تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     27-06-2015

میمو گیٹ

امریکی جی ایچ کیو پینٹاگان نے‘ جس کا سربراہ ہمیشہ کوئی سویلین ہوتا ہے‘ مشرق وسطیٰ میں ابو بکر بغدادی کی خلافت سے لڑنے والے ایک جرنیل کی سر زنش کی ہے ۔میجر جنرل ڈینا پٹرڈ پر الزام تھا کہ اس نے ملٹری اکیڈمی میں اپنے دو ہم جماعتوں کی فرم کو سرکاری ٹھیکے دلوانے میں امداد کی۔گزشتہ سال لاطینی امریکہ میں خاص کارروائیوں کے کمانڈنٹ بریگیڈیر جنرل شان ملہو لینڈ ''صحت اور ذاتی وجوہ‘‘ کی بنا پر قبل از وقت ریٹائر ہو گئے تھے ۔در اصل انہیں اکثر شراب پی کر عام لوگوں کے سامنے آنے اور غل غپاڑہ کرنے کی بنا پر ڈسپلن کیا گیا تھا۔اسی طرح بحریہ نے ایڈمرل کے منصب کے تین فوجی افسروں کو کرپشن اور رشوت ستانی کے ایک کیس میں سزا دی ۔
پاکستان کے سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے عملی سربراہ آصف علی زرداری نے‘ جو خود پیسہ بنانے کے الزامات کی لپیٹ میں ہیں‘ اسلام آباد میں خیبر پختونخوا سے آئے ہوئے کارکنوں اور دوسری پارٹی شخصیتوں کے اجتماع میں مسلح افواج کے طرز عمل پر جو تنقید کی اس نے ملک کو ہلا کے رکھ دیا‘ کیونکہ ایسا کرنے کا رواج نہیں۔پیپلز پارٹی‘ جو سب پارٹیوں کو ساتھ لے کر جمہوریت اور استحکام کی منزل کی طرف بڑھنے کی دعویدار تھی‘ آج تقریباً اکیلی کھڑی نظر آ تی ہے ۔ اسے سندھ میں اپنی حکومت کا خاتمہ قریب دکھائی دے رہا ہے۔ 2011ء میں جب وہ پورے ملک پر حکمران تھی اور امریکہ نے ایبٹ آباد پر یلغار کی تھی‘ تو اس نے فوج کے بر سر اقتدار آنے کا خطرہ محسوس کیا تھا چنانچہ اس نے اس خطرے کو ٹالنے کے لئے جو مبینہ اقدامات کئے ان میں سے ایک بین الاقوامی سکینڈل بھی تھا جسے بر وزن واٹر گیٹ‘ میمو گیٹ کا نام دیا گیا ۔اس سکینڈل کے مرکزی کردار حسین حقانی تھے جو حال ہی میں واشنگٹن میں تجزیہ کاروں کے ایک پاکستانی گروپ میں مہمان مقرر تھے۔ حقانی نے ایک بار پھر اس خیال کی تردید کی کہ یہ میمو‘ جس پر کوئی دستخط اور تاریخ نہیں تھی‘ انہوں نے لکھا تھا اور منصور اعجاز کے توسط سے جائنٹ چیف آف سٹاف مائک ملن تک پہنچایا تھا؛ تاہم عملاً وہ میمو کے مندرجات سے اختلاف کرتے دکھائی نہیں دیتے ۔جب ایک اخبار نویس نے پو چھا کہ آپ پاکستان کیوں نہیں جاتے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ جب حالات بہتر ہو ں گے تو وہ پاکستان بھی جائیں گے ۔سر دست وہ واشنگٹن میں ریسرچ کر رہے ہیں اور ان کی اگلی کتاب Pakistan Reimagined آنے کو ہے۔ انہوں نے کہا: ''اقبال کو پی ایچ ڈی کرنا تھا تو وہ ہائیڈل برگ (جرمنی) گئے تھے مگر میں ریسرچ کے لئے امریکہ میں بیٹھا ہوں تو غیر ملکی ایجنٹ ہوں کیونکہ لیبل اور سب و شتم‘ ریسرچ اور علم سے زیادہ اہم ہیں‘‘۔ انہوں نے لائبریری آف کانگرس کی‘ جس میں روزنامہ امروز کی آخری فائل بھی رکھی ہے‘ اہمیت بیان کی اور اقبال کا یہ شعر پڑھا ؎
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ
میمو گیٹ کے زمانے میں حسین حقانی امریکہ میں پاکستان کے سفیر تھے اور منصور‘ جو دیہی ورجینیا میں پل کر جوان ہوئے تھے‘ ایک فنڈ کے منیجر تھے اورامریکی ا خبارات میں کبھی کبھار ایک کالم لکھتے تھے ۔بطور سفیر حقانی‘ منصور اور پاکستانی نسل کے دوسرے امریکیوں سے رابطہ رکھتے تھے ۔آج کل وہ باسٹن یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور کے استاد ہیں اور یہاں موقر تھنک ٹینک ہڈسن انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ہیں ۔پاکستان سے ''فرار‘‘ کی داستان پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا:جج صاحب نے کہا تھا کہ حقانی اگلی پیشی پر حاضر ہوں تو میرے وکیل نے عرض کیا تھا کہ آپ تحر یری طور پر ایسا حکم دے دیں تو وہ حاضر ہو جائیں گے مگر جج نے ایسا نہ کیا اور میں امریکہ چلا آیا۔اس کے بعد سب کو میمو گیٹ بھول گیا ہے۔ حقانی کو حال ہی میں اپنے بھا رت کے سفر اور وہاں لیکچر دینے پر بھی بُرا بھلا کہا گیا جب کہ رمضان شریف کی آمد پر وزیر اعظم نریندر مودی کے تہنیتی پیغام پر وزیر اعظم نواز شریف نے ان کا شکریہ ادا کیا اور ڈھاکہ میں ان کی تقریر کا حوالہ دیے بغیر دونوں ہمسایوں میں امن اور اخوت کی فضا کو برقرار رکھنے پر زور دیا۔ بھارت میں اپنے قیام کے دوران حقانی نے اسی نکتے پر زور دیا تھا۔
زرداری کے بیان کے بعد مسلم لیگ (ن)‘ تحریک انصاف‘ ایم کیو ایم‘ مسلم لیگ (ق) اور دوسری جماعتوں کے لیڈروں کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذہب‘ آبادی اور کشمیر کی طرح فوج بھی بحث سے بالا تر ہے‘ خواہ کرپٹ جرنیلوں کی فائلیں جی ایچ کیو میں اور عدالتوں میں ہی کیوں نہ پڑی ہوں ۔دوسرے ادارے بالخصوص پولیس‘ عدلیہ اور بجلی اور پانی کے نظام بھی نکتہ چینی کا نشانہ بنے ہیں اور الطاف حسین اور خوا جہ آصف ایسی تنقید میں شریک رہے ہیں مگر زرداری کے بیان کو بطور خاص مذمت کے لئے چنا گیا ہے ۔
آصف زرداری کے بیان نے پاکستان کو شکروں اور فاختاؤں میں تقسیم کر دیا ہے ۔ خواجہ آصف اور پرویز مشرف نے تو بھارت کے خلاف ایٹم بم استعمال کرنے کی دھمکی تک دے ڈالی ۔ یہ دھمکی ایک بھارتی وزیرکے اس بیان کے بعد دی گئی تھی کہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں برما میں بھارتی مداخلت سے سبق لینا چاہیے ۔بھارت میں مودی کی حکومت قائم ہونے کے بعد پہلے ہی یہ بٹوارہ موجود ہے۔ وہاں ایک ہفتے میں ایک صحافی کو قتل کیا گیا اور دوسرے کو ایک موٹر سائیکل کے پیچھے باندھ کر گھمایا گیا۔ دونوں اخبار نویسوں نے زمینی حقائق کو بے نقاب کرنے کی جسارت کی تھی۔
آصف زرداری کے بیان کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے ان کے ساتھ پہلے سے طے شدہ اپنی ایک میٹنگ منسوخ کی۔ وزیراعظم کے ایک حریف چوہدری شجاعت حسین شریک ہوئے۔ میٹنگ میں ایم کیو ایم کا‘ جسے حکومت سندھ سے شدید اختلافات ہیں‘ ایک اعلیٰ سطحی وفد موجود تھا اور اسی طرح خیبر پختو نخوا میں نئے اتحادی مولانا فضل الرحمن اور میاں افتخار حسین بھی۔
ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی سیا ست دان ابھی پختہ نہیں ہوئے ۔بہ الفاظ دیگر سول اور ملٹری تعلقات ابھی متوازن ہونے باقی ہیں‘ شاید ان کو پختہ ہونے کا موقع نہیں ملا۔پیپلز پارٹی کی تاریخ بغاوتوں سے پُر ہے ۔پارٹی کا قیام ہی جنرل محمد ایوب خان سے ان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کی بغاوت کا شاخسانہ تھا۔اس کے بعد جنرل یحییٰ‘ جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف سے پارٹی کی سر تابی معروف ہے جب کہ چھوٹی پارٹیوں کے نمائندے فوجی حکومتوں میں شامل رہے ہیں جیسا کہ قمر زمان کائرہ نے وضاحت کی۔ زرداری صاحب کی نکتہ چینی‘ جیسا کہ اسے عام طور پر موجودہ سپہ سالار پر حملے سے تعبیر کیا گیا‘ اصل میں ڈکٹیٹروں پر تھی ۔
حسین حقانی کی پرورش کراچی یونیورسٹی میں ہوئی جہاں وہ اسلامی جمعیت طلبا کے رکن تھے۔ ''جہاد افغانستان‘‘ کے ایک بڑے کردار مولوی جلال الدین حقانی سے ان کا کوئی تعلق نہیں؛ البتہ وہ دلی کے ایک متدین گھرانے کے چشم و چراغ ہیں۔ ان کے دادا کی تفسیر حقانی آج بھی کئی دینی مدرسوں کے نصاب میں شامل ہے۔ حسین حقانی‘ غلام مصطفی جتوئی‘ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے زمانے میں ان کے مشیر رہنے کے باوصف سیکولر آصف علی زرداری کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں اور اپنی پہلی تصنیفPakistan Between Mosque And Military کے اس تعارفی جملے پرقائم ہیں کہ ''پاکستان کی ملٹری اور انٹیلی جنس سروسز زیر احتساب آنے سے محفوظ رہنے کی بھرپور کوشش کرتی ہے‘‘۔
ڈھاکہ یونیورسٹی میں مودی کی تقریر کے بعد اور پاکستانی ماہی گیروں کی رہائی سے پہلے بیشتر سیاستدانوں نے بھارت کی مذمت میں جو بیانات دیے‘ ان میں جماعت کے امیر سراج الحق کا یہ بیان بھی شامل تھا کہ جو کوئی بھارتی حکومت کے سربراہ کو نقصان پہنچائے گا‘ وہ اسے ایک کروڑ روپیہ انعام دیں گے ۔حقانی نے پھبتی کسی: ''ایک کروڑ لائیں گے کہا ں سے؟‘‘ سب کے علم میں ہے کہ بھارتی افواج نے مکتی باہنی کی امداد کی تھی اور پاکستان کی مسلح افواج کے نوے ہزار افسروں اور جوانوں کو جنگی قیدی بنا یا تھا مگر بیانات میں ان حقائق کو چھپانے کی کوشش کی گئی۔
حقانی کا مشاہدہ تھا کہ پاکستان میں اقلیتی مذہبی جماعتوں کا ویٹو ختم ہو نا چاہیے‘ بلوچوں کو ملک میں حقیقی سٹیک دیا جائے‘ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کیا جائے اور زرداری کی ہم نوائی کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ضرب عضب والے ہر کسی سے نہیں لڑ سکتے۔ ''ہمارے پاس ملٹری ازم اور ملی ٹنسی کے سوا رکھا کیا ہے۔ ہم اپنی دنیا میں رہتے ہیں اور تلخ حقائق کا سا منا نہیں کرتے‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved