تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     28-06-2015

گرم لوہے پر چوٹ

کراچی میں گرمی کے عذاب نے ایک ہزار سے زائد افراد کی جان لے لی۔ سمندر سے آنے والی ہوائوں نے شہر کا رُخ کرنے سے اس طرح انکار کیا کہ اسے تندور بنا دیا۔ بھارت میں بھی گرمی کی یہ لہر ہزاروں افراد کی جانیں لے چکی ہے۔ پاکستان میں بھی قیامت برپا ہوئی، اور بجلی کی کمیابی نے ایک اور ستم ڈھا دیا۔ کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (کے الیکٹرک) کو پرائیوٹائز کیا جا چکا ہے، اسے نیشنل گرڈ سے650 میگاواٹ بجلی بھی ارزاں نرخوں پر فراہم ہو رہی ہے، لیکن یہ اپنی کیپسٹی کے مطابق بجلی پیدا کرنے پر تیار نہیں ہے، یا اس سے قاصر ہے۔ وجہ کچھ بھی ہو کراچی کے شہریوں پر بجلی گر رہی ہے، مُلک کے دوسرے حصوں میں بھی صورت ِ حال مختلف نہیں۔ وہاں بھی شورِ محشر برپا ہے، پہلے چھ ماہ اور پھر ایک سال میں بجلی کا مسئلہ حل کرنے کے دعویدار سیاسی رہنما اب حکومت میںہیں، اور لوگوں سے2017ء بلکہ2018ء تک مہلت مانگ رہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا ان کے کلپس دکھا رہا ہے، اور ان کی پیشانیاںہیں کہ بھیگتی جا رہی ہیں۔اس صورتِ حال سے دو نتائج بآسانی اخذکئے جا سکتے ہیں، اولاً یہ کہ بجلی کی پیداوار اور ترسیل کا نظام پرائیوٹائز کرنے سے مسائل حل نہیں ہو سکتے کہ ایسی صورت میں بھی ذمہ داری حکومت پر رہے گی، اور نتائج اسی کو بھگتنا ہوں گے۔ حکومت نے یہ کمبل اتار پھینکا تو بھی کمبل اسے نہیں چھوڑے گا۔دوسری بات یہ کہ اہل ِ سیاست کو دعوے کرتے اور نعرے لگاتے وقت کچھ نہ کچھ ہوم ورک ضرور کر لینا چاہئے۔ کسی مسئلے کا اچھی طرح ادراک کیا جائے، اس کے حل کے لئے ماہرین سے مشاورت کا اداراتی اہتمام ہو، پھر زبان کھولی جائے۔ بلا سوچے سمجھے وعدے کرنے سے کریڈیبلٹی کا جو نقصان ہوتا ہے، وہ کسی ایک فرد یا جماعت تک محدود نہیں رہتا، پورے قبیلہ ٔ سیاست کو زد میں لے لیتا ہے۔ راوی اور سندھ کے پلوں سے پانی بہت بہہ چکا، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں آج بھی اس قماش کے دانشور پائے جاتے ہیں، جو دستور کو کاغذ کا ایک ٹکڑا سمجھتے ہیں، اور اسے پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کی ترکیبیں بتاتے رہتے ہیں۔ یہاں اہل ِ سیاست کو دستوری یا قانونی استحقاق(Legitimacy) سے کہیں بڑھ کر استحقاق بذریعہ کار گزاری(Performance) کی طرف متوجہ رہنا ہو گا۔ جب اس حوالے سے حالات کا جائزہ لیا جائے تو پھر سوالات کھڑے ہو جاتے ہیں، جہاں رائی کا پہاڑ بنانے والے بکثرت پائے جاتے ہوں، وہاں اگر اینٹ اور بجری کے ڈھیر نظر آئیں گے تو خشت باری کی توقع تو رکھنا ہی ہو گی۔
سندھ کے حالات ہر شخص کو اپنی طرف متوجہ کئے ہیں۔ کراچی میں قانون شکن عناصر کے خلاف رینجرز کا آپریشن جاری ہے۔ اس کے مثبت نتائج بھی برآمد ہو رہے ہیں، لیکن یہاں کی دو بڑی سیاسی جماعتوں، جن میں سے ایک بلا شرکت غیرے حکومت کی اجارہ دار ہے، اور دوسری اپوزیشن بنچوں پر براجمان ہو کر اس کی قیادت سنبھالے ہوئے ہے، کے بارے میں طرح طرح کے سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ حکمران جماعت کے معاملات پر گفتگو کو کسی اور وقت پر اُٹھا رکھا جائے تو پھر ہی ایم کیو ایم کی طرف اس کے استحقاق کے مطابق توجہ دی جا سکے گی۔یہ جماعت بد قسمتی(یا خوش قسمتی) سے پاکستان کا داخلی معاملہ نہیں رہی۔ اس کے قائد نے برسوں پہلے برطانیہ میں پناہ حاصل کی تھی۔ ایم کیو ایم کے کئی رہنما (اور کارکن) ان کی تقلید کا حق ادا کر چکے ہیں۔ اس کا مرکزی سیکرٹریٹ لندن میں ہے۔ وہیں سے خطاب فرمائے جاتے، اور ہدایات جاری کی جاتی ہیں۔ گویا برطانوی دارالحکومت ایم کیو ایم کا ''ویٹی کن‘‘ قرار پا چکا ہے۔ ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل یہیں ہوا۔ برطانوی ادارے اپنے ایک شہری کے قتل کی تفتیش کرتے کرتے کہاں کہاں پہنچ چکے، اور ان کے ہاتھ کیا کیا لگ چکا، اس کی ایک اپنی تفصیل ہے۔ چند روز پہلے بی بی سی نے ایک ممتاز فری لانس صحافی اوون بینٹ جونز(Owen Bennett Jones)کی تیار کردہ جو رپورٹ نشر کی، اُس نے پاکستان میںہنگامہ کھڑا کر دیا۔ اس کے مطابق ایم کیو ایم کے دو رہنمائوں نے برطانوی پولیس کے سامنے بیان دیتے ہوئے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ وہ بھارت سے مالی امداد لیتے رہے ہیں۔ عسکری تربیت کے لیے کارکن بھی وہاں بھیجے جاتے رہے ہیں، جن کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ اس کے منظر عام پر آنے کے چند روز بعد ہی ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے سابق رکن طارق میر کا مبینہ بیان بھی سامنے آ گیا، جو برطانوی پولیس کو دیا گیا تھا۔ اس میں انہوں نے ''را‘‘ سے رابطوں کی تصدیق کی، اور بھارتی حکام سے ملاقاتوں اور ان سے وصول کی جانے والی رقوم کی تفصیلات بتاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ سب جناب الطاف حسین اور اُن کے قریبی رفقا کے علم میں تھا۔
پاکستانی میڈیا میں ان الزامات (یا انکشافات) پر زوروںکی بحث جاری ہے۔ ایم کیو ایم کے قائدین اپنا دفاع کر رہے ہیں، ان کے کئی حامیوں کی طرف سے بار بار یہ بات کہی جا رہی ہے کہ ان الزامات میں کچھ بھی نیا نہیں۔ بینٹ جونز کے زیادہ تر ذرائع پاکستانی ہیں، اس لیے اسے کوئی وقعت نہیں دی جا سکتی۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بینٹ جونز نے جو تفصیلات بیان کی ہیں، ان میں سے کئی پاکستان میں چھپ(یا نشر ہو) چکی تھیں، لیکن سیاست میں اس بات کی اہمیت بہت زیادہ ہے کہ کیا بات کس کے مُنہ یا قلم سے نکلی ہے۔ بی بی سی اپنی کئی کوتاہیوں کے باوجود، خبر کی دُنیا کا ایک انتہائی معتبر ادارہ ہے۔ اس کے نشریے کا مطلب یہ ہے کہ مختلف ذرائع سے کہی گئی باتوں کی اس نے اپنے طور پر بھی توثیق یا تصدیق کر لی ہے۔ کسی پاکستانی اخبار یا چینل کی کسی رپورٹ کا موازنہ بی بی سی کی رپورٹ سے نہیں کیا جا سکتا۔ پھر یہ کہ برطانیہ میں پولیس کے سامنے دیا گیا بیان''چھترول‘‘ کا نتیجہ نہیں سمجھا جاتا، عدالت میں اسے شہادت کے طور پر پیش اور قبول کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے ریاستی ادارے گزشتہ کئی عشروں سے کس کس کے تسلط میں رہے اور کیا کیا کرتے پائے گئے، اس سے قطع نظر اب ایک فیصلہ کن موڑ آ گیا ہے۔ ایم کیو ایم اور اس کی قیادت کے معاملات پاکستانی اداروں سے زیادہ برطانوی اداروں کے پاس جا پہنچے ہیں۔ پاکستان میں بیٹھ کر جو کچھ کیا جا سکتا، اور قانون کا جو مذاق بنایا جا سکتا ہے، وہ برطانیہ میں ممکن نہیں ہے۔ وہاں کے ادارے اپنے مُلک کو بے لگام خواہشات میں ڈبکیاں کھانے کے لئے نہیں چھوڑ سکتے۔ پاکستان کے اربابِ اختیار پر لازم ہے کہ کسی رو رعایت کے بغیر، معاملات کو ان کے منطقی انجام تک پہنچائیں۔ قانون شکن عناصر اعلیٰ قیادت سے چھپ کر اس جماعت میں نقب لگائے ہوئے تھے، تو پھر ان کو چُن چُن کر کیفرکردار تک پہنچایا جائے، لیکن اگر یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ اعلیٰ قیادت کی شہ پر یہ سب کارروائیاں کی جا رہی تھیں تو پھر اسے سیاست اور جماعت سے الگ کرنا ضروری ہو گا۔ کسی بھی اقدام میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہئے۔ لوہا جب گرم ہو تو اس پر چوٹ لگا دینی چاہئے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved