کوئی آکسیجن کے بغیر جی سکتا ہے؟ آپ سوچیں گے یہ کیا عجیب سوال ہوا۔ بھلا آکسیجن کے بغیر بھی کوئی جی سکتا ہے؟ ہم جی تو رہے ہیں! پاکستان کی فضاء میں آکسیجن اب برائے نام رہ گئی ہے۔ یعنی بہ قدرِ اشکِ بلبل! مگر خیر، ہمارے ہاں ایک آکسیجن کا معاملہ ہی عجیب نہیں۔ ہر معاملے میں ہم دنیا والوں کو حیران کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ کوشش یہ ہے کہ جو چیز بھی ناگزیر سمجھی جاتی ہو اُس کے بغیر جی کر دکھایا جائے۔ اور جینا بھی ایسے ڈھنگ کا ہو کہ دنیا حیرت بالائے حیرت کے عذاب سے دوچار ہو!
دنیا بھر میں یہ خبر انتہائی دلچسپی سے پڑھی گئی ہے کہ امریکی ریاست مشیگن میں ایک مرغا ذبح کئے جانے کے بعد تقریباً ڈیڑھ سال تک زندہ رہا۔ وین نامی قصبے میں لیوڈ پولٹری آئٹمز کی دکان چلاتا ہے۔ ایک گاہک کے لیے جب اس نے مرغے کی گردن کاٹی تو کچھ ایسا ہوا کہ وہاں موجود تمام افراد حیران رہ گئے۔ مرغے کی گردن درست طریقے سے نہ کٹ سکی اور وہ کٹی ہوئی گردن کے ساتھ زندہ رہا۔ ہوا یہ کہ دماغ کی رگیں اور خوراک کی نالی پوری طرح نہ کٹ پانے کے باعث مرغے کا دم اٹک گیا۔ اور یوں وہ گردن کٹنے پر بھی زندہ رہا۔
لیوڈ کا یہ مرغا دیکھتے ہی دیکھتے دور و نزدیک میں مشہور ہوگیا۔ لیوڈ نے مرغے کا نام مائک رکھا۔ اس سَر کٹے مرغے کے ساتھ لیوڈ کئی بار ٹی وی شوز میں شریک ہوا۔ وہ اس عجیب و غریب مرغے کی بدولت ڈیڑھ سال تک ہر ماہ ساڑھے چار ہزار ڈالر تک کماتا رہا۔ ایک بار یونیورسٹی آف اوٹاوہ کے ماہرین کی ٹیم نے بھی مائک کا معائنہ کیا۔
امریکہ میں لوگ بے سَر کے مرغے کو دیکھ کر حیران تھے۔ اور ہم اس بات پر حیران ہیں کہ اس میں حیرت کی کون سی بات تھی۔ امریکی واقعی بہت عجیب ہیں۔ بے سَر کے جانور کے درشن کرکے حیرت میں پڑگئے اور اپنے حکمرانوں کو نہیں دیکھتے جو کھوپڑی استعمال کئے بغیر کام کر رہے ہیں اور دنیا کا ناک میں دم کئے ہوئے ہیں! ہم اگر غلط کہہ رہے ہیں تو آپ ہی بتائیے امریکی پالیسیوں میں کون سا اور کس درجے کا مغز پایا جاتا ہے؟ ایک زمانہ گزر چکا ہے لوگوں کو امریکی پالیسیوں میں دماغ کے استعمال کی علامات تلاش کرتے ہوئے مگر اب تک کامیابی نہیں مل سکی۔ جس کی گُڈّی اونچی اڑ رہی ہو وہ خود بھی زمین پر ہوتے ہوئے بہت اونچا اڑ رہا ہوتا ہے۔ یہی حال امریکہ اور امریکیوں کا ہے۔ وہاں اگر کوئی معمولی سا مرغا بھی گردن کٹنے پر زندہ رہے تو نام کمائے۔ اور جنہیں امریکی پالیسیاں گردن سے محروم کردیں ان کا نام و نشان تک نہ ملے اور نہ کوئی ان پر آنسو بہائے!
یہ کیسی طاقت ہے جو دوسروں کی کمزوری کی محتاج ہے؟ امریکہ اپنی برتری یقینی بنانے کے لیے دوسروں کی کمزوریاں یقینی بنائے رکھنے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ اپنی سانسوں کا ربط برقرار رکھنے کے لیے واحد سپر پاور کو بہت سوں کی گردن کاٹنا پڑتی ہے!
ایک زمانے سے ہم بھی اُن میں سے ہیں جو گردن کے ہوتے ہوئے سَر کٹوں کی سی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ دنیا ہمیں دیکھ کر حیران کیا ہو کہ اب تو خود ہمیں بھی اپنی اس حالت پر حیرانی نہیں ہوتی! امریکہ میں ایک مرغا گردن کٹنے پر بھی زندہ رہا اور شہرت پاگیا مگر ہم ہیں کہ کسی گنتی ہی میں نہیں۔ امریکی پالیسیوں نے ہماری عقل کی گردن مار رکھی ہے اور ہم ہیں کہ اس حالت کو بھی امریکہ بہادر کی طرف سے انعام سمجھ کر قبول کئے ہوئے ہیں!
استعجاب اور اضمحلال کی منزل سے ہم کب کے گزر چکے۔ اب تو تاسّف بھی عجیب لگتا ہے۔ ہر طرح سے محفوظ اور intact گردن کے ہوتے ہوئے سَر یعنی دماغ کو زحمت دیئے بغیر زندگی بسر کرنے کا ہنر کیا ہوتا ہے‘ یہ کوئی ہم سے پوچھے اور سیکھے۔ قومی و بین الاقوامی امور کے مشاعروں میں دماغ کو ''زحمتِ کلام‘‘ دیئے بغیر ہم نے ہر بار ایسی ''غزل سرائی‘‘ فرمائی ہے کہ دنیا انگشت بہ دنداں رہ گئی ہے اور اسے داد دینا بھی یاد نہ رہا۔ آپ ہی بتائیے، فی زمانہ کون ایسا ''دانائے عصر‘‘ ہے کہ پرایوں کی جنگ کے لیے میدان مہیّا کرے! یہ تو ہمارا ہی جگرا ہے کہ دنیا بھر کی جنگیں ہماری سرزمین پر لڑی جارہی ہیں اور ہم بہت مزے سے اور خاصے فخر کے ساتھ ''حقِ میزبانی‘‘ ادا کر رہے ہیں! پہلے ہم ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کی منزل میں تھے اور اب ''جل کے دل خاک ہوا، آنکھ سے رویا نہ گیا‘‘ کے سنگِ میل تک پہنچ گئے ہیں!
مرزا تنقید بیگ کہتے ہیں کہ پرائی جنگوں کے لیے میدان جنگ فراہم کرنے میں کوئی قباحت کیوں ہو کہ اس کے دام بھی تو کھرے کئے جارہے ہیں۔ ٹھیک ہے، مگر دام تو چند بڑوں کو ملتے ہیں۔ پرائی لڑائی اپنے آنگن میں لڑوانے کا خمیازہ تو پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ مرزا کے نزدیک ع
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
یعنی یہ کہ ع
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
مطلب یہ کہ چھوٹوں کو کبھی کچھ ملا ہے نہ ملے گا۔ مال پانی ہمیشہ بڑوں میں بٹتا ہے۔ چھوٹوں کے مقدر میں صرف تلچھٹ لکھی ہوتی ہے۔
ہمارا استدلال تھا کہ دماغ کو حرکت اور زحمتِ کار دیئے بغیر ہم جو گزار رہے ہیں وہ زندگی تو نہ ہوئی۔ مرزا کا جوابی استدلال یہ ہے کہ آج کی دنیا میں ڈھنگ سے جینے کا یہی ہنر ہے کہ انسان اپنے دماغ کو سنبھال کر رکھے‘ بلکہ دنیا والوں پر یہ ثابت کرے کہ اس کے پاس تو دماغ ہے ہی نہیں۔ مرزا کہتے ہیں: ''امریکی مرغا تو یوں نام کماگیا کہ گردن نہ رہی مگر سانسیں رہیں۔ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ گردن اور سَر سلامت ہے اس لیے دنیا والے اس فریب میں متواتر مبتلا رہتے ہیں کہ ہم شاید کہیں نہ کہیں دماغ بھی بروئے کار لاتے ہی ہوں گے۔ اب ہم کیا بتائیں کہ ہم نے ایک زمانے سے اپنے طور پر طے کر رکھا ہے کہ ہماری گردن پر سَر ہے ہی نہیں۔ یعنی جینا ہے تو اس طور کہ دماغ کے استعمال کا دور دور تک شائبہ بھی نہ
ہو۔ زمانے کی ناقدری دیکھیے کہ امریکہ میں مرغا گردن کے بغیر جی لے تو واہ واہ اور ہم ایک زمانے سے گردن کے بغیر زندگی بسر کر رہے ہیں تو کسی کے لب پر ایک آہ بھی نہیں۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں!‘‘
شدید گرمی میں بھی مرزا کے منہ سے ایسی لاجواب بات سن کر ہم دنگ رہ گئے۔ دنیا والے کیا جانیں کہ آنکھیں ہوتے ہوئے بھی نہ دیکھنے اور دماغ ہوتے ہوئے بھی نہ سوچنے کے کتنے فوائد ہیں۔ انسان دیکھتا ہے تو کڑھتا ہے اور پھر سوچنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اور سوچیں مزید الجھنیں پیدا کرتی ہیں۔ آپ نے بھی سنا ہوگا کہ 'سوچاں نئیں تے موجاں ای موجاں!‘ امریکی شاید یہ چاہتے ہیں کہ دنیا والوں کو ماحول پر نظر دوڑانے کے قابل نہ چھوڑیں تاکہ انہیں بہت کچھ الٹا سیدھا دیکھ کر تکلیف نہ پہنچے۔ اور جب کوئی کچھ دیکھے گا ہی نہیں تو سوچ سوچ کر ہلکان بھی نہیں ہوگا۔ گویا امریکی پالیسیوں کا بنیادی مقصد ہماری تکالیف بڑھانا نہیں بلکہ کم کرنا ہے! اس ''مہربانی‘‘ کا شکریہ کیسے ادا کریں؟
جب ہم نے اپنے ذہنِ نارسا میں ابھرنے والا یہ امریکہ نواز نکتہ مرزا کے گوش گزار کیا تو وہ ایک لمحے کے لیے ششدر رہ گئے۔ ہم سمجھے کہ انہیں شاید یقین ہی نہیں آرہا کہ ہمارا ذہن ایسے زبردست نکتے تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ پھر جب ان کے حواس بحال ہوئے تو انہوں نے چند ایسے الفاظ کی مدد سے ہماری تواضع کی جو ہم رمضان المبارک کے احترام میں اور ادارے کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے یہاں بیان نہیں کرسکتے! پہلے ہم سمجھے شاید مرزا کا دماغ گرمی کے زیر اثر آگیا ہے مگر جب وہ غُرّاکر ہماری طرف لپکے تو یقین کرنا پڑا کہ گرمی ورمی کچھ نہیں، وہ تو ''سیریس‘‘ ہیں! ایسے میں ہمارے پاس جمہوریت کی طرح بوریا بستر گول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا!