تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     28-06-2015

حکمرانوں کو عوام سے کیا بیر ہے؟

عمران خان نے اپنے بیان میں یہ کہہ کر ایک بنیادی انسانی مسئلے کی طرف توجہ دلائی ہے کہ بھارت میں جب ہزاروں لوگ گرمی کی وجہ سے مر رہے تھے‘ تو پاکستان نے اپنے ملک میں احتیاطی تدابیر کیوں اختیار نہیں کیں؟ یہ تدابیر کیا ہو سکتی تھیں؟ ان کا ذکر آخر میں کروں گا۔ فی الحال میں بی بی سی کی ایک رپورٹ کے قابل توجہ نکات پیش خدمت کر رہا ہوں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستانی اور بھارتی سائنسدانوں کی رائے ہے کہ دونوں ملکوں میں گرمی کی حالیہ شدید لہر میں بلند درجے کی حرارت کا سبب صرف ایک عنصر ہے۔ مزید عوامل کا تعین ہونا باقی ہے۔ ماہرین کے مطابق ہوا کا کم دبائو‘ بہت زیادہ نمی اور ہوا کا خلاف معمول بند ہونا‘ وہ اہم عوامل تھے‘ جن کے یکجا ہونے کے سبب گرمی ناقابل برداشت ہو گئی تھی۔ ایک ساتھ یہ عوامل مئی اور جون میں کیسے یکجا ہوئے؟ یہ جاننا ابھی باقی ہے۔
پاکستانی ماہرین موسمیات کے مطابق کراچی میں گزشتہ ہفتے‘ گرمی کی لہر کے عروج پر زیادہ سے زیادہ 43 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت کی پیش گوئی کی گئی تھی‘ جو درست ثابت ہوئی۔ لیکن دیگر عوامل کے مل جانے سے گرمی ناقابل برداشت ہو گئی۔
گزشتہ 30 برسوں میں گرمی کی اس شدید ترین لہر کے سبب‘ ایک ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ بھارت میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 2ہزار لوگ ہلاک ہوئے‘ لیکن گرمی سے مرنے والوں کی مجموعی تعداد 3ہزار سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔
پاکستان میں محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر محمد حنیف کے مطابق‘ اصل درجہ حرارت اور اس کی شدت کے فرق کو گرمی کا انڈیکس کہا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں کراچی کا درجہ حرارت 49 ڈگری جیسا محسوس ہو رہا تھا۔
محمد حنیف کے بقول‘ انڈیکس کے زیادہ ہونے کی وجہ‘ ہوا کا کم دبائو اور فضا میں بہت زیادہ نمی تھی۔ جون میں ہوا کے خلافِ معمول انتہائی کم دبائو نے‘ سمندر سے چلنے والی ہوا کو‘ بالکل بند کر دیا۔ جس سے گرمی ناقابل برداشت ہو گئی تھی۔ بھارتی سائنس دان‘ خلاف معمول موسمیاتی حالات کا بغور مشاہدہ کر رہے ہیں۔
بھارتی محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل‘ ایل ایس راٹھور کا کہنا ہے کہ ساحلی علاقوں میں شام کے وقت‘ سمندری ہوا چلنے سے‘ انسانی جسم پر‘ گرمی کے اثرات کم ہو جاتے ہیں۔ اس سال ایسا نہیں ہوا۔ گرمی پورے خطے میں بڑھتی ہی رہی۔ ایک اور بھارتی انسٹی ٹیوٹ آف ٹراپیکل میٹرالوجی میں‘ موسمیاتی تبدیلی کے شعبے کے سربراہ ‘ آر کرشنن کہتے ہیںکہ موسمی حالات کی‘ محدود توجیہہ ہی کی جا سکتی ہے۔ فضا میںہوائی لہروں میں ہونے والی تبدیلیوں کے باعث گرمی کئی روز تک جاری رہی۔ موسمیاتی لہروں میں تبدیلی کی وجوہ معلوم نہیں ہوئیں‘ جن کی وجہ سے گرمی برقرار رہی۔ کراچی میں گرمی کے تناظر میں‘ محمد حنیف کا کہنا ہے کہ بحیرہ عرب میں بننے والا ہوا کا دبائو‘ جب نچلی فضا میں آیا‘ تو اس کے باعث‘ 43ڈگری سینٹی گریڈ کا درجہ حرارت 49 تک محسوس کیا گیا۔ جبکہ پاکستان کے بعض دوسرے علاقوں میں درجہ حرارت 47 ڈگری تک ریکارڈ کیا گیا لیکن وہ 41 ڈگری تک محسوس ہو رہا تھا۔ اس کی وجہ وہاں کا دبائو ذرا زیادہ تھا اور نمی کم تھی۔ محمد حنیف کے بقول‘ اس برس جو کچھ کراچی میں دیکھا گیا‘ وہ جنوبی ایشیا کے کئی علاقوں میں برسوں سے متواتر دیکھا جا رہا ہے۔ اس اچانک تبدیلی کی درست وجہ نہ تو ابھی تک معلوم کی جا سکی ہے اور نہ ہی علاقائی طور پر‘ اس حوالے سے کوئی مربوط کام شروع کیا گیا ہے۔
سائنسدانوں کے بقول عالمی سطح پر‘ موسمیاتی تبدیلیوں نے یقینا گرمی کی لہر کو بڑھایا اور یہ اسی طرح ہو رہا ہے جیسے شدید موسم کے دوسرے مظاہر‘ مثلاً سیلاب‘ خشک سالی‘ جنگلات میں لگنے والی آگ اور شدید برف باری وغیرہ۔
موسمیاتی تبدیلیوں پر اقوام متحدہ کا بین الاقوامی پینل‘ پہلے ہی یہ خبردار کرتا رہا ہے کہ ان تبدیلیوں کے اثرات‘ گرمی کی زیادہ شدت کے باعث‘ جنوبی ایشیا میں زیادہ ہوں گے۔
اقوام متحدہ کے انتظامات سے باخبر رہنا موسمیاتی ماہرین کی ذمہ داری ہے۔ وہاں سے کس طرح کی اطلاعات آئیں؟ اور پاکستان اور بھارت میں ان کا تجزیہ اور احتیاطی تدابیر کیا کی گئیں؟ دونوں اطراف میں اس کے تقابلی جائزے سے ابھی تک ہم محروم ہیں۔ ہو سکتا ہے‘ بھارتیوں نے پہلے سے کچھ تدابیر کر کے‘ نقصان کم کر دیا ہو۔ جبکہ ہم نے کوئی بھی احتیاطی تدبیر نہیں کی۔ اگر کر لیتے‘ تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد ہزار سے بہت کم ہوتی۔ کم از کم چھ سات سو افراد کی جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔مثلاً خطرے کا بروقت اندازہ کرنے کی صورت میں دفتری اوقات 11بجے ختم کئے جا سکتے تھے۔ لوگوں کو کھلی دھوپ اور سڑکوں پر آنے سے منع کیا جا سکتا تھا۔ ہر شخص کو ہدایت کی جا سکتی تھی کہ وہ پانی اپنے ساتھ لے کر چلے اور پرانے زمانے کے لوگوں کی طرح سر اور گردن تک ‘سر کا پچھلا حصہ بھیگے ہوئے موٹے کپڑے سے ڈھانپ کر رکھے۔ جس طرح پاک فوج نے سب سے پہلے ہیٹ سٹروک سینٹرز بنا کر متاثرین کو فوری امداد مہیا کرنے کا انتظام کیا تھا‘ حکومت باقاعدہ اس کی مہم چلا سکتی تھی۔ ٹیلی ویژن اور ریڈیو سے باقاعدہ باربار اعلانات نشر کئے جا سکتے تھے کہ عوام ہیٹ سٹروک سے بچنے کے لئے کیا کیا تدابیر اختیار کر سکتے ہیں؟ عوام کو اس حقیقت سے باخبر کیا جانا لازم تھا کہ انہیں غیرمعمولی موسمی تبدیلی کے بارے میں باربار باخبر کیا جاتا کہ اس مرتبہ موسمی حالات میں غیرمعمولی تبدیلی آئی ہے۔ نمی اور گرمی کے تناسب میں فرق پڑنے سے گرمی کے اثرات زیادہ شدت سے محسوس ہوں گے۔ جیسے بی بی سی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر اصل درجہ حرارت 43ہو گا‘ تو زمین پر انسانوں کو 49 ڈگری محسوس ہو گا۔ اس کی سائنسی وجوہ کا جاننا فی الوقت ضروری نہیں۔ سائنسی تحقیق کے لئے بہت وقت پڑا ہے۔ فوری تدبیر یہ ہو سکتی تھی کہ عوام کو خطرے سے بروقت آگاہ کر کے‘ بچائو کی تدبیریں ہنگامی طور پر
اختیار کرنے کے لئے کہا جا سکتا تھا۔ کمزوروں ‘ معمرخواتین و حضرات اور بچوں کے لئے خصوصی ہدایت کی جا سکتی تھی کہ وہ دھوپ میں گھروں سے باہر نہ نکلیں۔ لوڈشیڈنگ نے یقینا اس گرمی کو جان لیوا بنا دیا۔ لیکن گھر کے اندر پانچ سات لٹر پانی کسی نہ کسی طریقے سے جمع کر کے رکھا جا سکتا تھا‘ جس سے سر اور بدن پہ پانی کے چھینٹے مار کے گرمی کی شدت سے بچنے کی کوشش کی جا سکتی تھی۔ تمام سرکاری دفاتر میں ایئرکنڈیشنڈ بند کر کے صرف پنکھوں پر اکتفا کر لیا جاتا‘ تو ہسپتالوں کے سردخانوں کے لئے وافر بجلی فراہم کی جا سکتی تھی۔ ہر سڑک اور گلی محلے میں جہاں بھی کوئی ہیٹ سٹروک سنٹر بنایا جاتا‘ وہاں پنکھے چلانے کے لئے مفت بجلی کی لائن دینے کے لئے ہنگامی سٹاف مامور کر دیا جاتا۔ فلاحی ادارے لوگوں کے کپڑے بھگو کر ایک ایک دو دو پنکھے چلا سکتے تھے۔ یہ میں نے صرف اپنی ناقص معلومات کی بنا پر سوچا ہے۔ لیکن حکمران جو عوام کی خدمت پر مامور ہیں اور جنہیں ماہرین کی خدمات دستیاب ہیں‘ وہ غورو فکر کر کے عوام کے بچائو کی بے شمار تدابیر کر سکتے تھے۔ 50فیصد لوگ تو صرف حکومت کی بتائی ہوئی احتیاطوں پر عمل کر کے اپنی زندگی بچا سکتے تھے۔ عوام کا یہ مطالبہ بالکل درست ہے کہ اگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں دونوں انسانی زندگیوں کی قیمت پر ایک دوسرے کے خلاف پوائنٹ سکورنگ کر سکتی ہیں‘ توکیا بہتر نہ ہوتا کہ دونوں انسانی بنیادوں پر اپنے عوام کو بچانے کی تدبیر سوچ کر ان پر اپنے اپنے ذرائع سے عملدرآمد کرتیں؟ ابھی غیرمعمولی موسمی حالات ختم نہیں ہوئے۔ موسم‘ پاکستانی اور بھارتی شہریوں میں امتیاز نہیں کرتے۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ ابھی سے پاکستان اور بھارت ایسے موسمی حالات کی پیش بندی کے لئے مشترکہ سائنسی ٹیمیں اور رصدگاہیں بنائیں‘ جو غیرمعمولی موسمی تبدیلیوں پر نظر رکھیں اور پورے برصغیر کے عوام کو بروقت ہوشیار کر دیں؟ ہمارے حکمرانوں کو عوام سے کیا بیر ہے؟ کہ وہ انہیں قدرتی آفات‘ سیلاب اور زلزلوں کے بعد آنے والی تبالی سے بچانے کے لئے بھی کچھ نہیں کرتے‘ جو کہ ان کا پہلا فرض منصبی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved