تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     29-06-2015

حکمران کون؟

حکمران کون ہو تا ہے؟وہی جس کا حکم چلتا ہو۔توآج کس کا حکم چلتا ہے؟لوگ سوال اٹھاتے ہیں۔جواب مگر کوئی نہیں دیتا۔
اہلِ سیاست کے جرائم بے پنا ہ ہیں۔عوام کو انہوں نے دھوکہ دیا اورخدا سے بدعہدی کی۔ہر رکن اسمبلی، ہر وزیر،ہر وزیراعلیٰ اور ہر وزیراعظم حلف اٹھاتا ہے۔خدا کے حاضرو ناظرہو نے کا اعلان کر تا ہے مگر پھربھول جا تا ہے۔خلقِ خداتڑپتی اور سسکتی ہے۔کوئی اس کی داد رسی نہیں کر تا۔انسان انسانوں کو بھول جا تے ہیں، خدا مگرنہیں بھولتا۔وہ اپنے بندوں پر ہونے والے ظلم کا حساب رکھتاہے۔اگر کوئی ذرہ برابر نیکی کرتا ہے تووہ لکھ دیتا ہے اوراگر ذرا برابر ظلم کر تاہے تو اسے بھی لکھ لیا جا تا ہے۔یومِ حساب اگر چہ معین ہے مگر کون ہے جو اُسے روک سکے کہ وہ دنیا میںاس کی جھلکیاں نہ دکھا دے۔اس کی ایک سنت ہے جو اس جہان میںبھی جاری وساری ہے۔قرآن مجیدنے بتا یا کہ اگر وہ ایک گروہ کو کسی دوسرے گروہ کے ہاتھوں دفع نہ کرتا تویہ زمین فساد سے بھر جاتی۔کوئی مسجد باقی رہتی نہ کلیسا۔کوئی خانقاہ نہ کوئی معبد ۔(الحج44:22)
یہ اللہ کی سنت ہے۔اسے ہم تاریخ کا ما بعد الطبیعیاتی پہلو کہتے ہیں۔وزیرستان سے اس کا آ غاز ہوا اوراب کراچی اس کی گرفت میں ہے۔کراچی وزیرستان سے چھوٹا مقتل تو نہیں تھا۔یہاں بھی وحشت کا راج تھا،مگر بااندازِ دگر۔سوات اور وزیرستان میں آپریشن ہوا تو سوال اٹھا کہ کراچی کیوں نہیں۔کراچی تک بات پہنچی تو کہا گیا :کسی ایک گروہ کے خلاف کیوں؟اب تو سب گلے دھل گئے۔سب ہی زد میں ہیں۔کبھی مظلوم پناہ کی تلاش میں تھے۔آج ظالموں کوپناہ نہیں مل رہی کہ اللہ ایسے ہی لوگوں کے درمیان دنوں کو پھیرتاہے۔ایک پہلو مگر مستقل نظر انداز ہو رہا ہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ تدبیر کی کمزوری ایک نئے المیے کی بنیاد بن جائے۔
کیا ہمیں یاد ہے کہ ضربِ عضب کے بعد کتنے لوگ بے گھر ہوئے تھے؟آج یہ کہاں اور کس حال میں ہیں؟کراچی میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہوئی تو کہرام مچ گیا۔ان لوگوں کا معاملہ تو یہ ہے کہ مر جائیں تو دفن کے لیے جگہ نہیں ملتی۔ان 'مہاجرین‘ کے لیے 'انصار‘ دکھائی نہیں دے رہے۔حکومت ہے اور نہ سول سوسائٹی۔ان کے لیے ابھی گھر لوٹنے کی کوئی سبیل پیدا نہیں ہو ئی۔ضربِ ِعضب کا ایک محاذ دہشت گردوں کا خاتمہ تھا۔ دوسرا یہاں کے مکینوں کے لیے ایک آسودہ اور پُر امن زندگی کا اہتما م تھا۔ایک نئے دور کا آغاز۔فوجی جوانوںنے پہلے محاذ پرجوقربانیاں دیں اور جو کامرانیاں سمیٹیں، وہ ہمارے سامنے ہیں۔دوسرے محاذکے بارے میں مگر کوئی خبر نہیں۔یہ سیاسی حکومت کا کام تھا، مرکز کی ہو یا صوبے کی۔ آج چند سوالات کے جواب ناگزیرہیں:یہ آپریشن کب تک جاری رہنے کا امکان ہے؟ بے گھر ہونے والوں کی دوبارہ آباد کاری کیسے ہوگی؟ کیا حکومت کے پاس کوئی حکمت ِعملی اور شیڈول مو جود ہے؟کیمپوں میں درپیش مسائل کو کیسے حل کیا جا رہا ہے؟ مجھے تشویش ہے کہ اگر ان سوالات کو مخاطب نہ بنا یا گیا تو ہم ایک نئے المیے کی بنیاد رکھ دیں گے۔پناہ گزیں کیمپوں کا قیام جتنا طویل ہو تا ہے،ردِ عمل اتنا شدید ہو تا ہے۔نظم ِ اجتماعی سے اعتماد اٹھ جائے تو بغاوت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔کیا سیاسی حکومت کے ہاتھ میں کوئی اختیار ہے کہ وہ ان سوالات کے جواب دے سکے؟
اب کراچی کی طرف آئیے!ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے خلاف اقدام سے چند سیاسی مسائل کا پیدا ہو نا لازم ہے۔دونوں کی قیادت اور افراد جرائم میں ملوث ہوسکتے ہیں مگر ان کے سیاسی عصبیت ہونے کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔جب ان جماعتوں کی قیادت رو بعمل نہیں ہو گی تو سیاسی بحران جنم لے گا۔اس کو دو طرح سے مخاطب بنا یا جا سکتا ہے ۔ایک یہ کہ ان جماعتوں میںمتبادل قیادت کو ابھارا جائے تا کہ ان سے وابستہ عام آ دمی کو متبادل میسر ہو۔ایم کیو ایم کی نئی قیادت سامنے آئے جو سیاسی محاذپر سرگرم رہے اور وہ جرم سے دور ہو۔دوسرا یہ کہ ان جماعتوں سے وابستہ لوگ کسی دوسری جماعت کا رخ کریں۔ایسا مگر دنوں میں نہیں ہو تا۔سب جانتے ہیں کہ آج اندرونِ سندھ پیپلزپارٹی کا کوئی متبادل نہیں ہے۔کراچی میں کسی حد تک دوسری جماعتیں مو جود ہیں جیسے جماعت اسلامی اور تحریکِ انصاف۔تاہم عام آ دمی کی قلبِ ماہیت وقت لیتی ہے۔اس لیے لازم ہے کہ ایم کیو ایم کا سیاسی وجود باقی رہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملے کے سیاسی پہلو کا کسی کو ادراک نہیں ہے۔یہاں بھی معاملہ وزیرستان والا ہے۔جرم کے خلاف تو کامیابی ہورہی ہے جو سلامتی کے اداروں کا ذمہ ہے مگر سیاسی محاذپر خاموشی ہے۔ہم جانتے ہیں کہ بالآخر معاملات کو اس جانب ہی بڑھنا ہے۔مارشل لا میں بھی ایڈمنسٹریٹر مجبور ہوتے ہیں کہ کسی ق لیگ ،کسی ایم کیو ایم کا ہاتھ تھامیں۔سندھ میں ایک سیاسی حکومت، بہرحال پائی جا تی ہے۔اسمبلی بھی مو جود ہے اور اس میں ایم کیو ایم بھی ۔اس زمینی حقیقت کو ہم کیسے نظرا نداز کر سکتے ہیں؟ان باتوں کے ادراک کے ساتھ ،ہمیں کوئی حکمت عملی تلاش کرنی ہے۔سیاسی حکومت یہاں بھی دکھائی نہیں دیتی۔وزراء کے بیانات میں غیر سنجیدگی نمایاں ہے۔ وزیراعظم کراچی کے دورے کر رہے ہیں جو ان کی دلچسپی کا اظہار ہے مگر ان کے ان دوروں کے نتیجے میں سیاسی عمل آگے بڑھتا دکھا ئی نہیں دیتا۔معلوم ہو تا ہے کہ ان کی دلچسپی مجرموں کے خلاف جاری آپریشن تک محدود ہے۔سیاسی حکومت کا وجود بس اتناہی دکھائی دیتا ہے کہ وہ اس عمل میں مقتدی ہے ۔امامت کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔یوں اس سوال کا پیدا ہو نا فطری ہے کہ اقتدار کس کے پاس ہے۔
عام شہری کا ادراک یہی ہے کہ اس جاری معرکے کے اصل ہیرو جنرل راحیل شریف ہیں۔دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن کے حوالے سے یہ بات خلافِ واقعہ بھی نہیں ہے۔ یہ فوج کا کارنامہ ہے اور اس کاکریڈٹ ظاہر ہے کہ اس کی قیادت ہی کو جائے گا۔ عام آ دمی کایہ تاثرمگر یہیں تک محدود نہیں ہے۔وہ بحیثیت مجموعی کسی دوسرے کردارکو نہیں دیکھ رہا۔حکومتوں کا وجود محض میٹرو بنانے اور چلانے سے ثابت نہیں ہو تا۔وہ اس سے بڑھ کر چند باتوں کا متقاضی ہے۔ان میں سب سے اہم وژن اور اس کے بعد قوتِ نافذہ ہے۔لوگوں کو دونوں کا ثبوت نہیں مل رہا۔
امرِ واقعہ یہ ہے کہ دہشت گردی اور کراچی کے تناظر میں سیاسی حکومت متبادل بیانیہ دینے میں پوری طرح نا کام ہے۔دو دن پہلے بلوچستان میں اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ ہوا۔اس میں طے ہوا کہ مدارس کی رجسٹریشن کی جائے گی اور یہ کام وزارتِ تعلیم کرے گی۔ مرکز میں ابھی تک رجسٹریشن فارم ہی نہیں بن سکا اور بلوچستان میں عمل شروع کیا جا رہاہے۔اسلام آباد میں، ایک وقت میں نماز کی ادائیگی کو متبادل بیانیہ سمجھا جارہا ہے۔فکری اور سیاسی محاذپر اس ابہام سے سیاسی حکومت کی نظری اور عملی بے مائیگی پوری طرح واضح ہے۔ اس کے بعد اگر لوگ پوچھتے ہیں کہ حکمران کون ہے تو یہ قابلِ فہم ہے۔غور کیجیے تو یہ سوال دراصل جواب بھی ہے۔یہ جواب کیا ہے ، شاید ہم سب جانتے ہیں مگر کسی کو بتا نا نہیں چاہتے۔یہ بات جمہوریت کے لیے نیک شگون ہے اور نہ حکومت کے لیے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved