تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     26-06-2015

وزیرداخلہ‘ مولوی سعید اظہر اور میری مظلوم شاعری

شہر میں پابلوپکاسو کی تصویروں کی نمائش ہوئی تھی کہ گائوں سے سودا سلف خریدنے کے لیے آنے والی ایک عورت بھی ٹکٹ خرید کر اندر چلی گئی۔ وہ تصویریں دیکھتی اور حیران کم اور پریشان زیادہ ہوتی چلی گئی۔ جب اسے پتا چلا کہ خود مصور بھی اس عمارت میں موجود ہے تو اس نے اس سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا جس پر موصوف آ گئے تو خاتون نے ایک تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا:
''یہ کس چیز کی تصویر ہے؟‘‘ جس پر مصور نے اسے بتایا کہ یہ ایک لڑکی کی تصویر ہے۔ خاتون بولی‘ ''اُف خدایا‘ لڑکی ایسی ہوتی ہے؟‘‘ پکاسو بولا‘ میرے خیال میں تو ایسی ہی ہوتی ہے‘ جس پر خاتون نے اگلی تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا تو موصوف نے کہا کہ یہ ایک درخت کی تصویر ہے۔ تو وہ خاتون بولی‘ ''ہائے اللہ‘ درخت ایسا ہوتا ہے؟‘‘ پکاسو نے اثبات میں جواب دیا تو اس نے اگلی تصویر کے بارے استفسار کیا تو پکاسو نے کہا کہ یہ ایک مکان کی تصویر ہے؟ اس پر خاتون بولی:
''مسٹر پکاسو! اگر آپ کی بینائی اتنی ہی کمزور تھی تو آپ کو
تصویریں بنانے کا مشورہ کس حکیم نے دیا تھا؟‘‘ جو حضرات کسی مجلس میں ہمارے شعر غلط پڑھتے ہیں یا اپنی تحریر میں غلط نقل کرتے ہوئے اس کے وزن ہی کا ناس مار دیتے ہیں‘ ان سے بصارت کی کمزوری کی تو شکایت نہیں کی جا سکتی جبکہ تحریر و تقریر میں اشعار کا حوالہ کوئی معیوب بات بھی نہیں اور شاعر ان سے پڑھے گئے شعر کی رائلٹی بھی طلب نہیں کر سکتا لیکن ایسی ''غلط کاریوں‘‘ کو نظرانداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔
اگلے روز وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے اپنی ایک تقریر میں زرداری صاحب کے حوالے سے میرا یہ شعر پڑھا ؎
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اُس پر‘ ظفرؔ
آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہیے
جبکہ موصوف نے پہلا مصرع اس طرح پڑھا ع
جھوٹ بولا ہے تو اُس پر قائم بھی رہو ظفرؔ
اور اس کے وزن کی ٹانگ توڑ کر رکھ دی۔ اور جس دن ان کی تقریر کے حوالے سے اخبار میں یہ شعر شائع ہوا اسی روز محبی محمد سعید اظہر نے اپنے کالم کی سرخی میرے اس مصرعے سے جمائی ع
اتنا آساں بھی نہیں تجھ سے محبت کرنا
اتفاق دیکھیے کہ انہوں نے بھی یہ زرداری صاحب ہی کے حوالے سے کیا تھا لیکن مصرعے میں آساں کو آسان لکھ کر اسے ساقط الوزن کر دیا!
عرض کرنے کا مقصد ہے کہ میرا شعر صحیح طور پر مفت میں پڑھا یا نقل کیا جا سکتا ہے‘ لیکن شعر کا حلیہ بگاڑنے والے سے کم از کم تاوان تو طلب کیا جانا چاہیے۔ سو‘ چودھری صاحب سے تاوان تو کیا لینا ہے‘ البتہ اس کے عوض ان سے ایک فرمائش ضرور کی جا سکتی ہے کہ آئے دن وزیراعظم کے ساتھ روٹھنے سے براہ کرم اجتناب کیا کریں کہ یہ ہمارے سیدھے سادے اور بھولے بھالے وزیراعظم کی دلسوزی کا باعث بنتا ہے‘ اگرچہ (وہ اتنے بھولے بھی نہیں ہیں) وہ کھانا بھی وقت پر نہیں کھاتے یعنی دوپہر کا کھانا رات کو اور رات کا کھانا اگلی دوپہر کو اور جس طرح ہم ان کی باتوں کا یقین کر لیا کرتے ہیں وہ بھی کر لیا کریں کہ یقین کرنے پر خرچ بھی کیا ہوتا ہے۔
علاوہ ازیں‘ لگتا ہے کہ اس کابینہ میں چودھری صاحب ذرا نااہل بھی ہیں کیونکہ ان کے سامنے جو گنگا بہہ رہی ہے وہ اس میں نہانا چھوڑ‘ ہاتھ میں بھی نہیں دھوتے۔ ایسے ہی نااہل وزیروں میں ایک چودھری احسن اقبال بھی ہیں!
اب آتے ہیں سعید اظہر صاحب کی طرف جن کے ساتھ کبھی ہماری دوستی تھی‘ تب وہ مولوی سعید اظہر کہلاتے تھے‘ ہو سکتا ہے اب یہ لاحقہ انہوں نے ترک کردیا ہو۔ میرا مصرع غلط نقل کرنے پر ان پر جرمانہ یہ ہے کہ کسی دن رابطہ کریں تاکہ کوئی ایسی صورت نکالی جائے کہ زرداری صاحب کے بیان اور اس کی تفصیلات کی مزید تاویلات پیش کی جا سکیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پرانی ہمدمی کے صدقے اس پارٹی کے احیاء کے بارے میں بھی کھل کر بات کی جا سکے کیونکہ پارٹی صرف زرداری صاحب ہی پر مشتمل نہیں ہے‘ یعنی عوام پر پارٹی کی ملکیت بحال کرنے کی کوئی تدبیر کی جائے کیونکہ اس کا اس طرح تحلیل ہو جانا ملک کی سیاسی تاریخ کا ایک المناک باب ہوگا بلکہ پارٹیاں جوں جوں تحلیل اور معدوم ہوتی جائیں‘ توں توں ہی غیر سیاسی عناصر کی گنجائش نکلتی جائے گی اور یہ وہ نقصان ہے جس کی تلافی شاید کسی سے بھی نہ ہو سکے ع
شاید کہ ترے دل میں اُتر جائے مری بات
آج کا مطلع
نہ کوئی بات کہنی ہے نہ کوئی کام کرنا ہے
اور اس کے بعد کافی دیر تک آرام کرنا ہے
نوٹ: گزشتہ روز کے مطلع میں لفظ ''نشتر‘‘ کی بجائے ''منتشر‘‘ پڑھا جائے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved