تحریر : میاں عامر محمود تاریخ اشاعت     29-06-2015

بھارت کا مستقبل؟

گزشتہ جمعہ مقبوضہ کشمیر میں‘ پاکستان اور بھارت دونوں کے لئے انتہائی پریشان کن دن تھا۔ اس وقت معمول کے مطابق مسلمانوں نے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا۔ جلوس کے ایک حصے میں پاکستان کے پرچم حسبِ معمول لہرائے گئے‘ لیکن دو باتیں حیران کن تھیں۔ ا نہی میں پاکستانی اور بھارتی حکومت ‘کے لئے پریشانی کی وجوہ مضمر ہیں۔ بھارت اس لئے پریشان ہو گا کہ اسی جلوس میں کئی جگہ ایسے گروہ موجود تھے‘ جو احتجاجی نعروں کے ساتھ‘پاکستان کی پرائم ایجنسی آئی ایس آئی کے پرچم لہر ارہے تھے۔ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک پر‘ پاکستانی چھاپ لگانے کا فیصلہ بہت عرصہ پہلے ‘آئی ایس آئی کی قیادت نے کیا تھا۔ جلوسوں میں نہ صرف پاکستانی پرچم کثرت سے لہرائے جاتے بلکہ جنرل(ر)حمید گل کی تصویربھی‘ ان جلوسوں کا امتیازی نشان ہوا کرتی۔ آئی ایس آئی کے پرچموں اور اس کے افسروں کی تصویروں کے اثرات و عوامل کا پاکستان میں شاید صحیح اندازہ نہیں کیا گیا۔یہ پہلا واقعہ تھا‘ جس کی بنیاد پر بھارت نے‘ تحریک آزادی کشمیر کی ذمہ داری پاکستانیوں پر ڈال دی۔ بھارتی پراپیگنڈے کا موضوع ہی یہ بن گیا کہ تحریک آزادی کشمیر‘مقبوضہ کشمیر کی عوامی تحریک نہیں بلکہ یہ پاکستانی ایجنسی کی مداخلت ہے اور اسی کے ایجنٹ مقبوضہ کشمیر میں داخل ہو کر‘ بدامنی پھیلاتے ہیں۔اگلے مرحلے میں تو افغانستان کے تربیت یافتہ دہشت گرد‘ مقبوضہ کشمیر میں نمودار ہوئے اور ریاست میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوتا گیا۔ مقبوضہ کشمیر کی سیاسی قیادت ‘ پرامن تحریک کے ذریعے عالمی رائے عامہ کو متاثر کر رہی تھی۔ کشمیریوں کی آزادی کے مطالبے کی حمایت میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا ۔ دہشت گردی سے‘ بھارت کے لئے حالات سازگار ہونے لگے۔ تحریک کو پر امن رکھنے والی قیادت بے اثر ہوتی گئی کیونکہ تخریب کاری اور دہشت گردی کے جذباتی نعروں نے نوجوانوں کو متاثر کرنا شروع کر دیا اور پر امن سیاسی جدو جہد کے حامی لیڈر‘ بے بس ہوتے گئے۔ان واقعات کی تصدیق سید علی گیلانی‘شبیر شاہ‘ میر واعظ عمر فاروق‘یاسین ملک اور ان کے دیگر ساتھی کریں گے کہ کس طرح کامیابی کی طرف بڑھتی ہوئی‘ پُرامن تحریک آزادی کمزور پڑگئی۔ 
مقبوضہ کشمیر کے گزشتہ انتخابات میں کشمیری قیادت اورعوام نے‘ ایک بار پھر پُرامن تحریک کو زندہ کر دیا۔ انہوں نے تصادم اور تشدد کا راستہ مسترد کر کے‘ انتخابی مہم میں بھر پور حصہ لیا اور بھارت کی متعصب حکمران جماعت‘ بی جے پی کو انتخابات میں عبرت ناک شکست دی۔ بی جے پی‘ صرف جموں سے ہندوئوں کی نشستیں لے سکی جبکہ وادی کشمیر اور جہاں جہاں مسلمانوں کے ووٹ تھے‘ وہاں کی سو فیصد نشستوں پر مسلمان امیدوار کامیاب ہو گئے۔اگر دیکھا جاتا تو مجموعی طور پر‘ مقبوضہ کشمیر کی نام نہاد اسمبلی میں‘ مسلمانوں کی اکثریت تھی لیکن مصلحتاً حکومت سازی کی کوشش کرنا‘ سیاسی اعتبار سے مسلمانوں کے لئے نقصان دہ ہوتا۔مفتی سعید کی پارٹی جو کہ سب سے زیادہ نشستیں لے کر کامیاب ہوئی تھی‘ اس نے کمال دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے ‘نہ صرف بی جے پی کے ساتھ‘ مخلوط حکومت بنا لی بلکہ وزارت اعلیٰ کا منصب بھی ایک مسلمان کو مل گیا۔آر ایس ایس کی فکری بنیادوں پر منظم ہونے والی‘ بی جے پی کے لئے‘ یہ ایک بہت بڑا جھٹکا تھا۔ وہ ابھی تک اپنی اس غلطی کی تلافی نہیں کر پا رہی۔ بی جے پی کی ساری قیادت اب پورا زور لگا رہی ہے کہ کسی طرح مفتی صاحب کو اقتدار سے علیحدہ کیا جائے لیکن انہیں نکالنے کا مطلب پورے بھارت میں مسلمانوں کو بے چین کرنا ہوگا۔ بی جے پی نے انہیں پہلے ہی نشانہ بنا رکھا ہے۔ ان کے مذہبی عقائد پر اشتعال انگیز حملے کئے جا رہے ہیں۔ کئی ریاستوں میں گائے کی قربانی پر پابندی کا قانون نافذ کیا جا چکا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر‘ انہیں اجتماعی جذباتی جھٹکے لگائے جا رہے ہیں۔ ہندو اکثریت کے ساتھ مفاہمت کے حامی مسلمان لیڈروں کی پوزیشن کمزور ہو گئی ہے اور اگر مقبوضہ کشمیر میں مفتی سعید کی حکومت کو ہلانے کی کوشش کی گئی تویہ بھس میں چنگاری ڈالنے کے مترادف ہو گا کیونکہ پورے بھارت میں‘ مسلمانوں کے صبر کا پیمانہ قریب قریب ‘لبریز ہو چکا ہے۔ ریاستی طاقت پر‘ ہندو توا کی تنگ نظری کا تسلط بڑھتا جا رہا ہے۔ اگر بی جے پی نے مقبوضہ کشمیر کی حکومت کو برطرف کرنے کی کوشش کی تو پورے بھارت میں آگ بھڑک سکتی ہے۔مسلمانوں کی یہ بے چینی بغاوت کی شکل اختیار کرنے لگی توہندوستان کے دوسرے حصوں میں پہلے سے جاری باغیانہ تحریکیں زور پکڑ لیں گی اور ہو سکتا ہے کہ بھارت کے تنگ نظر حکمرانوں سے ستائے ہوئے عوام ہی ہتھیار اٹھا کر میدان میں اتر آئیں ۔ بھارت کی پولیس اور فوج مختلف صوبوں کی بغاوتوں کا مقابلہ کرتے کرتے تھک چکی ہے‘ اورکسی بھی وقت حوصلہ ہار سکتی ہے۔ ان خطرات کا متعصب حکمرانوں کو اندازہ نہیں ہوتا لیکن جب جذبات انتہا کو پہنچ جائیں تو عوامی بغاوتیں غیر متوقع طور پر پھیلنے لگتی ہیں۔
بھارت اسی قسم کے حالات میں گھرا ہوا ہے۔ وہاں کے دانشور‘ اہل فکر اور باشعور سیاسی لیڈر‘ اس صورت حال سے بے حد پریشان ہیں۔ جب کسی حکومت کو اپنے معاشرے کے اہل فکراور دانش مند حلقوں کی رہنمائی میسر نہ رہے‘ تو اس کا حال وہی ہوتا ہے جو پہلے مارشل لا کے بعد‘ پاکستان کا ہوا اور آج تک ہو رہا ہے۔ آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہمیں سیاسی‘ حکومتی اور انتظامی معاملات میں قدم قدم پر فوج کی مدد لینا پڑ رہی ہے۔میری رائے میں مودی حکومت‘ بھارتی حالات کو اسی سمت میں لے جا رہی ہے ‘جس میں ایوب خان کا دستور توڑنے والا حکمران گروہ ‘ہمیں لے گیا تھا۔بی جے پی‘ اپنے تنگ نظر حامیوں کے دبائو میںآکر‘ عوامی مفادکے قوانین میں جو تبدیلیاں لا رہی ہے اور جس طرح اقلیتوں کے آئینی حقوق سلب کئے جا رہے ہیں‘ اس کے انجام کا اندازہ کرنے میں پاکستانیوں کو خاص دقت نہیں ہونی چاہئے۔
میں لکھ چکا ہوں کہ مقبوضہ کشمیر کے گزشتہ جمعے کو ہونے والے مظاہروں میں ‘جو نیا عنصر پہلی بار ظاہر ہوا‘ اس نے پاکستان اور بھارت دونوں کی حکومتوں کو فکر مند کر دیا ہو گا۔وہاں پاکستان اور آئی ایس آئی کے ساتھ ‘داعش کے پرچم بھی لہرائے گئے اور مظاہرین میں کئی نقاب پوش واضح دکھائی دے رہے تھے جو یقینی طورسے داعش کے جنگجو ہوں گے۔داعش کی ابتدا کیسے ہوئی؟ اور پھر کس تیزی کے ساتھ‘ داعش نے وسائل جمع کر کے‘ شرق اوسط کی متعدد مسلمان حکومتوں کو غیر مستحکم کیا‘ اس پر پورا خطہ پریشان ہے۔یہ تنظیم جو اچانک ابھر کے سامنے آئی‘دیکھتے ہی دیکھتے سرمائے اور جدید اسلحہ سے مالا مال ہو گئی۔ اسے جدید ترین امریکی اسلحہ‘عجیب طریقے سے دیا گیا۔ امریکہ نے باغیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے‘ شام کی حکومت کو جدید ترین اسلحہ دیا‘ جو اس سے پہلے کسی عرب ملک کی حکومت کے پاس نہیں تھا۔ یہ اسلحہ داعش نے‘ شامی فوجیوں سے چھینا اور پہلے شام ہی کے ایک حصے میں استعمال کیا اور وہیں سے نام نہاد اسلامی ریاست کے جنگجو عراق میں داخل ہو گئے۔ انہوں نے تیزی کے ساتھ بہت بڑے علاقے پر قبضہ کیا ۔ ساتھ ہی تیل کا ایک ذخیرہ بھی ان کے قابومیں آگیا۔ اس وقت دولت اور اسلحہ کے اعتبار سے داعش کے جنگجو‘ پورے خطے کی مسلم فوجوں سے مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ وہ تیل کی فروخت سے روزانہ تین ملین ڈالر کماتے ہیں۔ ان کا سب سے بڑا خریدار ترکی ہے۔عالمی منڈی میںان کے تیل کی فروخت پر امریکہ اور اس کے حواریوں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ وہی طاقتیں‘ جو ایران جیسے مضبوط ملک کو طویل عرصے سے‘ تیل فروخت نہیںکرنے دے رہیں‘داعش کو روکنے میں ناکام ہیں۔ جتنا جدید اسلحہ اسے دیا گیا ہے‘شرق اوسط کی فوجوں کے پاس موجود نہیں۔اسے استعمال کرنے کی تکنیک‘صرف داعش کے جنگجو جانتے ہیں۔ پاکستان کے حکمران یہ بات ماننے کو تیار نہیں لیکن خبریں یہی ہیں کہ داعش‘ پاکستان میں اپنی موجودگی ظاہر کر رہی ہے۔ افغانستان میں بھی اس تنظیم کے چہرے نظر آنے لگے ہیں۔ داعش کو تیزی کے ساتھ‘شرق اوسط میں پھیلنے کے وسائل اور طاقت کس نے دی؟ اور اب وہ پاکستان اور افغانستان کا رخ کیوں کررہی ہے؟ اور مقبوضہ کشمیر میں اچانک کیسے نمودار ہو گئی؟ یہ سوالات انتہائی غور طلب ہیں۔جس طرح ایک زمانے میں سوویت یونین اور امریکہ نے شدید دشمنی کے دوران ‘ دنیا کو اپنے اپنے حلقہ اثر میں بانٹ لیا تھا‘ اسی طرح کا انتظام‘ دنیا کی موجودہ بڑی طاقتوں میں تو نہیں ہونے جا رہا؟ماضی میں امریکی بلاک‘یورپی ساتھیوں اور جاپان کی معاونت سے سوویت بلاک کا مقابلہ کر رہا تھا۔ آج کی دونوں بڑی طاقتیں‘ صرف اپنے وسائل پر انحصارکرتے ہوئے ‘نئے دیتانت کو طویل مدت تک چلا سکتی ہیں۔امریکہ کے پاس اپنی ضروریات کی ساری چیزیں موجود ہیں اور چین کو جس چیز کی کمی ہے‘ وہ اس کے گردونواح میں وافر موجود ہے اور وسطی ایشیا سے لے کر‘ افریقہ تک پھیلے ہوئے قدرتی وسائل کو‘ وہ آسانی سے استعمال کر سکتا ہے۔امریکہ ‘واحد عالمی سپر پاور کی حیثیت میں اڑھائی عشروں سے زیادہ کا عملی تجربہ کرچکا ہے۔چین ‘اپنے تاریخی شعور کی روشنی میں‘ وہی پوزیشن حاصل کر رہا ہے اوراسی رفتارسے وہ آگے بڑھ رہا ہے۔خود امریکی ماہرین کا اندازہ ہے کہ موجودہ صدی کے پہلے پچاس سال میں‘ چین واحد سپر پاور کی پوزیشن حاصل کر لے گا۔بھارتی مسلمانوں پر جس بری طرح سے عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے‘میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر داعش وہاں پہنچ گئی تو اس کی افرادی قوت میں انتہائی تیز رفتاری سے اضافہ ہو گا۔اتنا اشارہ کافی ہے کہ داعش کے جنگجو سینکڑوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود‘ ہزاروں کی افرادی قوت کو پسپا کر رہے ہیں اور بھارت میں مسلمانوں کی آبادی بیس کروڑ کے لگ بھگ ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved