کل رات ایک ٹی وی شو میں ایم کیو ایم کی بھارت سے فنڈنگ کے معاملے پر کسی نے سوال کیا پوچھا‘ جیسے دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔ میں نے کہا میرے ان مہاجر دوستوں کے دکھ اپنی جگہ، کبھی انہوں نے ہمارے دکھوں کا بھی اندازہ کیا ہے؟
مان لیتے ہیں کہ ان کے ساتھ بڑی زیادتیاں ہوئی ہیں۔ پورا ملک ظالم نکلا ہے اوروہ مظلوم نکلے۔ مان لیتے ہیں وہ جو خواب لے کر ہندوستان سے نکلے تھے وہ پورے نہیں ہوئے، ان کی ساری محنت اور قربانی ضائع گئی تھی۔ کوٹہ سسٹم نے انہیں تباہ کر دیا اور وہ پیچھے رہ گئے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 1947ء سے لے کر 1980ء تک ایسا کیا انہیں مل رہا تھا جو اچانک انہیں ملنا بند ہوگیا اور انہیں لگا کہ ان کے ساتھ پاکستان میں زیادتیاں ہورہی ہیں۔ اس سے پہلے وہ مطمئن تھے، انہیں کسی سے کوئی گلہ نہیں تھا ۔ کوئی شکایت نہیں تھی۔ انہوں نے کبھی ہتھیار نہیں اٹھائے‘ کبھی الزامات نہیں لگے، کبھی عجیب و غریب نام سننے کو نہیں ملے۔ ایسا کیاہوگیا؟
اب اچانک محسوس ہوتا ہے سب کچھ مہاجروں کے خلاف ہورہا ہے۔ مان لیتے ہیں کہ بہت ساری زیادتیاں ہوئی ہوں گی لیکن کیا صرف مہاجروں کے ساتھ ہوئیں، جنوبی پنجاب، سرائیکیوں، پوٹھوہاریوں، ہزارہ یا بلوچوں کے ساتھ نہیں ہوئیں؟ یہ تو اب بھی جاری ہیں۔
ہمیں مہاجروں کی قربانیوں کا بتایا جاتا ہے۔ جب قرۃ العین حیدر کی کتاب ''کارِ جہاں دراز ہے‘‘ دیکھیں تو کچھ اور کہانی پڑھنے کو ملتی ہے۔ آج بھی جب میں کسی بھی وفاقی وزارت جاتا ہوں اور وفاقی سیکرٹری کے نام پڑھتا ہوں تو یقین کریں 1947ء کے بعد 1980-90ء کی دہائی تک آپ کو جو نام پڑھنے کو ملتے ہیں وہ اکثریت اردو سپیکنگ کے ہیں۔ ہمارے ان دوستوں نے ہماری وفاقی وزارتوں کا کنٹرول سنبھالا، انہوں نے ہی ہماری درسی کتب لکھیں۔انہوں نے ہی سرائیکیوں، پختونوں، بلوچوں، سندھیوں، پوٹھوہاریوں، ہزارہ اور دیگر کے بیرونی دشمنوں اور دوستوں کا انتخاب کیا۔ ہماری فارن پالیسی بھی تشکیل دی۔
میرے آبائو اجداد چونکہ پڑھے لکھے نہیں تھے لہٰذا انہیں نہ تو نوکری ملی اور نہ موقع ملا کہ وہ ان فیصلوں میں شریک ہوسکیں۔ اب اندازہ کریں ہمارے گائوں جیسل کلاسرا میں بجلی بھی 1984ء میں آئی تھی۔ وہ بھلا کہاں پڑھتے اور کس سے مقابلہ کرتے۔ پہلی دفعہ ٹی وی 1985ء میں دیکھا۔ ہم تو توقع رکھتے تھے کہ ہمارے یہ مہاجر دوست ہماری نسلوں کو بھی پڑھائیں گے اور انہیں اپنے پائوں پر کھڑا کریں گے۔ آج بھی اعدادوشمار اٹھا کر دیکھ لیں۔ 1973ء میں جب تک بھٹو نے وفاقی ملازمتوں میں کوٹہ نہیں دیا اکثریت ڈی ایم جی اور دیگر افسران اردو سپیکنگ تھے۔ اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر، کمشنر سے لے کر وفاقی سیکرٹری تک‘ سب یہی لوگ تھے۔ ان کے ساتھ پھر پنجابی تھے۔ اگر آپ کو اس دوران کہیں کوئی بلوچ، سندھی، سرائیکی یا پوٹھوہاری بیوروکریٹ مل جائے تو بہت بڑی بات ہوگی۔ تو ان سب کے کیا فرائض بنتے تھے؟ ہمیں بتایا گیا کہ فیوڈل آپ کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ تھے۔ مان لیتے ہیں وہ تھے لیکن طاقت آپ کے پاس تھی۔ آپ نے ان کی طاقت توڑنے کے لیے کیا کیا؟ کسی ایک فیوڈل لارڈ پر بھی پرچہ درج نہیں کیا گیا کہ اس نے اپنے حلقے میں سکول نہیں بننے دیا یا سڑک کا راستہ نہیں دیا بلکہ موقع ملا تو انہی فیوڈلز کے ساتھ اقتدار شیئر کیا۔ یہ فیوڈل ایک ڈپٹی کمشنر سے زیادہ طاقتور نہ تھے۔ ڈی سی کے دفتر کے باہر طرے لگا کر انتظار فرماتے تھے کہ کب صاحب بہادر باہر نکلیں اور وہ سلام کریں۔ ہمارے ان دوستوں کو فیوڈل لارڈ سوٹ کرتے تھے جو ہمارے آبائو اجداد یا ہمیں نہ پڑھنے دیں تاکہ ہم کل کلاں نوکریاں نہ مانگیں یا ان کے برابر کرسی پر نہ بیٹھ جائیں۔
بھٹو نے جو سب سے بڑی زیادتی کی وہ سرائیکیوں کے ساتھ کی۔ بھٹو نے وفاقی نوکریوں میں سندھ کو دو حصوں میں تقسیم کیا اور سی سی ایس میں انہیں اربن اور رورل میں بانٹ دیا جب کہ سرائیکیوں کو کہا گیا کہ تم پورے پنجاب میں مقابلہ کر کے دکھائو۔ اب مجھے پتہ ہے کہ سرائیکی علاقوں کی کیا حالت تھی۔ وہ مقابلہ کیا کرتے۔ یوں سرائیکی بیوروکریٹ کبھی آگے نہ آسکا اور سرائیکی علاقے مہاجروں کے لیے صرف زمین کی الاٹ منٹ کے لیے استعمال ہوئے اور آج تک ہورہے ہیں۔ فوجی ہو، سول افسر ہو یا پھر مہاجر، سب کو زمینیں سرائیکی علاقوں میں ملیں۔ گلہ کس کا بنتا ہے، ہمارا یا پھر میرے ان مہاجر دوستوں کا جو آرام سے ٹرنیوں پر کراچی تشریف لائے اور انہیں ہندوئوں کی چھوڑی ہوئی جائیدادیں بھی ملیں اور پنجاب میں اگر کسی کا دائو لگا تو زمین بھی۔
ہم ان سے توقع رکھتے تھے کہ وہ پنجاب اور پاکستان کے دیگر علاقوں کے لیے بھی لڑیں گے لیکن شاید انہیں بہت پہلے علم ہوگیا تھا کہ یہ چیز انہیں سوٹ نہیں کرے گی۔ وہ سب بیوروکریٹ بننا چاہتے تھے، وہ حکمران بننے آئے تھے۔ وہ رعایا کو تعلیم دلا کر اپنے بچوں کی نوکریاں یا داخلے بانٹنا نہیں چاہتے تھے۔
ان مہاجر بیوروکریٹس سے ہٹ کر دوسری طرف کراچی کے شاعروں اور ادیبوں نے یقینا بے مثال کردار ادا کیا۔ آج بھی جتنے بڑے ادیب پیدا ہوئے ہیں وہ اردو سپیکنگ ہیں۔ جتنے اچھے ادبی رسالے اور ڈائجسٹ نکلے سب انہوں نے نکالے۔ رئیس امروہوی ہوں ، خیال امروہوی (ہمارے لیہ میں جا بسے تھے)، جمیل الدین عالی، شوکت صدیقی، ابوالفضل صدیقی، قاضی عبدالستار، شکیل عادل زادہ ، اسد محمد خان، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مسرور، جیسے ادیب‘ جنہوں نے ہماری نسلوں کو متاثر کیا۔ ڈائجسٹوں کی دنیا میں اقلیم علیم ، الیاس سیتاپوری ، انوار صدیقی، اقبال پاریکھ، جیسے باکمال ادیب۔ اردو سپیکنگ ادیبوں اور شاعروں کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے ہمیں میچور کیا ، ہمیں کہانی سنائی‘ ہمیں رومانس کرنا سکھایا‘ ہمیں اپنی کہانیوں کے ذریعے ہنسنا اور رونا سکھایا۔ پنجاب میں ان کے پائے کے ادیب پیدا نہ ہوسکے۔ عمر شریف، معین اختر، حسینہ معین، انور مقصود، فاطمہ ثریا بجیا اور پتہ نہیں کیسے کیسے تخلیقی لوگ کراچی میں رنگ جماتے رہے۔
اور پھر تشدد شروع ہوا۔ مہاجر، سندھی، پٹھان، پنجابی لڑے اور خوب لڑے۔ ایک دوسرے کے گلے کاٹے، خون بہایا اور اب کوئی بھی کراچی میں نہیں رہا ۔ باقی چھوڑیں شکیل عادل زادہ تک نے ''بازی گر‘‘ لکھنا چھوڑ دیا۔ اسد محمد خان نے ''ناخدا‘‘ لکھنا بند کر دیا ۔ مدت ہوئی اسد محمد خان نے کچھ نہ لکھا۔ شکیل عادل زادہ سے گلہ کیا ''سب رنگ‘‘ کیوں بند کر دیا، بولے اب کہانی کہاں سے لائوں۔ کوئی بچ ہی نہیں گیا لکھنے والا۔ اس سے بڑا ظلم کیا ہو سکتا ہے کہ اب ادیب نہیں رہے۔ جو متحدہ ہندوستان کے وقت سے چلے آرہے تھے وہ نہ رہے تو ان کے بعد ادب بھی اپنی موت آپ مر گیا ۔ ان کی جگہ کسی لنگڑے، لولے، کانے، کن ٹٹے نے لے لی‘ جس کے ہاتھ میں ٹی ٹی پستول آگیا اور پھر چل سو چل۔ جس نے تھوڑی سی آواز اٹھائی کہ بھائی ایسا نہ کرو، اگلے دن اس کی بوری بند لاش ملی۔ کسی کو سڑک کے کنارے تو کسی کو گھر میں گھس کر مارا گیا۔ کہاں ایک دور تھا کہ مہاجروں نے پاکستان بنایا تھا اور کہاں اب پتہ چلا ہے کہ کچھ لوگ اسی ملک سے پیسے لے کر کراچی میں دہشت گردی کر رہے ہیں‘ جس سے وہ آزادی لے کر کراچی آئے تھے۔ ایم کیو ایم یونیورسٹی کے چند طالب علموں نے اپنے حقوق کے لیے بنائی تھی اور مجھے افسوس ہے کہ تیس برس مختلف ادوار میں حکومتوں میں رہنے کے باوجود یہ آج تک سیاسی جماعت
نہیں بن سکی۔ بینظیر بھٹو سے لے کر نواز شریف، جنرل مشرف، زرداری تک اقتدار شیئر کیا لیکن انداز آج بھی وہی کراچی یونیورسٹی والی سیاست کا ہے۔ طالب علموں کی طرح احتجاج ، لڑائی جھگڑے، مارکٹائی، تھانہ کچہری۔ اور یہ کام پچھلے تیس برسوں سے چل رہا ہے۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ کیسے وہ روزانہ ہڑتالیں، احتجاج، جلسے جلوس کر لیتے ہیں۔ اس سے کیا ملا؟ اقتدار میں رہتے ہوئے بھی وہ کچھ نہیں کر سکے۔ ہاں کر سکے تو اپنے دس ہزار مقدمات جنرل مشرف کے این ار آو کے تحت بند کرائے، اپنے پینتیس ایسے کارکنوں کو پیرول پر رہا کرایا جو سنگین الزامات پر عدالتوں سے سزا یافتہ تھے۔ جنرل مشرف کو انہوں نے خوب استعمال کیا اور جنرل نے بھی انہیں خوب استعمال کیا‘ جب 12 مئی 2007ء کو انہیں چیف جسٹس سے لڑائی میں آگے کر کے بندے مروائے اور کراچی تباہ ہو کر رہ گیا۔ آج جو بھی بات کی جائے، ایم کیو ایم کہتی ہے کہ یہ اس کے خلاف سازش ہے۔ ہر حقیقت اس کے نزدیک اب الزام سے زیادہ کچھ نہیں۔ طارق میر کے اعترافات بھی ان کے نزدیک میڈیا ٹرائل کا حصہ ہیں۔ ہر چیز سے انکاری ۔
سوال پھر وہی ہے، کس کا قصور ہے؟ میں بھی کس سے پوچھوں کہ میرے دادا اور بابا نہ پڑھ سکے تھے یہ کس کا قصور تھا؟ میرے بھی بہت سارے عزیزوں کو داخلے نہیں ملتے، سی ایس ایس میں کوٹہ نہیں ملتا۔ وہ کیا کریں۔ اردو سپیکنگ اب بھی خوش قسمت ہیں کہ انہیں اربن کوٹہ ملا ہوا ہے۔ سرائیکیوں سے جا کر پوچھیں جنہیں کہا جاتا ہے کہ پورے پنجاب سے مقابلہ کرو اور حالت یہ ہے کہ وہاں جانور اور انسان اکٹھے پانی پیتے ہیں اور ہم اسے میرٹ کہتے ہیں۔
مہربانی فرمائیں اس کے بدلے آپ ہمیں وہ اردو سپیکنگ ادیب، شاعر اور تخلیق کار واپس کر دیں جنہوں نے ہماری کئی نسلوں کو متاثر کیا جنہیں پڑھ کر ہم میچور ہوئے، کچھ سمجھدار ہوئے، رومانس کرنا سیکھا اور کچھ نہیں تو شکیل عادل زادہ سے ''سب رنگ‘‘ ہی شروع کرا دیں۔
بھائی کراچی کا سکون تو واپس نہیں لا سکتے، کم از کم ادیب ہی ہمیں لوٹا دو!