تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     26-06-2015

مخول

سیاست کے سینے میں دل نہیں‘ مگر حکومت کا سینہ ہی نہیں ہوتا ''دل کا معاملہ‘‘ جانے دیں۔ صرف پیٹ ہی پیٹ ہے‘ جو میلوں لمبا اور کوسوں دور تک پھیلا ہوا ہے۔ اس پاپی کو بھرتے بھرتے اس بیچارے پاکستان اور غریبوں کی کمر دوہری ہو گئی ہے‘ لیکن بے رحم سیاست پہلے بے مروت ہوئی، پھر بے مہر۔ جب سے اسے آزادی ملی‘ سیاست بے باک اور طرزِ حکمرانی بے لگام۔ اب دونوں ایک ہی حمام میں ننگے پائے جاتے ہیں۔
دوسری جانب حکومت کے نام پر اقتدار پر قابض بادشاہ، شہزادے اور درباری ہیں۔ ان کا خیال ہے‘ وہ بہترین حکمرانی اور رعایا کی خدمت کی نئی تاریخ لکھ رہے ہیں۔ اچھے زمانے میں لیڈروں کی تصویر ٹرک کے پیچھے لگتی تھی۔ اب دور بدل گیا ہے۔ ڈینگی مچھر کے اشتہار سے لے کر مرغی سٹال کی عبارت کے اوپر تک لیڈر کی تصویر لگتی ہے۔ دو نمبر بادشاہت ہو تو نو دولتیے اور دو نمبرئیے ''چھا‘‘ جاتے ہیں۔ اسی ماحول سے تنگ آ کر فیصل آباد ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن نے عدلیہ میں سیاست کے جھنڈے گاڑنے والے سابق چیف جسٹس کی تختی باتھ روم پر لگا دی۔ ایک زمانہ تھا جب بادشاہ محل سے نکل کر جنگل میں شیر کا شکار کرنے جایا کرتے تھے۔ تب وہ مردہ شیر پر پائوں یا بندوق رکھ کر تصویر بنواتے یا کھنچواتے تھے۔ اس زمانے کا کوئی بادشاہ اگر آج زندہ ہوتا اور وہ ڈینگی مچھر کے اشتہار پر حکمران کی تصویر دیکھ لیتا تو اسے یقینا غلط فہمی ہو جاتی۔ وہ سوچتا‘ شاید یہ بھی کوئی کمپیوٹر کے زمانے کا شیر ہے‘ جسے مارنے والے کی ''تصویر کراپ‘‘ کی گئی ہے۔ بادشاہ اگر افیمی ہوتا تو یقینا ایک اور غلط فہمی بھی ہو سکتی تھی۔ وہ یہ کہ نئے بادشاہ نے، نئے زمانے کا شیر مارا یا اسے دوڑ لگوا کر پکڑ لیا ہے۔ اصل مزہ تو تب آتا‘ جب پرانا بادشاہ نئے بادشاہ کی تصویر مرغی کے ساتھ دیکھتا۔ مرغی چونکہ زمانہء قدیم سے موجود پرندہ یا جانور یا ڈش کی صورت میںہمیشہ موجود رہی ہے‘ لہٰذا پرانے بادشاہ کو غلط فہمی ہونے کا بھی چانس تھا۔ وہ سوچ سکتا تھا کہ نئے زمانے کے بادشاہ Chicken heart یعنی چھوٹے دل والے ہیں‘ اس لیے چکن اور لیڈر گڈمڈ ہو گئے یا شیروشکر۔
ذرا غور سے اپنے ارد گرد دیکھیں تو آپ کو لگے گا‘ ہم مغلیہ سے بھی بڑھ کر شغیلہ دور میں جی رہے ہیں۔ بادشاہوں، شہزادوں، درباریوں اور ان کے ہرکاروں نے غریبوں کے خلاف نیا ہتھیار ایجاد کر لیا۔ اس ہتھیار کی ٹیکنالوجی مسلمان ملکوں نے سب سے پہلے امپورٹ کی۔ نمبر ایک بادشاہوں سے لے کر نمبر 9 بادشاہوں تک‘ سب نے۔ اس ٹیکنالوجی کا نام ہے ''خوف‘‘۔ انگریزی زبان میں اسے Fear Technology کہتے ہیں۔ اب یہ ٹیکنالوجی اس قدر عام ہے کہ اسے استعمال کرنے کے لیے ڈھولچی اور ڈھنڈورچی دونوں میدان میں اتر آئے ہیں۔ ذرا مزید غور سے دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ جب بھی بادشاہ کے تحت و تاج ہلنے لگتے ہیں ڈھولچی اور ڈھنڈورچی دوڑ کر مصالچی بن جاتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے اسلام خطرے میں آ گیا۔ کسی کے مطابق جمہوریت ہِلی تو ملک چلا جائے گا۔ حقیقت میں دونوں ایک ہی بات کہتے ہیں۔ وہ یہ کہ ان کے برانڈ کے اسلام کو خطرہ ہے جو عرفِ عام میں فرقہ ہے۔ یا ان کی برانڈ کی جمہوریت کو خطرے کا مطلب ہے قوم کے خرچ پر، قوم کے نام پر جو عیاشی حکمران کرتے ہیں، اسے خطرہ ہے۔
میں نے اختلافی نوٹ میں کہا تھا‘ رمضان حکومت پر بھاری ہو گا۔ تب سے کارِ خاص والے بیچارے رمضان کو ڈھونڈ رہے ہیں تاکہ اسے قابو کریں اور خطرہ ٹل جائے‘ مگر عوام بغیر کسی لیڈر کے پورے ملک میں گھیراؤ جلاؤ، جلسہ جلوس کر رہے ہیں، گو گو، مردہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں اور ڈنڈے اور دیگچے لے کر باہر نکل آئے ہیں‘ چنانچہ لوڈ شیڈنگ سے توجہ ہٹانے کے لیے ایک چھوٹے درجے کے ''نورتن‘‘ نے قوم کو یوں ڈرانے کی کوشش کی: ''را‘ نے سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملہ کیا‘‘ اس کا پہلا نتیجہ یہ ہے کہ جو مجرم اس مقدمے میں پکڑے گئے تھے‘ انہیں پنجاب کے محکمہ قانون اور داخلہ کے دو وزیروں کی طرح کلین چِٹ مل گئی۔ پہلا وزارتی مجرم وہ جو ویڈیو پر لین دین کرتے پکڑا گیا۔ دوسرا ماڈل ٹاؤن قتلِ عام کا مرکزی کردار۔ چھوٹا نورتن یہاں رُکا نہیں‘ پھر کہا: زمبابوے ٹیم کو بھی دھمکی ملی۔ اگر کوئی پوچھنے والا ہو تو پوچھے اتنی ساری سازشیں‘ اس قدر جرائم اور بین الاقوامی گروہ‘ سب کچھ حکومت جانتی ہے تو انہیں پکڑنے کا انتظار کیوں؟ حکومت یہ سارے ثبوت را اور بھارت کے خلاف اقوامِ متحدہ میں کیوں نہیں لے جاتی۔ عالمی عدالت انصاف کا دروازہ دور تو نہیں؟ یا اگر سرکار اتنی مجبور، معذور اور لاچار ہے کہ کچھ نہیں کر سکتی تو پھر نیا مینڈیٹ لینے سے ڈر کیسا؟ میٹرو بس پنڈی کے افتتاح کے بعد جنہوں نے مقبولیت کا ڈھول گلے میں ڈالا تھا‘ وہ گوجرانوالہ کے حلقہ PP-97 تک پہنچتے ہی بچوں کے غبارے کی طرح پھٹ گیا‘ جس کے بعد وزیر اعظم اور پنجاب حکومت کم از کم ایک دعویٰ نہیں کرتے۔ وہی جو بغلی سروے کہتے ہیں کہ سو فیصد عوام ہمارے ساتھ ہیں۔
بی بی سی کی تازہ ترین رپورٹ پر حکومتی خاموشی نے کئی بنیادی سوال کھڑے کر دیے ہیں۔ پہلا یہ کہ 'را‘ پاکستان میں خلافِ ریاست سرگرمیوں اور جرائم پیشہ گروہوں کے حق میں مالی انویسٹمنٹ کرتی ہے۔ دوسرا، بھارت ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کی تربیت کے کیمپ چلا رہا ہے۔ اور تیسرا، بھارت شرماتا نہیں ڈنکے کی چوٹ پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کا اعتراف کرتا ہے۔ آپ نے دیکھا اسلام آبادی سرکار بی بی سی کے ہوش رُبا انکشافات کے بعد بھی مودی سرکار کے خلاف منہ پر انگلی رکھے ہوئے ہے۔ اس کے جواب میں بھارتی سرکار کا رویہ دیکھ لیں‘ جس نے ممبئی حملوں پر پاکستان کی ایک عدالت کے فیصلے کو بنیاد بنا کر اقوامِ متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا‘ جہاں بھارت نے قرارداد پیش کروائی کہ اس فیصلے کی روشنی میں پاکستان پر عالمی پابندیاں لگا دو۔ اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مفادات کا تخفظ کرنے والے سوئے رہے‘ لیکن چین ہمارے کام آیا۔ چین وہ قرارداد ویٹو نہ کرتا تو پاکستان کو عراق، لیبیا، شام کی صف میں کھڑا کرنے کی تیاری مکمل تھی۔ بھارت کی اس بین الاقوامی جارحیت کے خلاف اسلام آباد کے حکمرانوں نے چُوں تک نہیں کی۔ نہ اتنی ہمت کہ بھارتی سفیر کو بلا کر کم از کم ڈی مارش ہی کر دیا جاتا۔ قومی امور پر مسخرہ پن کی انتہا ہے۔ رمضان عوام پر بھاری ہے۔ کالم چھپنے تک وطنِ عزیز میں لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے مرنے والوں کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے زائد ہو چکی ہو گی۔ لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ ابھی مزید لمبا ہو گا۔ گیس لائن کے پائپ اونچی آواز میں سیٹیاں بجائیں گے۔ پانی ڈھونڈنے والے ''العطش العطش‘‘ کی زیادہ چیخ ماریں گے۔ اس پر سرکاری مسخرہ پن دیکھیں۔ ایک وزیر نے کہا: کے پی کے ہمارا ایشو نہیں۔ دوسرا بولا: سندھ، وفاق کی ذمہ داری نہیں۔ وزیر اعظم نے پارلیمنٹ کو بتایا: لوڈ شیڈنگ کہاں ہو رہی ہے‘ مجھے پتہ نہیں۔ پھر قوم سے یوں مخول کیا: جن علاقوں کے لوگ بل نہیں دیتے شاید وہاں لوڈ شیڈنگ ہو۔ اس بھاری رمضان میں دھاندلی کمیشن سے بھاری بھرکم فیصلہ آئے گا۔ تابعدار اپوزیشن اصلی اور وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے والی اپوزیشن لوڈ شیڈنگ احتجاج پر اکٹھی ہو گئیں۔ دوسری جانب تین مہینے میں لوڈ شیڈنگ کے خاتمہ کا دعویٰ۔ ناکامی کی صورت میں اپنا نام بدل دینے کے وعدے سنانا اور دکھانا منع ہیں:
دھن دھنا دھن تاک کی آواز ہے ہر گام پر
سوچتا ہوں روز و شب افسانۂ ایّام پر
ملتِ بیضاء کے بیٹے، یاوہ گوئی میں د لیر
حیف اس آغاز پر افسوس اس انجام پر
مفتیانِ دین قیّم، روٹیوں کی فکر میں
کَس رہے ہیں پھبتیاں امّت کے ننگ و نام پر

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved