صرف کراچی شہر میں ایک ہزار سے زائد افراد جس ناگہانی موت کا شکار ہوئے‘ ان میں بہت کم ایسے ہوں گے‘ جو اپنی موت مرے۔ بیشتر افراد کے قاتل پاکستان کے حکمران ہیں‘ جنہوں نے یہ وعدہ کر کے عوام سے ووٹ لیا تھا کہ وہ عوام کی ضروریات پوری کرنے‘ ان کے تحفظ‘ صحت‘ تعلیم اور خوراک کی فراہمی کا انتظام کریں گے اور خصوصاً زندگی کے لئے ناگزیر سہولتیں ہر شہری کو حسب استطاعت قیمتوں پر فراہم کرنے کا انتظام کریں گے۔ جو حکمران ایسا نہ کر پائیں‘ انہیں فوری طور پر اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے مستعفی ہو جانا چاہئے اور اگر مستعفی نہ ہوں تو عوام کو زبردستی انہیں نکال باہر کرنا چاہئے۔ یہ جمہوری نظام کا بنیادی تقاضا ہے۔ اگر حکمران ایسا نہ کر سکیں تو یہ فرض عدلیہ ادا کرتی ہے‘ جس کا فرض ہے کہ وہ حکومت کو آئین کے مطابق اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کا حکم دے اور اگر ان کے حکم کی تعمیل نہ ہو تو اہل اقتدار کو نااہل قرار دے کر حکومتی ذمہ داریوں سے فارغ کر دینا چاہئے۔ اگر یہ سب کچھ نہیں ہو رہا تو نہ تو ملک میں جمہوریت ہے ‘ نہ کوئی حکومت ہے اور نااہلی کی جو مثالیں میں نے اوپر دی ہیں‘ ان کے ہوتے ہوئے کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ محض زیادہ ووٹوں کی بنیاد پر اقتدار میں آئے اور عہدوں کے حلف اٹھاتے وقت اس نے آئین کی پابندی کا جو عہد کیا‘ اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھی اقتدار میں رہنے پر اصرار کرے۔ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ ملک کا ہر وہ ادارہ جو آئین کا پابند ہے‘ حکومت کی آئینی کارکردگی دیکھ کر‘ اسے اقتدار سے باہر کرنے کے لئے ہر ممکن سعی کرے۔ سرکاری ملازمین کو ملکی قوانین اور آئین اس امر کا پابند کرتے ہیں کہ حکومت کے غیر آئینی اقدامات تسلیم کرنے سے انکار کر دیں‘ جیسا کہ اسلام آباد میں پولیس کے دو افسروں نے غیر قانونی احکامات کی تعمیل سے انکار کرتے ہوئے اپنی ملازمتیں قربان کر دیں‘ لیکن اپنی قانونی ذمہ داریوں سے انحراف نہیں کیا۔ اصل میں یہی دو افراد اصل ہیرو ہیں جبکہ غیر قانونی احکامات کے سامنے سر جھکاتے ہوئے یہ کام کرنے والے گناہگار ہیں۔
اہل کراچی کی بے بسی کو دیکھتے ہوئے‘ دل چاہتا ہے کہ ظالم حکمرانوں کے خلاف ویسی ہی کارروائی کی جائے‘ جیسے پاک فوج دہشت گردوں کے خلاف کر رہی ہے۔ مجھے یہ بتائیے کہ کراچی میں جو ایک ہزار آدمی لوڈ شیڈنگ‘ ہسپتالوں میں دستیاب سہولتوں اور مناسب خوراک سے محرومی کے سبب مرے ہیں‘ ان کی ناگہانی موت اور دہشت گردوں کے بموں سے مرنے والوں کی ناگہانی موت میں کیا فرق ہے؟ دہشت گردی کا شکار ہو کر ناگہانی موت مرنے والے اور حکومت کی غیر ذمہ داری کا نشانہ بن کر‘ مرنے والوں میں کیا فرق ہے؟ کیا دونوں طرح مرنے والے دہشت گردی کا شکار نہیں؟ کیا بے گناہوں کو تڑپا تڑپا کر ہلاک کرنے اور بموں سے ہلاک کرنے والے دہشت گردوں میں کوئی فرق ہے؟ اگر بم چلانے والے دہشت گردوں کی سزا موت ہے‘ تو جنہوں نے اپنے فرائض کی ادائی میں غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سینکڑوں بے گناہوں کو تڑپا تڑپا کر مار ڈالا‘ کیا انہوں نے دہشت گردی کے جرم کا ارتکاب نہیں کیا؟ پاکستان کی کوئی بھی اعلیٰ عدالت موجودہ حکومت کی کارکردگی کو آئین کی خلاف ورزی قرار دے کر‘ موجودہ حکمرانوں کو ذمہ داریوں سے نکال باہر نہیں کرتی تو کیا وہ خود آئین کی پاسداری کر رہی ہے؟ موجودہ حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں نے گزشتہ دو سال کے دوران اپنی آئینی ذمہ داریوں سے انحراف کیا۔ حکومت نے لوگوں سے ووٹ مانگتے وقت جتنے وعدے کئے تھے‘ ان میں سے ایک بھی پورا نہیں کیا اور اس بری طرح سے وعدہ خلافیاں کیں کہ سینکڑوں بے گناہ لوگ‘ بے بسی کی موت مر گئے۔ اس کے ذمہ دار حزب اقتدار اور حزب اختلاف‘ دونوں کے منتخب اراکین ہیں۔ حکومت نے جو وعدے کئے تھے‘ انہیں پورا نہیں کیا۔ خصوصاً لوڈ شیڈنگ‘ جس نے لوگوں کے کاروبار تباہ کر دیے‘ ختم کرنے کا وعدہ۔ شہریوں کو بنیادی سہولتوں سے محروم کر کے‘ ان کی زندگی عذاب بنا کر رکھ دی گئی۔ کیا وہ جرم کے مرتکب نہیں ہوئے؟2013ء کے انتخابات کا بنیادی نعرہ کیا تھا؟ بجلی... بجلی... اور بجلی۔ گزشتہ انتخابات اس ایک نکاتی ایجنڈے پر منعقد ہوئے تھے۔ کوئی پارٹی ایسی نہیں‘ جس نے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ نہیں کیا۔ کوئی امیدوار ایسا نہیں جس نے یہی وعدہ نہیں کیا۔ مسلم لیگ (ن) والوں نے سب سے بڑھ چڑھ کر‘ اپنی مہارت کے دعوے کرتے ہوئے ایک ہی وعدہ کیا کہ وہ لوڈ شیڈنگ جلد از جلد ختم کر دیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے انتہائی بااختیار لیڈر جناب شہباز شریف نے باقاعدہ عرصے کا تعین کرتے ہوئے اپنی انگشت شہادت زور زور سے ہلا کر‘ یہ وعدہ کئی مرتبہ دہرایا۔ ایک مرتبہ انہوں نے چھ ماہ کی مہلت مانگتے ہوئے عوام کے سامنے عہد کیا کہ اگر وہ چھ ماہ کے اندر لوڈ شیڈنگ ختم نہ کر سکے تو اپنا نام بدل دیں گے۔ یہ بڑا پختہ وعدہ تھا‘ جس میں وقت کا تعین بھی کر دیا گیا تھا۔ وہ چھ ماہ گزر گئے۔ اسی پارٹی نے ایک سال میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ بھی کیا۔ وہ ایک سال بھی گزر گیا۔ پھر ایک اور وعدہ دو سال کا کیا گیا۔ دو سال بھی گزر گئے۔ لوڈ شیڈنگ پہلے سے بڑھ گئی۔ اس کے بعد سب سے بڑا ظلم یہ کیا جا رہا ہے کہ ایک طرف لوگ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے ناگہانی اموات کا شکار ہو رہے ہیں‘ گھر گھر صف ماتم بچھی ہے۔ دوسری طرف کولڈ سٹوریج میں لاشیں رکھنے کی جگہ نہیں رہ گئی۔ لوگ اپنے مرنے والوں کے جنازے اٹھائے پھرتے ہیں۔ انہیں دفنانے کے لئے قبر کی جگہ دستیاب نہیں۔ مخیر ادارے باقاعدہ اعلانات کر رہے ہیں کہ غربا اپنے مرنے والوں کے لئے مفت قبریں حاصل کریں اور جو قبر لینے جاتے ہیں‘ انہیں ایک چٹ پکڑا دی جاتی ہے کہ انہیں اتنے وقت کے بعد‘ قبر فراہم کر دی جائے گی۔ دنیا میں کہیں اس طرح لوگوں کو اپنے مردے دفنانے کے لئے قطاروں میں لگنا پڑا؟ عوام پر بہت بڑی آفتیں ٹوٹی ہیں لیکن انسانوں کی لائی ہوئی‘ ایسی تباہی شاید ہی کہیں آئی ہو۔ ہمارا ملک وسائل سے محروم نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز دے رکھی ہے۔ ہمارا کسان دن رات محنت کر کے کھیتوں میں فصلیں اگاتا ہے۔ مویشی پال کر دودھ اور گوشت فراہم کرتا ہے۔ زندہ رہنے کے لئے کوئی بھی ایسی شے نہیں‘ جو ہمارے عوام پیدا نہ کرتے ہوں۔ ہمارا ملک آبشاروں سے بھرا ہے۔ پانی اتنا دستیاب ہے کہ سیلاب میں بستیاں ڈوب جاتی ہیں اور فالتو پانی سمندروں میں گرانا پڑتا ہے۔ عوام کا نام لے کر‘ ہمارے حکمران دنیا بھر سے عطیات مانگتے ہیں۔ اربوں روپے عوام کے نام پر حاصل کر کے رقوم خورد برد کر جاتے ہیں۔ رشوت لے کر جعلی دوائیں فروخت کرنے کی کھلی چھوٹ دیتے ہیں۔ عوام تو کسی کو یہ کہنے نہیں جاتے کہ ہم سے آ کر ووٹ مانگو اور ہمارے حکمران بنو۔ یہ لوگ خود ہی در در جا کر ووٹ کی بھیک مانگتے ہیں۔ طرح طرح کے عہد و پیمان کرتے ہیں۔ قسمیں اٹھاتے ہیں اور اقتدار ملتے ہی وہ عوام کے خلاف جرائم کا ارتکاب شروع کر دیتے ہیں۔ غنڈوں کی سرپرستیاں کر کے‘ عوام کی جان و مال کی حفاظت کا فرض ادا نہیں کرتے۔ ایک سپاہی اور پٹواری قوانین کے مطابق اپنی ذمہ داریوں سے کوتاہی کرتے ہیں تو انہیں نوکری سے نکال دیا جاتا ہے اور یہ حکمرانی کی ذمہ داریاں اٹھانے والے اپنا کام ٹھیک سے نہیں کرتے‘ تو انہیں معطل اور برطرف کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ حکمرانوں کو یہ حق کس نے دیا کہ ان کی غیر ذمہ داریوں کے سبب عوام مرتے رہیں اور وہ ان کے خون پسینے کی کمائی لوٹ کر‘ عیش و عشرت کی زندگیاں گزاریں اور عوام سڑکوں پر بھوک‘ پیاس اور کمزوری سے تڑپ تڑپ کر مرتے رہیں؟ میں تو کراچی کے بے گناہ شہریوں کے قاتلوں کو قابل معافی نہیں سمجھتا۔ ان کے قاتل تمام ارباب اقتدار‘ پارلیمنٹ کے اندر بیٹھے ہوئے تمام نام نہاد نمائندے‘ بڑے بڑے عہدوں پر کام کرنے والے سرکاری اہلکار‘ یہ سب بلاامتیاز بے گناہ شہریوں کے قاتل ہیں اور ان کے ساتھ وہی سلوک ہونا چاہئے‘ جو دہشت گردوں کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ اس سے کم کوئی سزا ان کے جرائم کا حساب نہیں چکا سکتی۔ آخر میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج‘ جواد ایس خواجہ کا ایک ریمارکس‘ آپ کی نذر کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا تھا کہ ندی کے کنارے ایک کتا بھی پیاس سے مر گیا‘ تو اس کا ذمہ دار میںؓ ہوں گا۔ اگر یورپ میں اس طرح کا واقعہ ہو جائے تو اس وقت کے حکام تک استعفیٰ دے دیتے ہیں۔ یہاں دھوپ سے اتنے لوگ مر گئے تو کہا جاتا ہے کوئی بات نہیں۔ بتایا جائے کہ سٹون کرشنگ سے کتنے لوگ مر گئے اور کتنے مریں گے؟