم ہے وگرنہ تاریخ بڑی بے رحم ہے ۔جسٹس افتخار چوہدری کو جو مقبولیت نصیب ہوئی، ملکی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔ نتیجہ کیا نکلا؟ فیصلہ تب ہوتاہے ، جب کوئی اپنا کردار اد ا کرکے چلا جاتاہے ۔ایک دن سب نے چلے جانا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ کیا پرویز مشرف نے دو بار مارشل لاء نافذ نہیں کیا؟ ججوں کو نظر بند نہیں کیا؟ کیا ان کے دور میں کراچی میں ایم کیو ایم ، پیپلز پارٹی اور اے این پی کے علاوہ طالبان نے اپنے دہشت گرد گروپوں کو مضبوط نہیں کیا؟ کیا پرویز مشرف کی اتحادی ایم ایم اے نے سرحد میں طالبان کی سرپرستی نہیں کی ؟ کیا پرویز مشرف 8سال تک بلا شرکت غیرے غیر قانونی طور پر اس ملک پر حکومت نہیں کرتے رہے؟ سب جانتے ہیں اس دوران انہوں نے بجلی کی پیداوار میں ایک میگاواٹ کا بھی اضافہ نہیں کیا۔ اس وقت جب گیس کے ذخائر سکڑ رہے تھے، انہوں نے ٹرانسپورٹ کا پوراسیکٹر سی این جی پر منتقل کر دیا۔ توانائی بحران کی بنیادیں اٹھائیں ۔ کیا ان کے آخری دنوں میں فوجی جوانوں اور افسروں کو یہ حکم نہ دیا گیا تھا کہ وہ وردی پہن کر بازار نہ جائیں ؟ کیا فوج کی توقیر میں خطرناک حد تک کمی واقع نہ ہو گئی تھی ؟ کیا کارگل میں انہوں نے پاکستان کی بے عزتی نہیں کرائی ؟ کیا اکبر بگٹی کو ہٹ کرنے کا اعلان نہیں کیا؟
جنرل راحیل شریف نے یہ کہا تھا ''دوسرے اداروں کا احترام کرتے ہیں لیکن فوج کے وقار کا ہر قیمت پر تحفظ کریں گے‘‘۔ اس کے بعد پرویز مشرف پر قائم غدّاری کا مقدمہ لٹک کے رہ گیا۔ڈاکٹروں کے پینل نے ڈھونڈ ڈھانڈ کے 9عدد بیماریاں اس شخص میں دریافت کیں ، جو قوم کی رہنمائی کرنے وطن واپس آیا تھا۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی طرف سے اس انتباہ کے باوجود کہ یہ واپسی فوجی قیادت کے لیے مشکلات پیدا کرے گی ۔ عملاً پرویز مشرف کامقدمہ اب چل ہی نہیں رہا ۔ اس امر میں مجھے شک نہیں کہ ایک دن وہ بیرونِ ملک روانہ ہو جائیں گے۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ ایک مقتدر خاندان سے پرویز مشرف کے ذاتی مراسم کا کمال ہے۔ ادھر تاریخ ، بے رحم تاریخ چند برس بعد بول اٹھے گی ، جب طاقت کے مراکز بدل چکے ہوں گے ۔ وہ سوات اور جنوبی وزیرستان آپریشن کا موازنہ دوسری فوجی کارروائیوں سے کرے گی ۔ کس کارروائی میں کیسی منصوبہ بندی کی گئی ؟ کس میں کتنا وقت لگا اور کتنا وقت درکار تھا۔ ظاہر ہے کہ ہر علاقے کی اپنی منفرد صورتِ حال ہوتی ہے ۔
اپنی صفوں سے صفائی کا آغاز کر کے عسکری قیادت نے اچھی مثال قائم کی ہے ۔کسی سابق آرمی چیف کے بھائی اگر کرپشن میں ملوّـث ہیں تو تحقیقات کے بعد انہیں کسی قسم کی رعایت نہیں ملنی چاہئیے لیکن یہاں ایک سوال پیدا ہوتاہے ؟ کیا کارگل آپریشن، کراچی اور فاٹا میں مسلّح گروہوں کو اپنے قدم جمانے کا موقع دینے ، دو بار مارشل لا کا نفاذ کرنے اور عدلیہ کی بے عزتی کرنے والا ریاست کا لاڈلا بچہ ہے ، جسے سات خون معاف ہیں ؟
حیرتوں کی حیرت سیمور ہرش کی کہانی پر قومی اداروں کا ردّعمل تھا۔ اس نے الزام عائد کیا تھا کہ اسامہ آئی ایس آئی کی حفاظت میں ایبٹ آباد میں مقیم تھا۔ یہ بھی کہ جنرل کیانی کی رضامندی سے امریکی ہیلی کاپٹر آئے اور اسے قتل کر کے چلے گئے ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جنرل کیانی کو اگر اس کا علم تھا تو خود اسے پکڑنے اور اپنا لوہا منوانے کی بجائے ، کیا امریکی کارروائی کے ذریعے وہ اپنی ناک کٹواتے ؟ کیا قومی اداروں کی خاموشی سے یہ بات واضح نہیں ہوئی کہ جنرل کیانی سے وہ اظہار ِ لا تعلقی کر چکے جبکہ پرویز مشرف جیسے مہم جو کی سر پرستی جاری و ساری ہے ۔ اس سب کا نتیجہ کیا نکلے گا؟
تاریخ یہ بتاتی ہے کہ مقبولیت کے عالمی ریکارڈ قائم کرنے والے اپنی حدود سے باہر نکلے تو وہ گمنامی کی قبر میں جا گرے ۔ دیکھتے ہیں آنے والا وقت اپنے جلو میں کیا لاتاہے ۔