تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     27-06-2015

مجلسِ ترقی ٔ ادب کی مطبوعات

جریدہ ''صحیفہ‘‘ (شبلی نمبر)
مجلسِ ترقی ٔ ادب نامور سرکاری اداروں میں سے ہے جو ایک عرصے سے زیادہ تر کلاسیکی مشاہیر کی تصانیف کی اشاعت کا کارنامہ سرانجام دے رہا ہے اور جس کی سربراہی کو امتیاز علی تاج‘ پروفیسر حمید احمد خاں‘ عابد علی عابد‘ احمد ندیم قاسمی اور شہزاد احمد جیسی ہستیاں زیب دیتی رہی ہیں۔ اس ادارے کی ایک خصوصیت جریدہ ''صحیفہ‘‘ کی مسلسل اشاعت بھی ہے اور جس نے شبلی نمبر شائع کر کے ایک اور سنگِ میل عبور کیا ہے۔ ادارے کے موجودہ ناظم جانی پہچانی ادبی و تحقیقی شخصیت ڈاکٹر تحسین فراقی ہیں‘ جو ایک نغز گو شاعر بھی ہیں‘ ان سے یہ نمبر ہمیشہ یادگار رہے گا۔
شمس العلماء علامہ محمد شبلی نعمانی (1914-1857ء) دنیائے ادب کی ایک کثیر الجہت شخصیت تھے۔ وہ ادیب‘ نقاد‘ شاعر‘ عالم‘ مؤرخ‘ محقق اور متکلم تھے۔ اقبال انہیں استادالکل کا درجہ دیتے تھے۔ موجودہ شمارہ جو 720 صفحات پر مشتمل ہے اور جس کی قیمت 650 روپے ر کھی گئی ہے‘ حال ہی میں منصۂ شہود پر آیا ہے جس میں شبلی پر لکھے گئے مختلف ادیبوں کے مضامین شامل ہیں‘ جن میں سے چند یہ ہیں: محمد الیاس اعظمی‘ آفتاب احمد صدیقی‘ افضل حق قریشی‘ سرسید احمد خان‘ اسلوب احمد انصاری‘ شیخ محمد اقبال‘ شیخ محمد اکرام‘ محمد سلیم اختر‘ صوفی غلام مصطفی تبسم‘ شمس الرحمن فاروقی‘ سید وقار عظیم‘ محمد حسن‘ گیان چند جین‘ خلیل الرحمن اعظمی‘ آل احمد سرور‘ محمد دین تاثیر‘ سید محمد عبداللہ‘ رفیع الدین ہاشمی‘ سید سلیمان ندوی‘ شیخ عبداللہ‘ شیخ سر عبدالقادر اور بہت سے دوسرے۔
شروع میں شبلی کی زندگی کے عکسی نوادر کی فہرست چھاپی گئی ہے اور اس کے بعد تذکرۂ ماہ و سال کے عنوان سے محمد الیاس اعظمی کی تحریر ہے جس میں علامہ موصوف کے سفرِ زندگی کی داستان مختصر قلمبند کی گئی ہے۔ شبلی نعمانی کے فن اور ہمہ گیر شخصیت پر یہ ایک مبسوط دستاویز ہے جس کی اپنی ایک تاریخی حیثیت ہے‘ البتہ ایک تشنگی باقی رہتی ہے اور وہ یہ کہ شبلی کی حیاتِ معاشقہ پر یہ جریدہ خاموش ہے جس پر ایک سے زیادہ کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔
مضامینِ فراق
یہ کتاب صاحبِ اسلوب نثر نگار ناصر نذیر فراق کے مضامین کا مجموعہ ہے‘ جسے محمد سلیم الرحمن نے مرتب کیا ہے۔ حرفے چند کے عنوان سے اس کا ابتدائیہ خود تحسین فراقی اور دیباچہ مرتب محمد سلیم الرحمن کا تحریر کردہ ہے۔ اس مجموعے میں فراق کے 19 مضامین شامل ہیں جبکہ آخر میں حواشی اور فرہنگ کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ مختلف مضامین اور تذکروں پر مشتمل یہ کتاب اردو نثر کے ایک دلپذیر ذائقے سے روشناس کراتی ہے جو اب بوجوہ باقی نہیں رہا کہ اس نے ترویج و ترقی کے کئی نئے اور دیگر رُخ اور زاویے اختیار کر لیے ہیں۔ کتاب دیدہ زیب گیٹ اپ میں شائع کی گئی ہے اور اردو نثر کے مختلف اسالیب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ایک تحفے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی قیمت 200 روپے رکھی گئی ہے۔
