پہلے ہی امتحان میں پتہ چل گیا کہ بھٹو اور زرداری میں کیا فرق ہے؟ زرداری صاحب نے دو لاشوں سے اپنے اقتدار کا تخت بنایا اور بھٹوزنے لڑتے ہوئے جانیں دیں۔ وہ خود پھانسی لگے۔ ان کی عظیم بیٹی بے نظیر نے موت سے آنکھیں لڑاتے ہوئے گولیاں کھائیں۔ انہیں علم تھا کہ انہیں شہید کیا جائے گا۔ سمجھانے والوں نے سمجھایا۔ روکنے والوں نے روکا۔ لیکن انہوں نے پروا نہیں کی۔ اپنے آپ کو بھرے ہجوم میں قاتلوں کے سامنے پیش کر دیا اور گولیاں کھا کرشہادت کا اعزاز حاصل کر لیا۔ بھٹو کے بڑے بیٹے سڑک پر گولیاں کھا کر سازشیوں کے جال میں پھنس کر شہید ہوئے۔ ان کی بہن وزیراعظم تھیں۔ اس کے باوجود وہ پولیس کے ہاتھوں شہید ہوئے اور بہن بیچاری وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی اپنے وجیہہ وشکیل بھائی کی زندگی نہ بچا سکیں۔ بھٹو صاحب کے دوسرے بیٹے دیارغیر میں پراسرار موت کا نشانہ بنے۔ جب بے نظیر نے جام شہادت نوش کیا تو زرداری صاحب کے سامنے دو شہیدوں کی لاشیں تھیں۔ جن پر انہوں نے اپنے اقتدار کا تخت سجایا اور پانچ سال حکومت کے مزے لوٹے اور پہلے ہی الیکشن میں اترے توپنجاب میں پیپلزپارٹی کو جھاڑو پھر گیا۔ سندھ میں بی بی شہید کے خون کے صدقے چند نشستیں مل گئیں۔ جن کے بل بوتے پر وہ اور ان کا خاندان سندھ پر راج کرتے رہے۔ بہن نے پارٹی پر کنٹرول کیا۔ بھائی نے صوبہ مٹھی میں لیا اور پھر جس فن میں زرداری صاحب کی شہرت تھی‘ انہوں نے پوری مہارت کے ساتھ اس کا مظاہرہ کیا۔ اب زرداری خاندان پاکستان کے سب سے بڑے نقد سرمایہ رکھنے والے خاندانوں میں سرفہرست ہے۔ ہرچند میاں منشاء کو امیرترین آدمی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن جتنی نقد دولت زرداری خاندان کے پاس ہے‘ وہ سات میاں منشاء بھی اکٹھے ہو جائیں تو ان کے پاس نہیں ہے۔ کیونکہ سرمایہ داروں کی رقم صنعتوں اور کاروبار میں لگی ہوتی ہے۔ نقدی ان کے پاس اتنی نہیں ہوتی‘ جتنی زرداری صاحب کی سیاستدان بہن فریال تالپور کے پاس ہے۔ سنا ہے ان کے پاس تو روز کی نقدی اٹھانے والے بھی ہانپ جاتے تھے۔
ان کے بارے میں بہت دنوں سے افواہیں چل رہی تھیں کہ وہ نقد خزانہ محفوظ کرنے کی کوئی نہ کوئی ترکیب ضرور لڑائیں گے۔ اپنے سابق مصاحبوں کی طرح ملک چھوڑ کر نہیں بھاگیں گے‘ جو بیرونی ملکوں میں جا کر آباد ہو گئے اور کمائی ہوئی رقم سے مزے اڑانے لگے۔ان میں چند نام مجھے یاد رہ گئے ہیں۔ جیسے جاوید پاشا‘ جس کے نام پر زرداری صاحب نے اپنی کافی دولت محفوظ کرائی تھی۔ جب برا وقت آیا تو وہ دولت کے ساتھ خود بھی محفوظ ہو گئے۔ بعد میں زرداری صاحب کے ہاتھ نہیں لگے۔ ایک ڈاکٹر عاصم صاحب تھے۔ وہ امیر خاندان کے چشم و چراغ ہونے کے باوجود دولت سمیت غائب ہو گئے۔ تیسرے ہمارے ساتھیوں میں سے ایک اظہر سہیل تھے۔ وہ بدنصیب تھے۔ انہوں نے اپنی دولت کسی اور کے پاس محفوظ کی تھی۔ خود لندن چلے گئے۔ وہیں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ان کی دولت کس کو ملی؟ یہ میرے علم میں نہیں۔ اسی طرح اور بہت سے تھے‘ جو تتربتر ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ انہوں نے اپنے اور اہل خاندان کے سوا کسی پر بھروسہ نہیں کیا۔
اس مرتبہ انہوں نے پارٹی کا ورثہ ‘داماد ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قابو کر لیا اور پارٹی کا سرمایہ یوں اجاڑا‘ جیسے کسی نو دولتیے کا جبری وارث دونوں ہاتھوں سے دولت کو مال غنیمت کی طرح لٹُاتا ہے۔ بھٹو کی پارٹی بھی لوٹی گئی۔ مزار پر بیٹھے ہوئے چند فدائی اپنے محبوب لیڈر کے ساتھ عہد وفا نبھا رہے ہیں۔ وہ نبھاتے رہیں گے۔ جہاں تک ان کی زندگی وفا کرے گی‘ پارٹی دکھائی دیتی رہے گی اور زرداری صاحب دوسرا دور لانے میں کامیاب ہو گئے‘ تو جو کچھ ہو گا‘ وہ پیپلزپارٹی نہیں زرداری پارٹی ہو گی۔ جس کی چیئرپرسن فریال تالپور ہوں گی۔ بھتیجے بھتیجیوں کی نگرانی ان کے سپرد رہے گی اور بلاول فرزندی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا‘ نانا کے اجڑے ہوئے باغ کو دیکھ دیکھ کر آہیں بھرے گا۔ حالیہ دور کے صاحبان اقتدار نوازشریف اور آصف زرداری ہی رہے۔ نوازشریف سخت جان سیاستدان ثابت ہوئے۔ جنرلوں کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا۔ انتہائی اذیت ناک قید کاٹی اور جب دیکھا کہ پورے خاندان کا زندہ رہنا مشکل کیا جا رہا ہے‘ تو ان کے بیرونی دوست کام آئے۔ جو انہیں صحیح سلامت نکال کر لے گئے اور انہوں نے طویل عرصہ جلاوطنی کی سزا کاٹی۔ اب پھر عرصہ اقتدار ہے اور وہ ابھی تک ڈٹے ہوئے ہیں اور لگتا ہے بھاگ کر ہرگز نہیں جائیں گے۔ دولت کمانا اور سنبھالنا انہیں بچپن ہی سے آتا ہے اور دنیا میں ان کے بااختیار دوستوں کی بھی کمی نہیں۔ وہ اقتدار میں نہ رہے‘ تو بھی آسودہ رہیں گے۔
اب زرداری صاحب کے نورتنوں کی طرف دیکھتے ہیں۔ بہن تو آخر بہن ہوتی ہے۔ وہ ہر حال میں بھائی کے لئے قربانی دینے پر تیار رہتی ہے اور اگر دولت کے پہاڑ پر بیٹھنے کی ''قربانی‘‘ دینا پڑے‘ پھر تو کیا کہنے ہیں۔ لیکن یہ بھائی کی محبت ہے کہ وہ پہلے ہی سے برطانیہ جا کر بیٹھ گئی ہیں۔ خیروعافیت سے واپسی ممکن ہوئی‘ تو پھر سے آ کے ڈیوٹی پر بیٹھ جائیں گی۔ ورنہ دنیا خریدنے کے لئے ان کے پاس بہت کچھ ہے۔ اویس مظفر صاحب بھاگنے لگے‘ تو دبوچ لئے گئے تھے۔ لیکن انہوں نے رقت بھرے انداز میں ٹسوے بہاتے ہوئے غم و اندوہ میں ڈوبی آواز میں بتایا کہ ان کے بھائی لندن میں بسترمرگ پر ہیں۔ وہ کسی وقت بھی جان سے جا سکتے ہیں۔ میں ان کی میت لینے جا رہا ہوں اور اسے لے کر واپس آئوں گا۔ پھر آپ جو چاہیں میرا حال کر دیں۔ ایجنسیوں کے جہاندیدہ اور سمجھدار ملازمین بھی اویس مظفر کی اداکاری دیکھ کر پسیج گئے اور انہیں جانے دیا۔ اب پتہ چلا ہے کہ وہ سب ڈرامہ تھا۔ ان کا کوئی سگا بھائی بسترمرگ پر نہیں تھا۔ اب وہ لندن میں اپنے باس کا انتظار کر رہے ہیں۔ زرداری صاحب کے ایک اور وفادار نے فرار ہونے کا انوکھا طریقہ استعمال کیا۔ وہ کرائے کی کار لے کر گلگت پہنچ گئے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ پاکستان سے فرار ہونے کے لئے گلگت کا راستہ اختیار کریں گے۔ لیکن موصوف نے یہی کرتب کر دکھایا۔ پاسپورٹ اور سفر کے کاغذات ان کے پاس تھے۔ وہاں سے بلیو پاسپورٹ استعمال کر کے کاشغر جا پہنچے۔ اس کے بعد دنیا کھلی ہے۔ فریال تالپور اور ان کے شوہر منور اور سندھ کے صوبائی وزیرداخلہ سہیل انور سیال بھی بیرون ملک محفوظ مقام پر محفوظ ہو گئے ہیں۔ اگر میرا اندازہ غلط نہیں‘ تو پیپلزپارٹی کے جیالوں کو اپنے لیڈر آصف زرداری کے باغات کے آم ضرور پہنچیں گے تاکہ وہ آئندہ قربانیاں دینے سے دریغ نہ کریں۔ قیوم نظامی تو اتنی سی محبت دیکھ کر ہی دوبارہ کوڑے کھانے کو تیار ہو جائیں گے۔ اقتدار کے پرندوں کی اڑانوں کا موسم قریب آ گیا ہے۔ اب کے ان کے اڑنے کے سارے راستے بند نہیں کئے گئے۔ اس مرتبہ بھارت بھی غافل نہیں۔ پاکستان دشمن قوتیں‘وطن پر دولت کو ترجیح دینے والوں کے لئے بازو پھیلائے کھڑی ہیں۔ایسے لوگوں کو کھلی مہلت مل رہی ہے کہ وہ جب چاہیں اکٹھے ہو کر اپنے لئے راہیں بنا لیں۔ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم تو اکٹھے ہو گئے۔ مزید کچھ سیاسی عناصر بھی اکٹھے ہو جائیں گے۔ ان کے ساتھ بھگوڑے دہشت گرد بھی آ ملیں گے اور ایسا نہ ہو کہ عوام اور وطن دشمنوں کو دبوچنے میں جتنی دیر لگائی جا رہی ہے‘ اس کا فائدہ سکیورٹی فورسز کی بجائے‘ ملک دشمن اٹھا لیں۔