مقالاتِ عبدالستار صدیقی
یہ کتاب ساجد صدیقی نظامی کی مرتب کردہ ہے جس کی قیمت 400 روپے رکھی گئی ہے۔ یہ مشرقی السنہ کے نامور محقق اور گوشہ نشین اہلِ علم تھے جو تمام عمر نام و نمود اور شہرت پسندی سے دور رہے۔ آپ 26 دسمبر 1858ء کو سندیلہ ضلع ہردوئی میں پیدا ہوئے۔ الٰہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے کیا اور اسٹراس برگ یونیورسٹی میں داخلے کے بعد یورپ میں قیام رہا۔ مفصل تعارف ڈاکٹر تحسین فراقی نے خود تحریر کیا ہے۔ صدیقی صاحب کے 12 مضامین شامل ہیں‘ جن میں تین غالب کے حوالے سے ہیں۔ آخر میں مصنف کا ایک انگریزی مضمون بھی شامل ہے۔ عمدہ گیٹ اپ کے ساتھ چھاپی گئی کوئی اڑھائی سو صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 400 روپے رکھی گئی ہے۔
رِلکے کے نوحے
رلکے کا شمار یورپی شعراء کی پہلی صف میں ہوتا ہے۔ ان کی کتاب ''دس نوحے‘‘ کو ان کا شاہکار قرار دیا جاتا ہے جو کسی الہامی فیض کے نتیجے میں اس کی نوکِ قلم پر آئے‘ جن کو نامور مترجم ا ور زبانوں کے عالم ہادی حسین مرحوم نے اردو کے قالب میں ڈھالا۔ رلکے مغرب کے مشکل شعراء میں شمار ہوتا ہے۔ ان نوحوں کو ہادی حسین نے ایک قسم کی ڈرامائی خود کلامی کہا ہے جس کا مرکزی کردار خود شاعر ہے۔ ان نوحوں کے بارے میں ان کا مؤقف یہ ہے کہ موجودہ مغربی دور کی شاعری کی صورت بندی میں انہیں وہی مقام حاصل ہے‘ جو ایلیٹ کی ''ویسٹ لینڈ‘‘ کو ملا ہے۔ یہ نوحے خود اس کی شاعرانہ زندگی کا ایک المیہ ہیں۔ کوئی سوا سو صفحات کو محیط اس کتاب کی قیمت 200 روپے رکھی گئی ہے جو محکمۂ اطلاعات و ثقافت پنجاب کے تعاون سے شائع ہوئی ہے۔
چلا آ رہا ہوں سمندروں کے وصال سے
یہ کتاب چھاپی تو سنگِ میل پبلی کیشنز لاہور نے ہے لیکن چونکہ یہ مجلس کے ناظم ڈاکٹر تحسین فراقی کی مرتب کردہ ہے اس لیے اسے بھی مجلس کی کتابوں میں شمار کیا گیا ہے‘ جس میں نامور اردو شاعر اور جدید نظم کے ایک نہایت معتبر شاعر کی نظموں کا انتخاب پیش کیا گیا ہے۔ آغاز میں مرتب نے ''وہ آنکھیں ہیں جو کھلی ہیں‘‘ کے عنوان سے تعارفی تحریر ارزانی کی ہے جبکہ شاعر کے چاروں مجموعوں‘ ماورا‘ ایران میں اجنبی‘ لا = انسان اور گمان کا ممکن سے نظموں کا انتخاب پیش کیا گیا ہے۔ کتاب اردو کے ممتاز نقاد اور منفرد دانشور ڈاکٹر شمیم حنفی کے نام منسوب ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ میں ن م راشد کی شخصیت اور شاعری کا جب بھی تصور کرتا ہوں‘ میرے آئینۂ خیال میں ایک ایسے شخص کی شبیہ ابھرتی ہے جو سراپا التہاب تھا۔ ایک اضطرابِ مسلسل‘ غیاب ہو کہ حضور‘ یہ اضطرابِ مسلسل انہیں کہاں کہاں لیے نہیں پھرا‘ مختلف جغرافیائی منطقوں سے لے کر فکر کی گہری گپھائوں تک... نہایت عمدہ گیٹ اپ کے ساتھ شائع کی گئی ڈیڑھ سو سے زائد صفحات پر مشتمل اس خوبصورت کتاب کی قیمت 400 روپے رکھی گئی ہے۔
آج کا مقطع
سفینہ سمت بدلتا ہے اپنے آپ، ظفرؔ
کوئی بتائو مرا بادباں کہاں گیا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved